اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، “ہائیڈ پارک” وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اُس وقت ہمارے ذرائع ابلاغ کے ایک بار پھر وارے نیارے ہو گئے، جب پچھلے دنوں بلیو ایریا ہی میں ۔۔۔ ایک بار پھر ۔۔۔ ایک اور ۔۔۔ مخبوط الحواس شخص نے بچوں اور عورتوں (میں سے ایک) کو ڈھال بنا کر حکومت کے خاتمہ اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر دیا۔ ہر چینل کے رپورٹر مائیک تھامے اور کیمرہ مین اپنے اپنے کیمرے کندھوں پر لادے بھاگم بھاگ وہاں جا پہنچے۔ اور اس پگلے کی خاطر بھی ذرائع ابلاغ نے اپنی “میراتھن نشریات” کا آغاز کر دیا۔ اس کی حرکات ہی نہیں، سکنات کی بھی خبریں دی جانے لگیں۔ ایک ایک لمحے کی سنسنی خیز رپورٹنگ کی گئی۔ ہر چینل نے دوسرے پر بازی لے جانے کی بھرپور کوشش کی۔ اِسی کوشش میں کبھی خود اُس فاتر العقل شخص کا انٹرویو نشر کیا گیا، کبھی اُس کی بیوی کا اور کبھی اُس کے سسر کا۔ قصہ مختصر یہ کہ پانچ چھ گھنٹوں کے اندر اندر اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ذہنی مریض نے عالمی شہرت حاصل کر لی۔ یہ معاملہ دیکھ کر مارے رشک کے ہم خود ذہنی مریض ہو گئے! صاحبو! شہرت حاصل کرنے کی آرزو ہی میں تو ہم قلم گھس رہے ہیں۔ ‘می نویس و می نویس و می نویس’ کیے جا رہے ہیں۔ ہم نے کسی گھسیارے کی طرح قلم گھستے ہوئے ایک عمر بتا دی ہے۔ مگر ٹی وی چینلوں سے کیا گلہ؟ ہمارے تو سگے پڑوسی بھی یہی پوچھتے ہین:
“صاحب! آپ کام کیا کرتے ہیں اور کہاں کرتے ہیں؟ ہائیں؟ ارے صاحب آپ بھی کن چکروں میں پڑ گئے ہیں، چھوڑیے، کوئی ڈھنگ کی نوکری ڈھونڈیے!”
اُس شب ہماری بیگم صاحبہ نے بھی ہماری توجہ اُس شخص کی عالم گیر شہرت کی طرف مبذول کروائی۔ ہم نے اِسے طعنہ سمجھ کر اُن سے عرض کیا:
“اے جان! اگر تم ساتھ نہ دو تو تنہا مجھ سے کیا ہوگا؟”
یہ مصرع سن کر بھڑک اٹھیں۔ کہنے لگیں:
“خود تو ہیں ہی ۔۔۔ کیا مجھے بھی پاگل سمجھ رکھا ہے؟”
ہم نے اپنے دونوں کلے پیٹتے ہوئے عرض کیا:
“بیگم! اس مشہورِ عالم ممتاز شخصیت کو محض ہم سے تشبیہ دینے کی خاطر اُسے پاگل قرار نہ دو۔ اُس نے دو شادیاں کر رکھی ہیں ۔۔۔ دو شادیاں ۔۔۔ وہ انتہائی عظیم شخص ہے۔”
جل کر بولیں: “تب ہی تو پاگل ہو گیا ہے بے چارہ!”
پھر کچھ دیر تک کچھ سوچتی رہیں۔ سوچنے کے بعد کچھ بڑبڑاتی رہیں۔ بڑبڑانے کے بعد خود کلامی کرتے ہوئے کہنے لگیں:
“اللہ جانے ۔۔۔ دو شادیاں کرنے کی وجہ سے پاگل ہوا ہے ۔۔۔ یا ۔۔۔ پاگل ہونے کی وجہ سے دو شادیاں کر بیٹھا؟”
یہ سن کر ہم نے نتیجہ نکالا اور اُنہیں بتا بھی دیا کہ:
“اگر آپ اُس شخص کی وفا شعار زوجہ کی طرح ہمارا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں بھی اب شہرت حاصل کرنے سے قبل دوسری شادی کرنی پڑے گی۔ خیر! بلیو ایریا میں کئی ایسے ہوٹل ہیں جہاں لوگ شادی رچانے آتے ہیں۔ ایک تو “نئی بات” کے دفتر کے قریب ہی ہے۔ دفتر سے نکلے، سہرا باندھا، اور نئی نویلی دلہن کو لے کر “ڈی چوک” جا پہنچے۔ وہاں پہنچتے ہی دونوں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر خود ہی نعرے مارنے شروع کر دیے۔ ۔۔۔ “مبارک ہو! ۔۔۔ مبارک ہو! ۔۔۔ مبارک ہو! ۔۔۔ میڈیا والے آپ ہی کیمرے سنبھالے بھاگے بھاگے چلے آئے۔”
ہم آنکھیں موندے شیخ چلی کی طرح تقریر کیے جا رہے تھے۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ بیگم صاحبہ پاؤں پٹختی ہوئی اور یہ کہتی ہوئی کچن کی طرف جا رہی ہیں کہ:
“میڈیا والوں پر تو ہر وقت بس دیوانگی ہی سوار رہتی ہے۔”
یہ تبصرہ سن کر ہمارا پھول سا دل مسل کر رہ گیا۔ سچ کہا ہے کسی شاعر نے کہ ۔۔۔ ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروسی!
رشک تو ہمیں زمرد خان پر بھی آیا کہ اُنھوں نے ہیرو بننے کا موقع پایا اور بن گئے۔ صرف ایک ہم ہی اُن کے لیے “مبارک ہو! ۔۔۔ مبارک ہو! ۔۔۔ مبارک ہو!” کی رٹ نہیں لگائے ہوئے ہیں، ایوانِ صدارت تک سے اُن کی واہ وا ہو رہی ہے۔ مگر ہمارے چچا چودھری چراغ دین چکڑالوی نے ہمارے ان عقیدت مندانہ خیالات سے اتفاق نہیں کیا۔ کہنے لگے:
“بیٹا! زمرد خان کی قسمت اچھی تھی، ورنہ “ہیرو” بننے کا یہی موقع “زیرو” بننے کا بھی ہو سکتا تھا۔ ذرا سوچو تو سہی اگر خدا نخواستہ، خدا نخواستہ، ہزار بار خدا نخواستہ وہ ایک پاگل کے ہاتھوں مارے جاتے تو یہی پاگل دُنیا اُنھیں بھی پاگل کہہ رہی ہوتی۔ ابھی تو چودھری نثار صاحب نے پولیس اہلکاروں کو صرف معطل کیا ہے اور ان میں سے بعض کا صرف تبادلہ کیا ہے، دوسری صورت میں تو وہ اُنھیں پھانسی ہر لٹکا دیتے کہ تم سے ایک قومی رہنما کی قیمتی جان کی حفاظت نہیں ہو سکی؟”
ہم نے شدید احتجاج کیا:
“چچا! آپ تو ہمیشہ منفی پہلو ہی دیکھتے ہیں۔ پورا ملک نہیں، پوری دُنیا زمرد خان صاحب کی جرأت و بہادری کو خراجِ تحسین پیش کر رہی ہے اور ہمارے سکیورٹی اداروں کی تنقیص کر رہی ہے کہ زمرد خان صاحب نے تو اُس کو جھپی ڈال دی۔ مگر سکیورٹی ادارے کھڑے تماشا دیکھتے رہے۔ اب ہر شخص ہر ادارے کی دُم پکڑے کھڑا ہے کہ ۔۔۔ اے روسیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا!”
چچا کہنے لگے:
“ایسی ہی ایک جھپی، اس سے قبل، اسی جگہ قمر زمان کائرہ صاحب نے بھی ڈالی تھی۔ اُس وقت بھی ‘مبارک سلامت’ کا بڑا غلغلہ مچا تھا۔ مگر مجھے پہلی بار رانا ثناءاللہ صاحب کی کوئی بات احمقانہ کی بجائے عاقلانہ محسوس ہوئی ہے۔ اُنھوں نے ٹھیک کہا کہ زمرد خان نے جرأت کا نہیں حماقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ ارے پتر! پُرکھوں نے بے سوچے سمجھے نہیں کہا تھا کہ ۔۔۔ ‘جس کا کام اُسی کو ساجے، اور کرے تو ٹھینگا باجے’ ۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ اِس داستان کے “دونوں ہیرو” ایک جیسے تھے۔ اور دونوں میں سے ایک ہی کو غالب آنا تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ زمرد خان صاحب غالب رہے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ ورنہ یقیناً یہ حماقت کا مظاہرہ تھا۔ جرأت کے مظاہرے ایسے نہیں ہوتے۔”
ہم نے چچا کی بقراطیوں پر تلملا کر پوچھا:
“پھر کیسے ہوتے ہیں؟”
چچا نے بڑے سکون سے جواب دیا:
“اگر ‘سویٹ ہومز’ والے زمرد خان کو واقعی جرأت کا مظاہرہ کرنا ہے تو ایک بار، صرف ایک بار وہ ایک ‘زبانی بیان’ دے دیں کہ امریکا نے وانا کے ایک دینی مدرسے پر ڈرون حملہ کر کے جو پھول جیسے ٨٠ بچوں کو بھون ڈالا تھا اس پر ہم شقی القلب امریکا کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ ہے اُن میں یہ جرأت؟”