مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةانشائیہاستطراد كا مخمصہ

استطراد كا مخمصہ

حامد:          ابن سينا كى “القانون” ميں ايسى طبى تحقيقات ہيں، جو بالكل ماڈرن معلوم ہوتى ہيں، بلكہ اس كے بعض انكشافات تو اب تک جديد ميڈيكل سائنس كى دسترس سے باہر ہيں۔ واه كيا عالى دماغ تھا! كاش مسلمانوں ميں ابن سينا كے بعد دو چار ایسے عباقره اور پيدا ہوئے ہوتے!
زيد:          فلسفہ و منطق جيسے منحرف و گمراه كن موضوع سے ميرى لوحِ ساده پر ايک ارتعاش طارى ہو جاتا ہے۔ ہميں تو ایک ابن سينا بھى گوارا نہيں، اور آپ دو چار كى بات كر رہے ہيں۔ اچھا ہوا کہ آپ كى تمنا “اے بسا آرزو کہ خاک شده” كے زمره ميں ره گئى۔ ان فنونِ عقلیہ سے مسلمانوں كو كيا فائدہ پہنچا، سوائے اس كے كچھ خبطى ارسطو كى گاڑى كے قلى بن گئے۔
اكبر:          فلسفہ و منطق سے اگر آپ كو بيگانگى ہے تو ضرور ان پر غصہ اتاريں تا كہ آپ كا کلیجہ ٹھنڈا ہو اور آپ كى لوح ساده كا ارتعاش كم ہو، ليكن يہاں فلسفہ و منطق كا موضوع زير بحث ہى نہيں۔ اِس وقت گفتگو طب كے ميدان ميں ابن سينا كى امامت پر ہو رہى ہے۔ معلم ثانى ميں  اگر عيوب و نقائص تھے، تو كيا اس كا مطلب یہ ہے کہ اس كے تمام ہنروں كو عيب  سمجھ ليا جائے، اس كے كمالات پر پرده ڈال ديا جائے؟ اور احسان شناسی كى جگہ مسلکِ لئيماں پر فخر كيا جائے؟ کیا یہ اس فضيلت عدل و انصاف اور منقبت شكر و اعتراف سے بغاوت نہيں جس كى تعليم قرآن نے دى ہے، اور جو انسانيت كے بلند ترين اقدار ميں سے ہے۔
زيد:          ابلہوں پر ابن سينا كا جادو چل گيا۔ مجھے تو آپ دونوں كا ايمان مشكوک نظر آرہاہے، ظاہر ہے كہ جو ملحدين و زنادقہ كى كتابيں پڑھے گا، اس كے قلب پر الحاد و زندقہ ہى كا نقش ثبت ہوگا۔ اگر پڑھنا ہى تھا تو “تفريح الاذكياء في احوال الانبياء”، “اعمالِ قرآنى”، “كريما”، “طوطى نامہ”، “راهِ نجات”، “فتوح الشام”، “مرآة الاسرار”، اور “اقتباس الانوار” وغيره پڑھتے۔
حامد:          كيا ابو على كى مرتبت شناسى كفر ہے؟ ہزاروں سال نرگس اپنى بے نورى پہ روتى ہے تب جا كے ابو على جيسے نادرۂ روزگار پيدا ہوتے ہيں، مگر جب وه پيدا ہو جاتے ہيں تو بد چشم انہيں ديكھنے سے انكار كر ديتے ہيں، اور اس وقت تک تسليم نہيں كرتے جب تک انہيں مار نہ ليں۔ وائے ستم كہ ابو على كو مارنے كى بعد بھى بڑا نہيں مانا گيا۔
زيد:          آپ بھول گئے كہ امام غزالى نے “تہافت الفلاسفہ” ميں ابن سينا كو تين وجوه سے كافر قرار ديا ہے، اور اس فتوى پر آج تک علمائے حق كا اتفاق ہے۔
صادق:          آپ كى بات ہر قلبِ مؤمن كى آواز ہے۔ ابن سينا كافر ہے، اور جو اس كا قدر دان ہے وه الحاد و زندقہ ميں اس كا ہمنوا ہے۔ فلسفہ و منطق ہفوات و اباطيل ميں سے ہيں، اور ان كى تحصيل عمر شريف كا ضياع ہے۔
رشيد:          اس فن كے فضول ہونے پر مجھے ايك لطيفہ ياد آگيا۔ ميرے دادا مرحوم فرماتے تھے كہ ان كے ایک دوست منطق پڑھ كر گھر لوٹے۔ شام كو اپنے والد كے ساتھ كھانا كھا رہے تھے۔ كھانے ميں ایک انڈا تھا۔ ان كے والد صاحب نے پوچھا: بيٹا منطق پڑھنے كا كيا فائده؟ كہنے لگے كہ اگر ميں چاہوں تو منطق كے زور سے اس انڈے كو دو ثابت كردوں، اور انہوں نے تقرير شروع كردى۔ اس دوران ان كے والد صاحب نے وه انڈا كھا ليا۔ جب صاحبزاده تقرير سے فارغ ہوئے تو پوچھنے لگے كہ ابا جان انڈا كيا ہوا؟ بيٹا وه تو ميں نے كھا ليا۔ جو تم نے ثابت كيا ہے، اسے تم كھا لو۔
ہاشم:          اسى لئے كہا جاتا ہے كہ آم سے كام ركھو، گٹھلى گننے سے كيا فائده؟
ظريف:          آم بھى كيا پھل ہے! ثمرِ بہشت ہے۔ ہندوستان ميں اس كى جتنى قِسميں ہيں وه كہيں نہيں۔ آم كے سامنے سارے پھل ہیچ ہيں۔
جميل:          اس پر مجھے غالب كى مثنوى “در صفت انبہ” ياد آگئى، فكر كى جولانى، تشبیہات بدیعہ كى فراوانى، لفظ زمينى اور معنى آسمانى:
نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادۂ ناب بن گیا انگور
یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے
مجھ سے پوچھو تمہیں خبر کیا ہے
آم کے آگے نیشکر کیا ہے
سفيان:          امرود كا مقام بھى آم سے فروتر نہیں۔ امرود كى مناسبت سے اكبر الہ آبادى ياد آگئے۔ ان كے كلام ميں حكمت و مزاح كا كيا لطيف امتزاج ہے۔ اب ايسے مرنجا مرنج شاعر پيدا ہونا بند ہوگئے ہيں۔ امرود كى كيا خوب ثنا خوانى كى ہے:
كچھ الہ آباد ميں  ساماں نہيں بہبود  كے
ياں دھرا كيا ہے بجز اكبؔر كے اور امرود كے
يوسف:          كيا بد ذوقى ہے۔ اس شعر كے مفہوم كو توڑ مروڑ كر كيا كا كيا بناديا؟ لگتا ہے كہ دنيا كے كسى ايسے غير مہذب گوشے ميں ہوں جہاں ہر طرف وحشى ہى وحشى ہيں۔
ريحان:          مجھے غالب اور اكبر الہ آبادى ایک آنکھ نہيں بھاتے۔ ان كى شاعرى ميں آم، امرود اور چھوٹے چھوٹے تفريحى موضوعات كا اظہار زياده ہے۔ معانى كى گہرائى اور بلند خيالى تو صرف اقبال كے يہاں ہيں، شاہين، عقاب، انجم، كہكشاں۔ اور كيا خوب كہا ہے شاعر خودى شعار نے:
پرے ہے چرخ نيلى فام سے منزل  مسلماں كى
ستارے جس كى گرد راه ہوں وه كارواں تو ہے
اكبر:          ایک طرف ابن سينا پر ظلم ناروا، اور دوسرى طرف غالب و اكبر پرحيف و جفا، آخر وه كون سى دماغى كيفيت ہے جس كے تحت بد ذوق و كج فہم بھى شعر و فلسفہ كى بات كرنے لگتے ہيں، اور بڑے بڑے شعراء كے نام لے كر دوسروں كو مرعوب كرتے ہيں۔ اس سے ڈارون كے نظريہ كے بالمقابل ایک دوسرے نظريہ كى تصديق ہوتى ہے۔ وه كہتا تھا كہ بندر ترقى كرتے كرتے انسان ہوگيا ہے۔ شايد زياد صحيح يہ ہے كہ انساں تنزل كرتے كرتے مستقبل قريب ميں بندر بن جائے گا۔
حامد:          بات منطق كى ہو رہى تھى، یہ آم، امرود، غالب، اكبر اور اقبال كا ذكر كہاں سے نكل آيا؟
زيد:          آپ دو باره اس غارت گرِ دين، شوم زده فنِ كمين كا نام نہ ليں، ملا على قارى نے بالكل سچ كہا ہے كہ كاغذ سے استنجاء كرنا مكروه ہے سوائے اس كاغذ كے جس پر منطق لكھى ہو۔
شفيع:          آپ حد ميں رہيں، امام غزالى اور ديگر اكابرين كى توہين نہ كريں۔ كيا يہ كہنا چاہتے ہيں كہ ان كى كتابيں استنجاء كرنے كے لئے ہيں؟ بزرگوں كى شان ميں گستاخى سے سوء خاتمہ كا انديشہ ہے۔
زيد:          سمجھ ميں نہيں آتا كہ كچھ لوگ منطق كو اس قدر اہميت كيوں ديتے ہيں؟ امام غزالى يا كسى اور نے كہا ہے كہ عقل مند كو منطق كى ضرورت نہيں، اور بيوقوف كى سمجھ ميں نہيں آتى۔
صادق:          منطق درس نظامى كى بليات ميں سے ہے۔ اچھا ہوا كہ ندوه نے اس سے چھٹكارا حاصل كرليا۔ ایک بار تو ندوه كے طلبہ نے انتہا كردى، منطق كا جنازه ہى نكال ديا۔
حامد:          اسى كا نتيجہ ہے كہ آپ لوگوں كى باتوں ميں ارتكاز نہيں، ایک موضوع شروع ہوتا ہے، اور پھر وه كچھ كا كچھ ہو جاتا ہے۔ اب يہ نہ پوچھيں كہ ارتكاز كيا ہوتا ہے: كوئى پوچھے كہ یہ كيا ہے تو بتائے نہ بنے۔
زيد:          تو كيا آپ كہنا چاہتے ہيں كہ علامہ شبلى اور علامہ سید سلیمان ندوى كے يہاں ارتكاز نہيں؟ آپ كو اندازه نہيں كہ كن لوگوں كو نشانہ بنا رہے ہيں؟ آپ كو احساس بھى ہے كہ یہ كس درجہ كى ناشائستگى اور بد تميزى ہے؟ ہم متبعين دين حنيف كچھ لکھنے يا بولنے كے لئے كسى منطق كے پابند نہيں: شركت عطر نہيں چاہتى غيرت ميرى
حامد:          بات كا بتنگڑ نہ بنائيں۔ يہ ناموران ہمارے نزديک بھى واجب التعظیم ہيں، اور ہم بھى كفش بردارانِ اكابر ہیں۔ شايد آپ بھول رہے ہيں كہ علامہ شبلى اور علامہ سید سلیمان ندوى دونوں فلسفہ و منطق كے امام تھے:
شايد ترى سمجھ ميں رودادِ غم نہ آئے
ڈرتا ہوں آرزو  كى  تشريح مختصر سے
رشيد:          آپ لوگ كن خرافات ميں پڑے ہوئے ہيں۔ عصر جديد ميں يہ دقيانوسى باتيں! اسى لئے اقبال نے كلام كو قوالى سے تعبير كيا ہے۔ گفتگو ان موضوعات پر ہونى چاہئے جو اپنے عہد و ماحول سے متعلق ہوں، ايران و توران كى بات كا كيا حاصل؟

مسعود:          آپ نے ميرے دلى خيالات پڑھ لئے۔ بات ہونى چاہئے يوگى اور مودى كى، اويسى كى اور لالو يادو كى، يا پهر مدرسوں كے حالِ زار كى اور قيادتِ نا اہل و بيمار كى، يا كسى فسوں گر اور كلا كار كی۔

المادة السابقة
المقالة القادمة
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں