مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةانشائیہضیاءالحق نے تنہائی میں کیا بات کہی؟

ضیاءالحق نے تنہائی میں کیا بات کہی؟

ضیاء الحق نے تنہائی میں کیا بات کہی؟ یہ تو ہم بعد میں بتائیں گے۔ پہلے ہمیں یہ بتانے دیجیے کہ ضیاء الحق پاکستان کے نہیں، دنیا کے وہ واحد حکمران تھے جنہیں ہم سے بالمشافہ (اور بالمصافحہ) ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ کراچی کے ایک ہوٹل میں “اردو ڈائجسٹ” لاہور کی سالگرہ کی تقریب ہوئی۔ لکھاری سمجھ کر ہم بھی وہاں بلا لیے گئے۔ تقریب کے دوران میں نماز کا وقفہ ہوا۔ صدر صاحب جو سیاہ شیروانی اور سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھے اسٹیج سے اُتر کر نیچے آئے اور شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں میں ‘گھل مل گئے’۔ چلتے چلتے جب اُس جگہ پہنچے جس جگہ ہوٹل کی انظامیہ نے “جائے نماز” کا بورڈ لگا رکھا تھا تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی اور تمام صفیں پُر ہو گئی تھیں۔ ضیاء صاحب نے اپنے ہاتھوں سے لوگوں کے جوتے ہٹائے اور ننگے فرش پر نیت باندھ لی۔ ہمیں بھی اُن کے پہلو میں کھڑے ہونے کا موقع مل گیا۔ بس یہی اُن سے ہماری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق اُن کا یہ پہلا تاثر ہی آخری تاثر بن کر دل پر نقش ہو گیا۔ کچھ لوگ ضیاء صاحب کی خوبیوں کو اُن کی منافقت اور اُن کی خامیوں کو اُن کی شخصیت کا اصل اور باطنی رُخ قرار دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے جو کچھ جمیل الدین عالیؔ نے کہا تھا ہم بھی بس وہی کہہ سکتے ہیں کہ: “تمہاری طرح ہمیں شیخ علمِ غیب نہیں” کیوں کہ ہم نے ان کا دِل چیر کر نہیں دیکھا تھا۔ بظاہر تو وہ ہر خاص و عام سے مسکرا کر ملتے تھے۔ اُن کے برتاؤ میں ذرا بھی رعونت نہ تھی۔ معاشرے کے چھوٹے بڑے تمام افراد سے یکساں طور پر خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ ذاتی طور پر بہت مہربان اور شفیق انسان تھے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ اور پست سے پست سماجی مرتبہ رکھنے والے افراد کی گھریلو تقریبات میں شریک ہونے کو اپنی ہتک نہیں سمجھتے تھے، حتیٰ کہ اپنے خاکروبوں، مالیوں اور ڈرائیوروں کی دعوت بھی رد نہیں کرتے تھے۔ شریف النفس، منکسر المزاج اور دینی رحجان رکھنے والے حکمران تھے۔ بے لاگ تجزیہ نگار عبد الکریم عابد مرحوم نے اُن کی شہادت پر ایک جامع فقرہ لکھا: “سیاسی طور پر تو ضیاء الحق کو مسترد کر دیا گیا تھا مگر سماجی طور پر وہ قوم کے انتہائی پسندیدہ اور مقبول شخص تھے”۔
اُسی تقریب میں (جس کا ذکر اوپر آیا) بلوچستان کے مشہور عالمِ دین مولانا عبداللہ خلجی بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ ضیاء صاحب اُن کے علم اور تقویٰ سے بہت متاثر تھے۔ صدارتی خطبہ دینے کھڑے ہوئے تو مولانا عبداللہ خلجی کا خاص طور سے ذکر کیا اور اُنہیں “مولویوں میں مسلمان” قرار دیا۔ اِس خطاب کی تشریح کرتے ہوئے ایک قصہ بھی سنایا: “کسی جگہ کچھ چرسی موالی بیٹھے چرس کے سوٹے لگا رہے تھے۔ وہاں سے ایک مولوی صاحب کا گزر ہوا۔ مولوی صاحب جب ان چرسیوں کے قریب سے گزرے تو گزرتے گزرتے اُن کو مخاطب کرکے بِالجہر فرماتے گئے” السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ” اور یہ فرما کر آگے بڑھ گئے۔ چرسیوں پر سکتہ سا طاری ہو گیا۔ ساکت ہو کر مولوی صاحب کو دور تک جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ دیر تک سکتے میں رہنے کے بعد جب اُن میں سے ایک کو ہوش آیا تو بڑے معترفانہ انداز میں بولا: “مولویوں میں بھی مسلمان موجود ہیں!” مولانا عبداللہ خلجی سمیت تمام حاضرین نے ایک زبردست قہقہہ لگایا، جس میں خود صدر صاحب کا قہقہہ سب سے بلند تھا، وہ بلند گو (Loud Speaker) سے منہ بھڑائے جو کھڑے تھے۔
ایک دلچسپ واقعہ “اردو ڈائجسٹ” کی ایک اور سالگرہ منعقدہ لاہور میں پیش آیا۔ اُس تقریب میں ممتاز مزاح نگار جناب مظفر بخاری نے اپنا ایک قہقہہ بار فکاہیہ پڑھا۔ اُس میں ایک جگہ کچھ اِس مفہوم کی بات کی گئی تھی کہ: “الطاف حسن قریشی اُردو ڈائجسٹ کے باپ اور اعجاز حسن قریشی اُس کے چچا (درست رشتہ: تایا) ہیں۔ اُردو ڈائجسٹ اب عمر کے ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے کہ جب باپ چچا کو رشتے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ مگر اُردو ڈائجسٹ کا رشتہ تو حق و صداقت سے پہلے ہی طے پا چکا ہے”۔ اُس تقریب میں صدر صاحب کی تقریر بھی مزاح کا شہ پارہ تھی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں بار بار “مخمصہ” کا لفظ استعمال کیا اور اس کی تکرار سے بڑا لطف پیدا کیا۔ لکھی ہوئی تقریر پڑھتے پڑھتے یکبارگی ضیاء صاحب نے اپنا چشمہ اُتارا اور تقریر سے نظریں ہٹا کر جناب مظفر بخاری پر جما دیں۔ پھر یہ فقرہ “منہ زبانی” ارشاد کیا: “جب مظفر بخاری یہ بتا رہے تھے کہ الطاف حسن قریشی اُردو ڈائجسٹ کے باپ اور اعجاز حسن قریشی اس کے چچا ہیں اور باپ چچا کو رشتے کی تلاش ہے تو ۔۔۔ میں ایک بار پھر مخمصہ میں پڑ گیا ۔۔۔ کہ دیکھیے اب وہ اُردو ڈائجسٹ سے میرا کیا رشتہ طے کرتے ہیں”۔
قصے اور بھی بہت سے ہیں۔ مگر اب یہ کالم مزید ایک ہی قصے کا متحمل ہو سکتا ہے۔ وہ قصہ یہ ہے کہ ایک زمانے میں بڑا شور مچا کہ ضیاء صاحب نے جی ایم سید جیسے علیٰحدگی پسند کو پھولوں کا گلدستہ بھجوایا۔ ہوا یوں تھا کہ جی ایم سید صاحب جو پاکستان کی تقریباً تمام پچھلی حکومتوں کے ادوار سے نظر بند چلے آرہے تھے ایک روز حالت نظربندی میں اسپتال میں داخل ہو گئے۔ وہاں انہیں گلدستے کے ساتھ یہ پیغام ملا کہ صدر صاحب عیادت کو آنا چاہتے ہیں۔ سید سائیں نے کہا “آجائیں، میں انہیں کب روکتا ہوں”۔ صدر صاحب عیادت کو آئےتو حال احوال پوچھنے کے بعد کہا: “میں آپ سے چند منٹ تنہائی میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں”۔ اُنہوں نے صدر صاحب کی یہ درخواست بھی منظور کر لی اور ساتھیوں کو کمرے سے باہر نکل جانے کا اشارہ کیا۔ کچھ خوشی سے اور کچھ ناگواری سے باہر نکل گئے۔ تنہائی کی یہ ملاقات واقعی چند منٹ میں تمام ہو گئی۔ صدر صاحب باہر نکل آئے اور سب سے علیک سلیک کرکے روانہ ہو گئے۔ اب ہر شخص بڑے صاحب کے پیچھے پڑ گیا کہ: “ضیاءالحق نے تنہائی میں کیا بات کہی؟” سائیں جی نے بتایا: “صدرِ پاکستان اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکے اور مجھ سے کہا ‘میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتایئے’۔ میں نے کہا کہ میرا پاسپورٹ وزارتِ داخلہ نے ضبط کر رکھا ہے۔ میں بھارت کا دورہ کرنا چاہتا ہوں۔ صدر صاحب نے کہا: ‘بسر و چشم’ اور چلے گئے”۔ مگر کسی نے سائیں کی اِس بات پر یقین نہیں کیا: “یہ بھلا تنہائی میں کرنے والی کون سی بات تھی؟ سائیں ہم سے کچھ چھپا رہا ہے”۔ کچھ دنوں بعد جی ایم سید رہا کر دیے گئے۔ انہیں پاسپورٹ بھی مل گیا اور وہ بھارت بھی چلے گئے۔ بھارت پہنچنے پر اُن کی بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ مگر وہاں بھی بھارت کے صدر اور بھارت کی وزیر اعظم (اندرا گاندھی) سے لے کر بھارتی صحافیوں تک ہر شخص نے یہی سوال کیا: “ضیاءالحق نے تنہائی میں کیا بات کہی؟” جب جی ایم سید سائیں یہ بات بتاتے کہ اُنہوں نے تنہائی میں صرف اتنی سی بات کہی کہ: “میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتایئے”۔ تو اس بات کا کوئی یقین نہ کرتا۔ نتیجہ یہ کہ ہر سطح پر وہ مشکوک نگاہوں سے دیکھے گئے۔ اُنہوں نے “سندھو دیش” کی آزادی کے لئے اپنے اُس دورے میں بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ: “ہمیں اسلحہ اور فوجی تربیت دی جائے”۔ (یہ بات اُنہوں نے خود بتائی تھی، جو اخبارات میں شائع بھی ہوئی)۔ مگر اندرا گاندھی بہت سردمہری سے پیش آئیں اور اُنہوں نے صاف انکار کر دیا۔ کہا کہ: “ہم سے جتنے پیسے چاہیں آپ لے لیں، مگر ہم اسلحہ اور فوجی تربیت نہیں دے سکتے”۔ بھارتی اخبارات نے بھی اُن کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ ایک اخبار نے تو بڑے ہتک آمیز انداز میں لکھا: “یہی وہ بڈھا ہے، جس نے سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں پاکستان سے الحاق کی قرار داد منظور کروائی تھی۔ یہ جناح کا قریبی ساتھی رہ چکا ہے۔ یہ ہرگز قابل اعتبار نہیں ہے”۔ یوں جی ایم سید بھارت سے بے نیلِ مرام واپس آگئے۔
احمدحاطب صدیقی (ابو نثر)
احمدحاطب صدیقی (ابو نثر)
احمد حاطب صدیقی المعروف بہ ابو نثر معروف کالم نگار، مزاح نگار، شاعر ، مصنف اور بچوں کے ادیب ہیں۔ جسارت، کراچی میں ابو نثر کے نام سے ہفتہ وار مضامین لکھتے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں