مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةفکر و نظردين كے نام پر انتہا پسندى

دين كے نام پر انتہا پسندى

ہمارے ایک دوست ہيں مولانا عرفان الحق مظاہرى مدظلہ، ادب و شاعرى كا معيارى ذوق ركھتے ہيں۔ طبقۂ علماء ميں اس پایہ كے باذوق اشخاص بہت كم ہيں، انہوں نے كل اسلامى لباس كے عنوان سے شائع شده ميرى ايک تحرير پر تبصره كرتے ہوئے لكھا:
“ہم جس تھانوی حلقے سے تعلق رکھتے ہیں اس میں پانچ گوشیہ گولی ٹوپی نمبر ایک پر ہے۔ اگر کسی نے چوگوشیہ ٹوپی لگائی یا مارکیٹ میں گول ٹوپیاں جو بِکتی ہیں گجرات، دہلی سے سعودی عرب تک مختلف ناموں سے اس ٹوپی کو لگا کر ہم مسلک تھانویت کے اندر داخل نہیں ہوسکتے یا قابلِ قبول نہیں ہوسکتے۔ اور اگر کہیں لمبی دوپلیہ ٹوپی (جیسی ہمارے شیخ حضرت مولانا محمّد یونس صاحب جونپوری رحمہ اللہ لگاتے تھے یا حضرت مولانا علی میاں لگاتے تھے) لگا لی تو معیار اسلامی مزید فروتر ہو جائے گا، جسے دیکھ کر ناگواری کا اثر چہرے یا الفاظ سے کبھی نہ کبھی ظاہر ہوہی جائے گا۔ اس کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہوگا کہ مشکل سے پانچ فیصد مسلمان ہی اسلامی لباس پہن رہے ہیں، باقی اپنے مزعومہ مسلک کے سوا پوری دنیا کے مسلمان غیر اسلامی لباس پہن رہے ہیں، اور جس کا لباس ہی غیر اسلامی ہوگا وہ دیندار کہلانے کا مستحق کیسے ہوسکتا ہے؟
اب ٹوپی سے آگے بڑھئے کُرتا پر آئیے تو اس کی بھی مخصوص ہیئت ہے۔ پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کلی دار ہو، بغیر کلی والا بنگلا کرتا اس حلقے میں کسی طرح قابلِ قبول نہیں جو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے نام کی روٹی کھاتا ہے۔ یہی اسلامی لباس ہے، اس کے علاوہ سب غیر اسلامی لباس ہیں۔ بھلا یہ کہنے کا حق آپ کو کس نے دیا؟ آگے چلئے کرتے میں اگر پٹھانی سوٹ ہے جس میں نیچے دامن گولائی لئے ہوتا ہے اور آستین قمیض جیسی ہوتی ہے بٹن لگی ہوئی وہ بھی اسلامی لباس میں داخل نہیں، کیونکہ ہندوستان کے مخصوص حلقے میں اسے نہیں پہنا جاتا، اگر پٹھانی سوٹ نہیں ہے کرتے کی ہی ہیئت ہے صرف آستین میں اپنی کسی مصلحت سے بٹن لگا لیا ہے تو اس حلقے میں وہ بھی ناپسندیدہ ہے۔
کرتے کے بعد پاجامے پر آئیے تو یہاں بھی آپ اپنی مرضی اور آسانی والا پاجامہ پہن کر اسے اسلامی پائجامہ نہیں کہہ سکتے۔ مُہری بہت چوڑی نہ ہو اور مُہری سے اوپر گھٹنے پر بھی زیادہ چوڑائی نہ ہو، ورنہ وہ سلمان خان کا پاجامہ ہوجائے گا جس کے پاجامے کی نقل کفر سے کم نہیں، بھلے گرمیوں میں اس چست پاجامے کی وجہ سے آپ کو اٹھنے بیٹھنے میں سخت دقتوں کا سامنا ہو اور پسینے کی وجہ سے اس پاجامے کو پہن کر نماز پڑھنا مشکل ہورہا ہو، لیکن آپ اس کی ہیئت نہیں تبدیل کر سکتے۔ اسی پر بس نہیں مہری میں سِلائی اوپر ایک ہوگی نیچے دو ہوگی، اس کے خلاف اوپر دو سِلائی کروا لیا تو یہ بھی امرِ منکر ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم کہاں تک اسلامی لباس کی تفصیل عرض کریں۔ اہل ندوہ جو چوڑا پائجامہ پہنتے ہیں جسے ہمارے عرف میں تمبا کہا جاتا ہے اور جسے ہم نے مولانا علی میاں کو بھی پہنتے دیکھا ہے نیچے سے اوپر تک چوڑائی میں برابر، اس پاجامے پر تو طرح طرح کے فتوے ہیں جس کا ذکر غیر ضروری ہے۔”
ہمارے ايک اور دوست ہيں وه امامِ فتوى و امينِ “طرز كہن” ہيں، مگر ہم انہيں پير و مرشد كہتے ہيں، انہوں نے مندرجہ بالا تحریر كے جواب ميں لكھا: “کس نے اپنی پسند دوسروں پر تھوپی؟” در حقيقت پير و مرشد مقلد ہيں شتر مرغ كے، جس طرح شتر مرغ ريت ميں سر چھپا كر سمجھتا ہے کہ پريشانى ٹل گئى، اسى طرح پير و مرشد مسائل سے آنكھيں بند كرنے كو ان كا حل تصور كرتے ہيں۔ جس چيز كى وه نفى كر ديں وه معدوم ہے، بلکہ وه شتر مرغ سے بھى دو قدم آگے ہيں۔ ان كا نظریہ ہے کہ عيب كو ہنر كا نام دے ديا جائے تو وه عيب نہيں رہتا۔ اسى قول سديد پر عمل كرتے ہوئے وه ہندوستان كے مدارس كے لباس كو اتقياء و صلحاء كا لباس كہتے ہيں۔ ان سے عرض كيا گيا کہ نبى كريم ﷺ تو رأس الاتقياء و الصالحين تھے، پھر بھى ان كے لباس اور ابو جہل و ابو لہب كے لباس ميں كوئى فرق نہيں تھا۔ كہنے لگے: كہاں آپ جيسا پیغمبروں كا سردار اور كہاں ہم جيسے سراپا گنہگار؟ عرض كيا گيا کہ صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم كو آپ معيار حق كہتے ہيں، ان كے نزدیک بھى اتقياء و غير اتقياء كے لباس ميں كوئى فرق نہيں تھا۔ فرمانے لگے: صحابۂ كرام عقيدتًا معيار حق ہيں، عملاً نہيں۔ گزارش كى گئى کہ پھر عملاً كون معيار حق ہے؟ فرمايا: ہندوستان كے مشائخ۔ پير و مرشد مشائخ ميں بھى درجہ بندى كے قائل ہيں، چنانچہ ان كے نزدیک سب سے زياده اسلامى لباس وه ہے جو حكيم الامت مولانا اشرف على تھانوى رحمۃ اللہ عليہ كے سٹائيل پر ہو، اگر كوئى شخص تھانہ بھون كى خانقاه كے متصل واقع درزى كى دكان سے، كُرتا، پائجامہ اور ٹوپى سلوائے، اور اس پر ايک رومال ڈال لے تو وه انسان سب سے زياده متقى اور صالح ہے۔
شايد ذہنوں ميں سوال اٹھے کہ دين كے نام پر يہ انتہا پسندى كہاں سے آئى؟
دين اصلاً معانى و حقائق كا نام ہے، اشكال و مظاہر كى حيثيت رسوم كى ہے۔ دين كے ابتدائى عہود ميں معانى و حقائق پر زور ہوتا ہے، اور دين كے ماننے والے ایک امت كى حيثيت سے متحد ہوتے ہيں، اور معانى و حقائق كے حصول ميں ایک دوسرے سے مسابقت كرتے ہيں۔ صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم كى زندگيوں پر غور كريں، وه ایک قوم تھى جس كا ايمان پہاڑوں كى طرح غير متزلزل تھا، توكل على رب العالمين اس كے ايمان كى انتہا تھى، اس كا دل خدا كى محبت اور اس كے خوف سے پر تھا، اس كے اعمال كا محرک تقوى تھا، تسليم و رضا اس كے اسلام كى آخرى منزل تھى۔
پھر ايكـ قوم آئی جس نے آہستہ آہستہ اشكال و مظاہر كو دين بنا ديا، اس كے نزدیک سارى اہميت كرتا، پائجامہ، ٹوپى اور رومال كى ہو گئى۔ ہم یہ تصور نہيں كر سكتے کہ ہندوستان كے كسى مدرسہ كا شيخ الحديث يا عام مدرس پينٹ شرٹ پہنے، البتہ یہ معمولى بات ہے کہ وہى شيخ الحديث اور مدرس اسباق كا ناغہ كرے، وقت كى پابندى نہ كرے، مطالعہ نہ كرے، اور طلبہ كا وقت ضائع كرے، جب کہ پينٹ شرٹ پہننا كوئى گناه نہيں، اور امانت ميں خيانت كرنا گناه كبيره ہے۔ كوئى مدرس سگريٹ پيتا ہوا نظر نہيں آئے گا، ليكن ايسے بہت سے مدرس اور شيخ الحديث مل جائيں گے جو پان كھاتے ہيں، بلکہ “گل” وغيره كا استعمال كرتے ہيں:
بر چہرۂ حقيقت اگر ماند پردۂ
جرم نگاه ديدۂ صورت پرست ماست
افسوس کہ رسوم كو دين كا نام دے ديا گيا ہے۔ یہ وه انتہا پسندى ہے جس ميں ہمارا ایک بڑا طبقہ مبتلا ہے۔ دين كے حقائق مثلاً تقوى، امانت، صدق، خشوع، قنوت، محبت الہى، اخلاص اور خوف ميں كبھى انتہا پسندى نہيں ہوتى، انتہا پسندى جب بھى ہوتى ہے مظاہر اور اشكال و رسوم ميں ہوتى ہے۔
آخر ميں یہ عرض كر دوں کہ مجھے كسى قسم كے لباس سے كوئى ناگوارى نہيں، ميں خود زياده تر كُرتا پائجامہ ہى پہنتا ہوں، البتہ شكايت ان لوگوں سے ہے جو صرف اپنے لباس كو اسلامى يا زياده اسلامى سمجھتے ہيں، لباس ظاہر كى بنا پر خود كو بہتر تصور كرتے ہيں، دوسرے مسلمانوں كو حقارت كى نگاه سے ديكھتے ہيں، اور رسوم و عادات پر حقائق و معانى كى بھينٹ چڑھاتے ہيں:
تا تو بيدار شوى نالہ كشيدم ورنہ
عشق كاريست کہ بے آه و فغاں نيز كند
كاش يہ اظہر من الشمس سچائى ہم پر واضح ہو جائے کہ كوئى پوشاک دوسرى پوشاک سے بہتر نہيں، كاش يہ حقيقت ہمارى سمجھ ميں آجائے کہ فضيلت كا معيار صرف تقوى ہے، رسوم و مظاہر نہيں: إن أكرمكم عند الله أتقاكم۔
الله تعالى ہمين عقل و دين كى نعمت سے نوازے۔
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں