﷽
سنہ ١٩٩٢ ميں آکسفورڈ كى طرف سے سمرقند ميں ایک بين الاقوامى كانفرنس كا انعقاد ہوا، جس كا مقصد تھا: خرتنک ميں امام بخارى رحمۃ اللہ علیہ كى قبر كے نزدیک واقع مسجد كى تعمیرِ نو اور توسيع۔ اس كانفرنس ميں دنيا كے مختلف علاقوں سے علماء و مشايخ نے شركت كى۔ ان كى تعداد سو سے زائد تھى۔ ہمارے اكرام ميں سمرقند كى انتظاميہ نے پر تكلف دعوت كى، جس ميں خاص ڈش بخارى پلاؤ كى تھى۔ ان لوگوں نے بتايا کہ یہ ازبكستان كى قديم قومى ڈش ہے۔ اس كا نام بخارى ہے، كيوں کہ اس كى ابتدا بخارا سے ہوئى تھى۔ وه پلاؤ مجھے اب تک دو وجہوں سے ياد ہے۔ ایک تو یہ کہ اس ميں ہندوستانى مسالے نہيں تھے، دوسرے یہ کہ اس ميں خشک ميوه جات وافر مقدار ميں تھے۔ ان دونوں خصوصيات كى وجہ سے ہم لوگوں نے اسے بريانى سے تشبیہ دينا مناسب نہ سمجها۔ وه اس قدر لذيذ تھا کہ بہت دنوں تک ہمارى گفتگو كا موضوع بنا رہا۔
اس كے بعد سنہ ٢٠١٩ مين دو باره بخارا جانا ہوا، اور اس بار بخارا ميں اسى بخارى پلاؤ كے تناول كرنے كا اتفاق ہوا۔ وہى لذت اور وہى ميووں كى كثرت۔
كل ميں نے محرم سنہ ١٤٤٣ ہجری كے عمره كے سفرنامہ ميں پلاؤ بخارى كا تذكره كيا، اس كى وجہ یہ تھى کہ مدينہ منورہ ميں شيخ احمد عاشور نے ہم لوگوں كو عشائیہ پر مدعو كيا، جس ميں وہاں كے مشہور عالم شيخ حامد اكرم بخارى بھى موجود تھے۔ ان كے دادا نے روسيوں كے تسلط كے بعد بخارا سے ہجرت كى تھى۔ وہاں سے وه ہندوستان گئے، بمبئى ميں قيام كيا، اور وہيں شادى كى۔ بعد ميں مدينہ منورہ ہجرت كى۔ شيخ كى والده بھى اردو بولتى تھيں۔ مجلس كے دوران بخارا كا ذكر آيا۔ عام طور سے بخارا سے آنے والے علماء شيخ كے يہاں قيام كرتے ہيں، اور مدينہ كے بخارى اوقاف كے وه ذمہ دار ركن بھى ہيں۔
انہوں نے مجھ سے بخارا كے دونوں سفروں كى تفصيلات دريافت كيں۔ نيز امتحاناً پوچھا کہ وہاں كا سب سے اچھا كھانا آپ كو كيا لگا؟ ميں نے پلاؤ بخارى كا تذكره كيا تو انہوں نے ميرى پسند كى تصويب كى۔
بخارا ہى سے پلاؤ بخارى كا تعلق ہے۔ یہ بات تقريباً تيس سال سے ميرے نزدیک مسلمات ميں رہى ہے۔ آج اس مسلّمہ پر ميرے عزيز شاگرد مولانا توقير صاحب ندوى نے عمان اور امارات كے باورچيوں كے حوالہ سے حملہ كرنے كى كوشش كى تو ميں نے اسے دخل در معقولات يا نكتہ بعد الوقوع سے زياده اہميت نہ دى۔ پھر ميں نے سوچا کہ مولانا توقير باصلاحيت عالم ہيں، قرآن كا درس ديتے ہيں اور ان كے مستفيدين كا حلقہ بھى وسيع ہے، كہيں ايسا نہ ہو کہ باورچيوں كى سند سے حاصل كيا گيا یہ علم اعتبار پاكر اصحاب علم و فن كو متاثر كر دے۔ یہ خيال ذہن ميں آتے ہى ميرے ذہن ميں موضوع احاديث اور من گڑھت روايات كى پورى تاريخ تازه ہوگئى۔ لہذا ضرورى سمجھا گيا کہ حق كا دفاع كيا جائے اور پلاؤ بخارى كى حرمت كى حفاظت كى جائے۔
اس كے لئے ميں نے انگريزى زبان ميں ويكيپيڈيا، بخارا اور ازبكستان كے ويب سائٹس، اور مختلف ڈكشنريوں ميں پلاؤ بخارى پر لکھے گئے مقالات پڑھے، وه كافى طويل ہيں، ان كا خلاصہ درج ذيل ہے:
پلاؤ بخارى ازبكستان كى قومى ڈش ہے، اس كے مفردات ہيں: چاول، گوشت كى بوٹياں، گاجر، پياز، مٹر پھلى، كشمش، اور ديگر خشک ميوه جات۔ اس كى ابتدا بخارا سے ہوئى تھى اور اس پلاؤ كى تاريخ صديوں پرانى ہے۔ یہ اس علاقہ كى مشہور ڈش ہے، اور وہيں سے دنيا كے دوسرے علاقوں ميں پھيلى۔
روسى تسلط كے بعد بخارا كے لوگ بڑى تعداد ميں مكہ مكرمہ اور مدينہ منوره وغيره ميں قيام پزير ہوگئے۔ وه جہاں بھى گئے بخارى پلاؤ ساتھ لے گئے۔ جيسے دنيا ميں ہندوستانى جہاں كہيں ہيں وہاں بريانى موجود ہے۔ عربى زبان ميں پلاؤ كے لئے كوئى لفظ نہيں تھا تو انہوں نے اسے “رز بخاري” كہنا شروع كرديا۔ جن لوگوں كو یہ تاريخ نہيں معلوم انہوں نے لفظ بخار سے اسے مشتق قرار ديا۔ اس طرح كے تصرفات زبانوں اور تہذيبوں ميں بہت عام ہيں۔ اس اشتقاق كى حيثيت ایک غير دلچسپ لطيفہ سے زياده نہيں۔
لہذا آپ بخارى پلاؤ كھائيں اور پورى رغبت سے كھائيں ليكن احسان فراموشى نہ كريں، اور نہ تدليس سے كام ليں۔ بخارا كا ذكر ضرور كريں۔