مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةفکر و نظرنوبیل انعامات: علوم و تحقیق پر استعماریت کے اثرات

نوبیل انعامات: علوم و تحقیق پر استعماریت کے اثرات

علم و تحقیق کے مختلف شعبوں میں نوبیل انعامات کی شروعات ۱۹۰۱ء سے ہوئی، جب مشہور سائنسداں اور تاجر الفریڈ نوبیل نے اپنے انتقال سے قبل اپنی جائداد اور دولت کے استعمال کے لئے ایک وصیت نامہ مرتب کیا جس کی رو سے بعد از مرگ ان کی چھوڑی ہوئی دولت سے انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے کی جانے والی علمی تحقیقات اور دنیا میں امن و امان کے قیام کی کوشش کرنے والے افراد اور محققین کو ایک مخصوص رقم بطور انعام ہر سال دی جاتی رہےگی۔ شروع کے دنوں میں شاید ان کی وصیت پر ایمانداری سے عمل ہوتا رہا ہوگا لیکن بعد کے ادوار میں یہ باوقار انعام بہت حد تک سیاسی نوعیت کا ہو گیا۔ سرد جنگ کے زمانے میں چین سمیت روسی بلاک کے محققین کو کبھی یہ انعام نہیں مل سکا۔ اسی طرح دور نزدیک کے کچھ برسوں میں ہنری کسنجر، شمعون پیریز، دلائی لامہ، ملالہ یوسف زئی اور بارک اوبامہ جیسے لوگوں کو نوبیل انعام کے لئے منتخب کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ انعام اب کچھ مخصوص طرز فکر کے حامل افراد کو ہی دیا جاتا ہے۔ مہاتما گاندھی کا نام کئی بار اس انعام کیلئے شارٹ لسٹ ہوا لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر انہیں بھی اس کا حقدار نہیں سمجھا گیا۔ سائنس کی مختلف شاخوں کے کاموں کی اختصاصی نوعیت کا اندازہ اس کے مخصوص ماہرین علم ہی کر سکتے ہیں، لیکن معاشیات میں دیا جانے والا نوبیل انعام اکثر ماہرین کے درمیان موضوع بحث بن جاتاہے۔
سال ٢٠٢٤ کے لیے معاشیات کے نوبیل انعام کا اعلان ١٤ اکتوبر ٢٠٢٤ کو کیا گیا، اور یہ اعزاز مشترکہ طور پر امریکہ میں مقیم تین ماہرین اقتصادیات دیرون عاصم اوغلو، سائمن جانسن اور جیمز اے رابنسن کو دیا گیا ہے۔ ان ماہرین کا تحقیقی کام کسی ملک کی معاشی ترقی و خوش حالی، وہاں موجود سماجی و معاشی اداروں کی کارکردگی کے خصوصی تعلق پر مبنی ہے اور اسی تحقیق پر انہیں نوبیل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ علوم کے دیگر شعبوں کے برعکس معاشیات میں نوبیل انعام دینے کی شروعات ١٩٦٩ سے ہوئی، جب کہ تحقیق و خدمات کے دیگر شعبوں میں اس کی شروعات ١٩٠١ سے ہی ہوگئی تھی- معاشیات کے نوبیل انعامات کا اعلان بھی سویڈن کی نوبیل کمیٹی ہی کرتی ہے لیکن یہ انعام الفریڈ نوبیل کی جمع شدہ رقم سےنہ دے کر سویڈن کے مرکزی بینک (سویڈش رکس بینک) کی جانب سے الفریڈ نوبیل کی یاد میں دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سال کے معاشیات کے نوبیل انعام یافتہ ماہرین اقتصادیات، اس خاص نظریہ کو سمجھنے کے لیے ایک طرح کا معاشی نظریاتی ٹول تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ مختلف ممالک میں معاشی اور سماجی ادارے ملک کی ترقی و خوش حالی کے لئے کس طرح مختلف کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان تینوں نوبل انعام یافتہ افراد میں دارون عاصم اوغلو ترک نژاد امریکی ہیں جو ١٩٦٧ میں استنبول میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے لندن سکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، اور اس وقت ایم آئی ٹی، کیمبرج یونیورسٹی، امریکہ میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر سائمن جانسن ہیں، جو ١٩٦٣ میں شیفیلڈ، انگلینڈ میں پیدا ہوئے، انہوں نے ایم آئی ٹی کیمبرج سے ١٩٨٩ میں پی ایچ ڈی کیا اور آج کل وہیں پر بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ معاشیات کا نوبیل حاصل کرنے والوں میں تیسرے شخص جیمز اے رابنسن ہین، جو ١٩٦٠ میں امریکہ میں پیدا ہوئے اور ١٩٩٣ میں ایل یونیورسٹی، کنکٹیکٹ، امریکہ سے پی ایچ ڈی مکمل کی اور اس وقت وہ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے ان ماہرین اقتصادیات کو شارٹ لسٹ کرتے وقت جو پیمانہ مقرر کیا اس کی بنیاد مختلف ممالک میں جغرافیائی اور قدرتی ذرائع میں مماثلت کے باوجود معاشی ترقی اور خوش حالی کی سطح الگ الگ ہونے کی وجوہات پر تحقیق ہے۔ ان ماہرین نے اپنی تحقیق اور تجزیے میں اس بات کی ٹھوس پڑتال کرنے کی کوشش کی ہے کہ بہت سارے ممالک میں جغرافیائی اور قدرتی وسائل کی یکسانیت کے باوجود ان کی ترقی اور خوش حالی کی سطح اور رفتار کن وجوہات سے اور کس طرح الگ الگ ہوتی ہے اور کس طرح ان ملکوں کی سماجی و معاشی تنظیمیں اور ادارے مختلف اوقات میں معاشی خوش حالی اور ملک کی ترقی میں کیا اور کیسا کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے منطقی طور پر ان وجوہات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح بعض ممالک امیر اور خوش حال ہو جاتے ہیں اور بعض غریب اور پسماندہ رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحقیق کی شروعات سولہویں صدی سےکی ہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں یوروپی نوآبادیات کا ان ممالک کی معاشی ترقی پر پڑنے والے اثرات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔
ان ماہرین اقتصادیات نے اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے ان خطوں میں جہاں استعماری طاقتوں نے اپنے نوآبادیاتی دور میں معاشی اور سماجی ادارے کھڑے کئے، جس کی وجہ سے ان ممالک کے اندر معاشی خوش حالی پیدا ہوئی اور اسے مستحکم کرنے میں اداروں نے اہم کردار ادا کیا تھا، جب کہ ان ممالک میں جہاں اس طرح کے ادارے خراب حالت یا خراب کارکردگی کے حامل تھے وہاں وہ معاشی ترقی اور خوشحالی میں طویل مدتی استحکام پیدا نہیں کر سکے۔ گویا ان انعام یافتہ ماہرین معاشیات نے کسی ملک کی معاشی ترقی اور وہاں موجود مختلف طرح کے اداروں کے درمیان ایک مثبت تعلق کو معاشی ترقی کے بنیادی عنصر کی حیثیت کے طور پر تسلیم کیا ہے اور اسی خلاصے کو اہمیت دی ہے کہ کسی ملک کی ترقی و شرح نمو میں ادارہ جاتی حکمت عملی زیادہ کارگر اور تیز رفتار ہوتی ہے۔ ان ماہرین نے نو آبادیاتی تاریخ کے چار سو سال کے اعداد و شمار کے ساتھ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ نو آبادیاتی استعماری طاقتوں نے ایشیا اور افریقہ میں اپنی نوآبادیات میں ادارے قائم کر کے ان علاقوں کو ترقی یافتہ بنادیا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ علاقے اپنی ترقی اور خوش حالی کو تادیر قائم نہیں رکھ سکے اور نو آبادیاتی حکومتوں کے ہٹتے ہی وہاں پھر غریبی اور لاچاری نے ڈیرے ڈال دئے۔ لیکن ان کی نیتوں کا کھوٹ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس حقیقت کا اظہار بالکل نہیں کرنا چاہتے کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ایشیا اور افریقہ کے وہ ممالک جو اپنے وقت کے امیر ترین اور خوشحال ممالک تھے، استعماری نوآبادیات کے دوران ان ممالک سے معاشی اور قدرتی وسائل کی لوٹ کا ایک منفرد کاروبار شروع ہوا جس کی وجہ سے مال و دولت اور وسائل کا الٹا بہاؤ ایشیا اور افریقہ کے ممالک سے انگلینڈ و دیگر یورپی ممالک کی جانب ہو گیا۔ دولت اور وسائل کی یورپ کی طرف اسی منتقلی کی وجہ سے ایشیائی و افریقی ممالک نوآبادیات اور استعماریت کے دوران غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے اور ترقی کی دوڑ میں بھی پچھڑ گئے، جب کہ انہیں وسائل سے انگلینڈ اور یورپ کے دیگر ممالک امیر ترین ہوتے چلے گئے۔
معاشی ترقی اور خوشحالی کا یہ نظریہ جو اداروں کی کارکردگی کے تعلق سے ان ماہرین معاشیات نے پیش کیا ہے وہ صرف یورپ، برطانیہ اور امریکہ کی ترقی کے لئے ہی صحیح ہے اور صرف ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کے لئے اپنا خاص نقطۂ نظر پیش کرتا ہے۔ ایسے نظریات پیش کرنے والے دانشور یورپ اور امریکہ کے ہاتھوں صدیوں سے جاری ایشیائی اور افریقی ممالک کے لگاتار استحصال کی بات ہی نہیں کرتے۔ ان تمام ماہرین تعلیم اور دانش ور پروفیسروں کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ سولہویں سے بیسویں صدی کے دوران عالمی استعمار کی تاریخ اور اپنی نو آبادیات میں انگلینڈ و دیگر یورپی ممالک کی تمام تر مجرمانہ لوٹ اور وسائل کی بندر بانٹ کی حقیقیت کے باوجود، وہ امیر ایشیائی اور افریقی ممالک سے یورپ کی طرف اقتصادی وسائل کی منتقلی کی کوئی بھی اخلاقی یا سیاسی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ فوجی قوت کے لحاظ سے طاقت ور اور مستحکم یورپی ممالک جو اپنے وقت کے نوآبادیاتی آقا تھے، انہوں نے کس طرح پسماندہ ممالک کا استحصال کر کے اپنی ترقی کی راہ ہموار کی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اب اس سلسلے میں وہ اپنے ہاتھوں ہونے والے استحصال کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے ان ممالک میں موجود غربت اور پست معاشی حالات کا ذمہ دار خود انہیں ممالک کو ٹھہرانے کے لئے نئے نئے نظریات پیش کرتے رہتے ہیں۔ حقائق کے برعکس وہ ایشیائی اور افریقی ممالک کی پسماندگی کا الزام انہی ممالک پر ڈالنے لگتے ہیں جہاں انہوں نے صدیوں حکومت کی، عوام کا معاشی و سیاسی استحصال کیا، مادی و قدرتی وسائل پر دست درازی کی، لوٹ مار کی۔ ایسا ظالمانہ استحصال کرنے والوں کے ظلم و جبر کو دنیا کے سامنے لانے کے بجائے اس کا دفاع کرنے کے لئے عالمانہ تحقیق کرتے ہیں، اسی تحقیق کے ذریعہ معاشی و سیاسی مسائل کے لئے غریب زخم خوردہ ممالک کو ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور نتیجے کے طور پر عالمی معیار کا ایوارڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
پروفیسر محمد خالد اعظمی
پروفیسر محمد خالد اعظمی
پروفیسر محمد خالد اعظمی شبلی نیشنل کالج میں شعبۂ معاشیات کے صدر ہیں۔ بظور ماہر معاشیات و تعلیم آپ کے مضامین مختلف مختلف مجلوں اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں