مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةانشائیہزمانے کی ناقدریاں دیکھیے گا

زمانے کی ناقدریاں دیکھیے گا

اُس روز لالو کھیت کی یاد آئی تو اور بھی کئی یادیں ساتھ چلی آئیں۔ جی چاہتا ہے کہ کبھی ان سبھی جگمگاتی یادوں کو ایک قندیل میں سجا کر نئی نسل کے سامنے رکھ دیا جائے۔ ۔۔ روشن ہمارے بعد بھی خواب کا اِک شجر رہے۔ بالکل ایسے یاد ہے جیسے ابھی ابھی کوئی خواب دیکھا ہو۔ لیاقت آباد کی انہی گلیوں میں ایک بزرگ دیکھے جاتے تھے۔ لمبا قد، کریم کلرکی شیروانی، سفید رنگ کا پائجامہ، سیاہ رنگ کی جناح کیپ یا رام پوری ٹوپی۔ مگر ان کی لمبی داڑھی یا موٹی تازی گھنی مونچھوں کو ۔۔۔ یاد نہیں پڑتا کہ ۔۔۔ کبھی ہم نے سیاہ دیکھا ہو۔ جب سے دیکھا اور جب تک دیکھا، سفید ہی دیکھا۔ اُن کی بغل میں ہر وقت کتابوں اور اخبارات کا ایک پلندہ دبا رہتا۔ اکثر پیدل ہی منزلیں مارتے نظر آتے۔ کوئی بھی آشنا یا ناآشنا، بچہ، بوڑھا، خاتون یا مرد نظر آتا، ان کا بایاں دست شفقت (اپنے ہی سینے) پر آجاتا، سر قدرے خم کرتے، نظریں جھکا لیتے، دایاں ہاتھ اُٹھا لیتے، اُسے پیشانی تک لے جاتے اور بڑی منکسرانہ آواز میں خودکلامی کے سے انداز میں مسلسل بولتے ہی چلے جاتے: “جیو ۔۔۔ جیو ۔۔۔ جیتے رہو ۔۔۔ جیتے رہیے ۔۔۔ ہزار برس تک جیتے رہیے ۔۔۔ بلکہ سو ہزار برس تک ۔۔۔ بھیا میرا ۔۔۔ بچہ میرا ۔۔۔ بہن میری ۔۔۔ جیو ۔۔۔ جیو ۔۔۔ خوب جیو ۔۔۔ خوب جیو ۔۔۔ خوب جیو!” لوگ یہ وِردِ مسلسل سنتے رہتے اور مسکراتے رہتے۔ ان بزرگ کا نام حکیم سعید اشرف تھا۔ ١٠٠ سال سے کئی سال اوپر ہو کر انتقال فرمایا۔ جب تک جیے نہایت خوش مزاج، ہنس مُکھ، شفیق اور ہر ایک کے لئے دُعا گو ہی رہے۔ فقط “دعا” ہی نہیں، وہ تو “دوا” بھی (لکھ) دیا کرتے تھے ۔۔۔ بلا معاوضہ ۔۔۔ نسخہ لکھنے کا معاوضہ کسی غریب سے لیا نہ کسی امیر سے۔ بڑے بڑے موذی بلکہ مہلک امراض کے مریضوں کو اُن کے لکھے ہوئے نسخے کی ایک ہی خراک سے شفا یاب ہوتے دیکھا۔ ماہر نبّاض تھے۔ (اِن مہنگے ڈاکٹروں کم بختوں کو سوچنا تو چاہیے کہ نبض کا تعلق براہِ راست حرکتِ قلب سے ہے، آخر وہ کون سی ایسی حرکت ہے جو بغیر کسی لیب ٹیسٹ، ایکسرے، الٹراساؤنڈ، ای سی جی، اینڈوسکوپی وغیرہ وغیرہ اور بغیر چیر پھاڑ اندر کا حال باہر عیاں کر دیتی ہے؟)۔ نبض کے ذریعہ سے مرض کی تشخیص اور دواؤں کے انتخاب پر اُنہیں ایسا عبور حاصل تھا کہ ایک ہاتھ نبض پر چل رہا ہے اور دوسرا قلم و قرطاس پر۔ تیزی سے نسخہ لکھا جا رہا ہے۔ بس اب نسخہ لے کر چل دیجیے۔ آپ کی شفا ہی نہیں، مالی فلاح اور بقا بھی اسی میں ہے۔ دوائیں استعمال کرتے رہیے۔ مکلمل صحت یابی کے بعد اگر آنا چاہیں تو حکیم صاحب کو سلام کرنے اور اُن کا محولہ بالا طویل جواب سننے کے لیے آجائیے۔ ورنہ اگر دوسرے دن کسی معمولی یا بڑے فرق سے آگاہ کرنے آپہنچے تو نسخے کی شامت آ جائے گی۔ سارے کا سارا یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ پر یہ نسخہ تاثیر میں پہلے سے بھی تیز رفتار ہو گا۔ مزاج شناس مریض اُن سے بس ایک ہی بار حتمی نسخہ لکھوا لیتے تھے۔ بار بار والے بھی فائدے میں رہتے، مگر اُن کے ساتھ ساتھ عطاروں اور دوا فروشوں کو بھی پہلے سے بڑھ کر فائدہ ہو جاتا تھا۔ حکیم صاحب سے البتہ فائدہ کسی حکومت نے اُٹھایا نہ کسی ادارے نے ۔۔۔ زمانے کی ناقدریاں دیکھیے گا!!!
انگریز کا دیا ہوا سلو پوائزن
حکیم صاحب کے متعلق سنا کہ تحریکِ خلافت کے بڑے سرگرم رہنما تھے اور حکیم صاحب کو دیکھا کہ مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ، تہذیب اور سیاست پر اُن جیسی دسترس رکھنے والا شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ اِک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ تحریکِ خلافت کے دنوں میں انگریز سی آئی ڈی حکیم صاحب کے پیچھے پڑی رہی۔ اُن کے خلاف اتنی سازشیں ہوئیں اور جب خود مصطفیٰ کمال پاشا کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا اور تحریکِ خلافت کی تمام مساعی بے معنی ہو گئیں تو حکیم صاحب کے ذہن پر بڑا بُرا اثر پڑا۔ آخری عمر تک اِس “مالیخولیا” (Melancholia) میں مبتلا رہے کہ انگریز اُن کو “سلو پوائزن” دے کر مار ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ سلو پوائزن کبھی اُن کو اپنی ہی چائے کی پیالی میں محسوس ہونے لگتا اور کبھی کسی کے گھر کی دعوت میں۔ جس وقت یہ کیفیت طاری ہو جاتی اپنے آپ میں نہ رہتے۔ انگریزوں سے شدید نفرت کا اظہار شروع ہو جاتا۔ تحریکِ خلافت اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا سبب بننے والے تمام عالمی رہنماؤں کا کچا چٹھا کھولنے لگتے۔ سازشی یہودیوں، اُن کے ایجنٹوں اور اُن کے آلہ کاروں کی کہانیاں سناتے سناتے حکیم صاحب اپنی فطرت، اپنے مزاج، اپنی شرافت اور اپنی حیا کے برعکس حاضرین محفل کا لحاظ کیے بغیر اُن تمام طاقتوں کو ننگی ننگی گالیاں دینے لگتے جنہوں نے مسلمانوں کے پُر امن اقتدار کا خاتمہ بھی کر دیا اور پوری دُنیا کو ایک نئی تباہی کے جہنم میں بھی جھونک دیا۔ ایسے مواقع پر حکیم صاحب کو قابو میں کرنا اور اُنہیں معمول کی حالت پر واپس لانا بہت دشوار ہو جاتاَ۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہی “مالیخولیا” انگریز کا دیا ہوا سلو پوائزن تھا جو آخری عمر تک اُن پر مؤثر رہا۔
حکیم سعید اشرف صاحب نہ جانے کتنی زبانیں جانتے تھے۔ چوں کہ اُن سے سنی جانے والی سات زبانیں ہم خود گِن چکے تھے چنانچہ بے خوفِ تردید اُنہیں ‘ہفت زبان’ کہا جا سکتا تھا۔ عربی، فارسی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی، سنسکرت اور اردو۔ بڑے عمدہ مترجم تھے۔ اپنے عزیزوں کی وجہ سے گھومتے تو لیاقت آباد کی گلیوں میں نظر آتے تھے مگر اُن کا قیام اُس وقت کی بندر روڈ اور آج کی ایم اے جناح روڈ پر “سعید منزل” کے قریب واقع مولانا ظفر احمد انصاری کے گھر میں تھا۔ مولانا ظفر احمد انصاری اُن کے شاگرد رہ چکے تھے۔ اُن کے کمرے کے فرش پر بس ایک قدِ آدم (لمبائی ضرب چوڑائی میں ) لیٹنے کی جگہ خالی تھی۔ باقی فرش سے عرش تک کتابوں، رسالوں اور اخباروں کا ایک انبار لدا ہوا تھا۔ اِس انبار سے اُن کے سوا کون استفادہ کر سکتا تھا؟ صرف انہی کو معلوم تھا کہ فلاں خبر جو فلاں تاریخ کے روزنامہ “زمیندار” میں شائع ہوئی تھی اُسے پڑھنے کے لیے درکار شمارہ کس ڈھیر میں سے برامد ہوگا۔
قصہ ایک پاکستانی یہودی کا
ہمارے کچھ بزرگوں نے یہ قصہ سنایا کہ (میری ویدر) ٹاور کے پاس ہی ایک بوڑھا کباب فروش بڑے لذیذ کبابوں کا خوانچہ لگایا کرتا تھا۔ عجب آزاد مرد تھا۔ انتہائی لذیذ کباب بناتا اور بیچتا تھا۔ مگر منہ سے کچھ نہ بولتا تھا۔ گونگا نہیں تھا۔ کیوں کہ کبھی کبھی کسی اجنبی زبان میں بڑبڑایا بھی کرتا تھا۔ یاروں نے اپنی اپنی زبان دانی آزما دیکھی۔ آخر ایک روز طے پایا کہ حکیم سعید اشرف صاحب کو دعوتِ کباب پر یہاں لایا جائے۔ حکیم صاحب نے اُس بوڑھے کو گویا “اُونہہ آنہہ” کرتے دیکھ کر ہی پہچان لیا۔ اُس کو راست ترکی زبان میں مخاطب کیا۔ بوڑھا کھل اُٹھا۔ ہمیں یہ قصہ سنانے والے بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ وہی منیر نیازی والا حال ہوا کہ:
آج اس محفل میں تجھ کو بولتے دیکھا منؔیر
تو کہ جو مشہور تھا یوں بے زبانی میں بہت
معلوم ہوا کہ وہ ترک ہی نہیں، یہودی بھی ہے۔ یہاں حکیم سعید اشرف مرحوم کا شرف دیکھنے میں آیا کہ بحیثیت امت یہودیوں کے مخالف بلکہ جانی دشمن ہونے کے باوجود ایک فرد کی حیثیت سے اُس کا بڑا اِکرام کیا۔ اُس دن کی دعوتِ کباب مفت رہی۔ گویا خود مہمان (حکیم صاحب) نے میزبانوں کی دعوت کر ڈالی۔ وہ تو کہیے کہ یہودی بھی اللہ کے نام کا ذبیحہ کھاتے ہیں، ورنہ اس انکشاف کے بعد سارے کباب خور اپنے اپنے حلقوم میں اُنگلی ڈالے “عَو عَو” کر رہے ہوتے۔ کچھ عرصہ پہلے میری ویدر ٹاور کے آس پاس ہی ہم نے ایک خستہ سی عمارت پر “مسجد بنی اسرائیل” لکھا دیکھا تھا۔ اب جگہ یاد نہیں۔ اللہ جانے اب وہاں کوئی پاکستانی یہودی پایا بھی جاتا ہے یا نہیں۔ غیر ملکی یہودیوں سے تو اسلام آباد میں یورپی اور امریکی ممالک کے سفارت خانے اور صحافت خانے بھرے پڑے ہیں۔
المادة السابقة
المقالة القادمة
احمدحاطب صدیقی (ابو نثر)
احمدحاطب صدیقی (ابو نثر)
احمد حاطب صدیقی المعروف بہ ابو نثر معروف کالم نگار، مزاح نگار، شاعر ، مصنف اور بچوں کے ادیب ہیں۔ جسارت، کراچی میں ابو نثر کے نام سے ہفتہ وار مضامین لکھتے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں