مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine

تمغۂ جرأت

دنیا میں ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سب دوڑ رہے ہیں۔ کچھ پانے کے لئے، کچھ بننے کے لئے۔ کوئی کچھ پالیتا ہے، کچھ بن جاتا ہے، کوئی پیچھے رہ جاتا ہے اور کسی کی دوڑ ہر وقت چلتی رہتی ہے۔ بہت سے بہت زور لگاتے ہیں، جی جان ایک کردیتے ہیں۔ کچھ اپنی محنت کے مطابق صلہ پاتے ہیں، کچھ زیادہ پاتے ہیں، کچھ کم پاتے ہیں اور کچھ، کچھ بھی نہیں پاتے۔ ۔۔۔ اور کچھ، کچھ بھی نہیں کرتے مگر بہت زیادہ پا جاتے ہیں۔ یہ قسمت کے دھنی ہوتے ہیں۔
بڑے بڑے سیانوں، سمجھداروں، فلسفیوں، دانشوروں، ہنرمندوں کو کوئی نہیں جانتا۔ اور بہت سے تیسرے درجے کی سمجھ رکھنے والے، اخلاق اور کردار میں بہت ہی معمولی اور چھوٹے لوگ، بڑے بڑے مرتبے، بڑی ہی مقبولیت پا لیتے ہیں۔ کیا قدرت کا کوئی قانون ہے؟ اللہ جانے۔۔۔
یہ میں کن باتوں کو لے بیٹھا۔ دنیا کون سی میری مرضی سے چل رہی ہے! مجھے تو آپ کو ایک کہانی سنانی ہے۔
یہ کہانی ہے حوالدار بندے علی کی۔ لیکن جب کی یہ کہانی ہے وہ حوالدار نہیں تھے، صرف سپاہی تھے۔ اور یہ کہانی ہے ہمارے گاؤں مراد والی کی۔
میں پانچویں جماعت کے بعد ہی پڑھنے کے لئے اپنے مامے کے پاس شہر چلا گیا تھا۔ چھٹیوں میں مراد والی آتا تو زیادہ تر گھر پر ہی رہتا۔ میرے بچپن کے دوست اب بہت کم رہ گئے تھے۔ بہت سے کمانے کے لئے شہر چلے گئے تھے۔ کوئی اس شہر میں، کوئی دوسرے شہر میں۔
ہمارا گاؤں دراصل ایک چھوٹا سا قصبہ تھا جہاں ایک کچہری تھی، جس کے ساتھ ہی کرم دین کا چائے کا ڈھابہ تھا۔ اسی ڈھابے پر ایک دن مجھے حوالدار بندے علی مل گئے۔ ان کے ساتھ ان کے دوست نائیک تاج دین بھی تھے۔ یہ دونوں اکثر ساتھ ہی نظر آتے۔ میں انہیں دور ہی سے سلام کیا کرتا۔
انہیں سب ہی سلام کرتے۔ کچہری کے بڑے بابو، قصبے کا تھانے دار، گاؤں کا نمبردار، اسکول کا ہیڈماسٹر، ڈاک خانے کا پوسٹ ماسٹر، غرض ہر چھوٹا بڑا انہیں سلام کرتا۔ وہ تو مجھے بعد میں سمجھ آئی کہ اصل سلام تو حوالدار بندے علی کو کیا جاتا تھا۔ بندے علی کی گاؤں سے باہر، آس پاس کے دوسرے گاؤں میں بھی بڑی عزت تھی۔ ان کا نام حوالدار بندے علی، تمغۂ جرأت، جو تھا۔
جی ہاں انہیں تمغۂ جرأت ملا ہوا تھا جسے وہ ہر بڑے دن اپنی خاکی قمیص پر ضرور آویزاں کرتے۔ انہیں گاؤں میں سرکار کی جانب سے کچھ زمین بھی ملی تھی اور ان کا درجہ کسی طور نمبردار سے کم نہ تھا۔ مجھے بہت بعد میں سمجھ آیا کہ جسے تمغۂ جرأت ملتا ہے اسے سب سلام کرتے ہیں اور یہ کہ تمغۂ جرأت کوئی معمولی چیز نہیں۔ سپاہی جان پر کھیل کر اسے حاصل کرتے ہیں۔ حوالدار بندے علی کے لئے میرے دل میں عزت اور بڑھ گئی تھی۔
میں جاننا چاہتا تھا کہ انھوں نے کیسے یہ عظیم الشان اعزاز حاصل کیا۔ گاؤں والے بس یہ بتاتے تھے کہ بندے علی اور تاج دین لام پر گئے تھے۔ تاج دین زخمی ہوکر اور ایک ٹانگ گھٹنے سے نیچے کٹوا کر واپس آئے اور بندے علی تمغۂ جرأت لے کر لوٹے۔ تاج دین کو اب مصنوعی ٹانگ لگادی گئی تھی۔
اُس دن میں ڈاک خانے سے واپس آرہا تھا کہ چائے پینے کا جی چاہا۔ میں کرم دین کے ڈھابے پر چلا گیا جہاں اس وقت بہت کم لوگ تھے۔ ایک کونے میں چاچا تاج دین بیٹھا تھا۔ میں سلام کرکے اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ چاچا آج اکیلا تھا۔
چاچا مجھ سے شہر کے بارے میں پوچھتا رہا۔ پھر بتایا کہ جنگ کے دنوں میں وہ اور بندے علی بھی پہلے شہر ہی گئے تھے، بھرتی ہونے کے لئے۔ وہ باتیں کرنے کے موڈ میں نظر آتا تھا۔
“چاچا آپ اور چاچا بندے علی دونوں ساتھ ہی تھے لام پر؟” میں نے پوچھا۔ “ہاں پتر، ہم دونوں ساتھ ہی بھرتی ہوئے اور ساتھ ہی ایک مورچے پر تھے،” چاچا نے بتایا۔
میں نے دبے لفظوں میں بندے علی کی بہادری کی کہانی جاننا چاہی۔ چاچے تاج دین نے یہاں وہاں دیکھ کر بہت دھیمی آواز میں مجھے بتانا شروع کیا۔
“ہم نئے نئے جوان ہوئے تھے۔ ہمارے باپ نمبردار کے کمین تھے۔ ہم دونوں ویلے پھرتے تھے۔ زمین تو ہماری کوئی تھی نہیں، کبھی کبھار اپنے باپوں کا ہاتھ بٹا لیا کرتے۔ گاؤں سے کچھ جوان شہر جاکر فوج میں بھرتی ہوگئے۔ وہ چھٹیوں پر گاؤں آتے تو ہم ان سے فوج کا حال سنتے۔ ہماری سمجھ میں یہی آیا کہ ایک بار بھرتی ہو جاؤ تو صرف شروع میں پریڈ اور بندوق چلانا وغیرہ سیکھنا ہوتا ہے۔ پھر بس موج ہی موج ہوتی ہے۔ جنگ ونگ کوئی روز تو ہوتی نہیں۔ بس چھاؤنی میں رہو اور تنخواہ اٹھاتے رہو، اور گھر والوں کو بھیجتے رہو۔ کھانا پینا سب میس میں ہوتا ہے۔
فوج کا نقشہ تو بڑا دل پذیر تھا لیکن بندے علی کو بندوق کی آواز سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اس کا دل نہیں تھا فوج میں جانے کے لیے۔ جب میں نے شہر جاکر بھرتی ہونے کا ارادہ کیا تو بندے علی کے باپ نے اسے بھی زبردستی میرے ساتھ بھیج دیا۔ بندے علی قد کاٹھ میں مجھ سے اچھا تھا۔ میں بھی فوج کے حساب سے ٹھیک تھا۔ ہم دونوں کو بھرتی کر لیا گیا۔ اتفاق سے ہم دونوں ایک ہی کمپنی میں رہے۔
کچھ دن تو ہم بھی موجیں ہی کرتے رہے کہ اچانک جنگ لگ گئی اور ہمیں اگلے مورچوں پر بھیج دیا گیا۔ یہ ہماری توقع کے خلاف تھا لیکن اب لڑنا تو تھا۔ ہمارے پاس گولہ بارود اور کارتوسوں کی بھی کمی تھی لیکن ہم اپنے مورچوں سے فائرنگ کررہے تھے۔
بندے علی بہت ڈرا ہوا تھا۔ دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہوئی تو اس کا رنگ ہی اڑ گیا۔ ہمارے قریب ایک گولہ آکے پھٹا تو اس کی کرچیاں ہمارے منہ پر آلگیں۔ ہمارے چہرے خونم خون ہوگئے۔ بندے علی نے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور خون کی چپچپاہٹ محسوس کرکے چیخ کر مورچے سے نکلا اور پیچھے کی جانب دوڑا۔ اس کے پیچھے گولیاں چل رہی تھیں اور گولے پھٹ رہے تھے لیکن وہ بگٹٹ دوڑتا رہا۔ گولیوں کے چھروں سے اس کے پیر اور پنڈلیاں خون سے بھر گئی تھیں۔ میں نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی اور خندق سے باہر نکل کر آواز دی تھی کہ ایک گولی میری ٹانگ سے آلگی۔ میں وہیں رک گیا۔
ادھر بندے علی بھاگتا بھاگتا پچھلے مورچے پر پہنچا جہاں کپتان علی رضا ریت کی بوریوں کے پیچھے کیمپ لگائے تھا اور ریڈیو آفیسر کے ساتھ ٹرانسمیٹر پر گٹ پٹ کررہا تھا۔ اس نے بندے علی کو آتے دیکھا۔
“کیا ہوا جوان؟” کپتان نے کڑک کر پوچھا۔
“وہ ، وہاں تو گولیاں اور گولے، گولہ بارود ۔۔۔” یہ کہہ کر وہ لڑکھڑا کر گرا اور بیہوش ہوگیا۔
ہوش آیا تو بندے علی ملٹری ہسپتال میں تھا۔ مجھے بھی وہیں بھیج دیا گیا تھا جہاں گھٹنے سے نیچے میری ٹانگ کاٹ کر مرہم پٹی کرکے مجھے بیساکھی کے ساتھ لاری میں بٹھا کر گاؤں بھیج دیا گیا۔
بندے علی کچھ دن بعد آیا تو اس کے سینے پر “تمغۂ جرأت” سجا ہوا تھا۔ اس کے چہرے اور پاؤں پر معمولی خراشیں آئی تھیں جو بالکل ٹھیک ہوگئی تھیں۔
کپتان علی رضا نے میجر صاحب کو بتایا تھا کہ گولیوں کی بوچھاڑ اور بموں کی یلغار میں بندے علی نے جان پر کھیل کر پچھلی کمان کو مطلع کیا تھا کہ اگلے مورچے پر گولیوں اور گولہ بارود کی کمی ہوگئی ہے، اور ہم اگر موقع پر رسد نہ پہنچاتے تو وہ مورچہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا۔ میجر صاحب نے بندے علی کی سفارش کی اور اس کی “بہادری” اور “بے خوفی” کے صلے میں اسے تمغۂ جرأت سے نوازا گیا اور حوالدار کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔
یہ تھی حوالدار بندے علی، تمغۂ جرأت کی کہانی۔
عبدالشکور پٹھان
عبدالشکور پٹھان
عبد الشکور پٹھان اصلاً کراچی سے ہیں اور کنیڈا میں مقیم ہیں۔ آپ کی تین کتابیں پذیرائی حاصل کر چکی ہیں، جن میں ایک سفر نامہ ہے اور دو دلچسپ شخصیات کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں

صاحب کا دورہ

صبح کا بھولا

دو خط