﷽
سوال
مولانا محمد فاروق صاحب ندوى آسامى مقيم دوحہ مد ظلہ ہمارے قريبى اور عزيز دوست ہيں، وه فطرتاً اديب ہيں، ان كى فكر ميں اعتدال وتوازن ہے، وه دين ومسلک كے فرق سے اچھى طرح واقف ہيں، دين ميں تصلب، اور مسلک ميں توسع كے قائل ہيں، ان كى جانب سے درج ذيل پيغام موصول ہوا:
جناب ڈاکٹر محمد اکرم صاحب ندوی حفظہ اللہ سے اُمید کی جاتی ہے کہ اسلامی و غیر اسلامی لباس کے موضوع پر ایک مفصل و مدلل مضمون صادر ہو جس کو اپنا کر ہم اپنے ایمان و اسلام پر قائم رہ سکیں۔ وجزاکُم اللہ خیراً۔
جناب ڈاکٹر محمد اکرم صاحب ندوی حفظہ اللہ سے اُمید کی جاتی ہے کہ اسلامی و غیر اسلامی لباس کے موضوع پر ایک مفصل و مدلل مضمون صادر ہو جس کو اپنا کر ہم اپنے ایمان و اسلام پر قائم رہ سکیں۔ وجزاکُم اللہ خیراً۔
جواب
اس مسئلہ كے تعلق سے ذہنوں ميں غير معمولى افراط و تفريط ہے، اسى افراط و تفريط كا نتيجہ وه بد نما تشدد ہے جس نے بر صغير ميں ايک “اسلامى ميک اپ” كى شكل اختيار كر لى ہے۔ عام علماء و مشائخ كے نزدیک يہى میک اپ ديندارى كى علامت سمجھا جا رہا ہے۔ جو يہ میک اپ نہيں اختيار كرتا اس پر غير دين دار ہونے كا ليبل چسپاں كر ديا جاتا ہے، اور جو اسے اختيار كرتا ہے اسے دين دار كہا جاتا ہے۔ اسى میک اپ كو عام طور سے لوگ شرعى يا اسلامى لباس بھى كہتے ہيں۔
مناسب ہوگا کہ اس موقع پر دين اور كلچر كا فرق واضح كرديا جائے، کیوں کہ جو تفصيل آگے آ رہى ہے اس كا سمجھنا ان دونوں كے درميان تمييز كرنے پر موقوف ہے۔ دين نام ہے خدا كى عبادت و اطاعت كے راستہ كا۔ عبادت ميں بنيادى طور پر ايمان اور اسلام كے اركان داخل ہيں، اطاعت كا دائره وسيع ہے، اس ميں سر فہرست حلال و حرام كے مسائل ہيں۔
كلچر كسى قوم يا معاشره كے اجتماعى افكار، رسوم وعادات كا نام ہے، كلچر پر اس قوم اور معاشره كے معتقدات اور روايات كى گہرى چھاپ ہوتى ہے۔ یہ معتقدات و روايات اگر مشركانہ و كافرانہ ہيں تو كلچر غير اسلامى ہوگا، اور جب تک اس كى تطہير نہ ہو جائے وه اسلام كے لئے نا قابل قبول ہوگا۔ اس كا مطلب ہے کہ اسلام ميں داخل ہونے كے لئے اپنے كلچر كا ترک كرنا ضرورى نہيں، بلکہ اس كلچر كى تطہير فرض ہے۔
مثال كے طور پر عام قوموں ميں كھانے كا جو طريقہ رائج ہے، اس كى بعض چيزيں دين اسلام سے متعارض ہيں، اور بعض چيزيں متعارض نہيں۔ اسلام نے حلال اور حرام جانوروں كى تفصيل واضح كى ہے، اور حلال جانوروں كے لئے خدا كے نام پر ذبح كرنے كو شرط قرار ديا ہے۔ رہى يہ بات کہ حلال جانوروں كو ذبح كرنے کے بعد ان كا گوشت كس طرح پكايا جائے، اور ان سے كيسى ڈشيں تيار كى جائيں، تو ان ميں سے كوئى چيز دين كے منافى نہيں۔ نبى كريم ﷺ گوشت بھون كر كھاتے تھے، اس سے بنى ہوئى ثريد بھى تناول فرماتے تھے، ہندوستان ميں لوگ گوشت سے كباب، قورمہ، اور پتہ نہيں كيا كيا بناتے ہيں، سب سے مقبول ہندوستانى كھانا بريانى ہے۔ سنٹرل ايشيا ميں بخارى پلاؤ كا رواج ہے، تركوں كا كھانا الگ ہے، اور شام اور لبنان والوں كا الگ، جو كھانا بھى حلال ہوگا خواه وه كسى كلچر كے مطابق تيار كيا گيا ہو وه اسلامى ہوگا۔
اسى طرح لباس ميں پہلى چيز یہ ديكھنے كى ہے کہ جسم كا كون سا حصہ چھپانا ضرورى ہے، اور وه كون سا لباس ہے جسے شريعت نے حرام نہيں كيا ہے، يعنى كسى لباس كے اسلامى يا شرعى ہونے كى دو شرطيں ہيں:
پہلى شرط یہ ہے کہ وه ساتر عورت ہو، ستر عورت كے متعلق مردوں اور عورتوں كے احكام جدا گانہ ہيں جو بالعموم لوگوں كو معلوم ہيں، اور جن كى تفصيلات آسانى سے جانى جا سكتى ہيں۔
دوسرى شرط یہ ہے کہ لباس حرام نہ ہو اور نہ اس كے پہننے سے كسى حرمت كا ارتكاب ہوتا ہو، مثلاً مردوں كے لئے ريشم كا كپڑا پہننا جائز نہيں، اسى طرح لباس كا انداز ايسا نہ ہو جس سے تكبر پيدا ہو، يا چال ميں اتراہٹ پيدا ہوتى ہو۔
اگر یہ دو شرطيں پورى ہوں تو وه لباس اسلامى ہوگا خواه وه كسى كلچر كا ہو، اسلام كے اولين دعاة يعنى صحابہ كرام، تابعين عظام اور ان كے متبعين رضی اللہ عنہم نے لباس كے تئيں كسى قوم كا كلچر نہيں بدلا، اور نہ زبردستى اپنا كلچر كہيں تھوپا، اسى كا نتيجہ ہے كہ اسلام ميں داخل ہونے والى قوموں كا طرز پوشاک جدا جدا ہے، افغانوں، پاكستانيوں، ہندوستانيوں، بنگلہ ديشيوں، انڈونيشيا اور مليشيا كے مسلمانوں، اسى طرح افريقہ كے مختلف ممالك كے مسلمان باشندوں كے لباس الگ الگ ہيں۔ نبى اكرم ﷺ عام طور سے دو بے سلے ہوئے كپڑے پہنتے تھے، اگر كسى لباس كو سنت كہا جا سكتا ہے تو وه يہى لباس ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس پر كسى فقیہ و عالم كا عمل نہيں۔
مختلف ممالک كے مسلمانوں كے لباسوں ميں قدر مشترک يہى ہے کہ وه ساتر ہيں اور حلال ہيں۔ اس قدرِ مشترک كے بعد ان كا ثقافتى تنوع قابل قبول ہى نہيں بلکہ پسنديده ہے۔ اسى طرح مغرب كى قوموں كا طرز لباس مختلف ہے، اگر مغربى لباس ميں مذكوره دونوں شرطيں پائى جائيں گى تو وه بھى اسلامى ہوگا۔ آج مسلمانوں كى اغلبيت ساحقہ مغربى لباس كو پہنتى ہے، مغربى ممالک كے علماء و مشائخ بھى يہى لباس پہنتے ہيں، اور عام مسلمان بھى يہى لباس پہنتے ہيں۔
لباس كے متعلق یہ رویہ اپنانا کہ ہمارا طرز ہى شرعى ہے یہ تكبر كى علامت ہے۔ تكبر ہر چيز كو ناپاک كرديتى ہے۔ ظاہر پرستى كو چھوڑ كر ہميں اپنے ايمان اور اعمال كى اصلاح پر توجہ دينى چاہئے۔ قرآن كريم ميں ہے: وَلِبَاسُ ٱلتَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌۭ ۚ (سورة الاعراف، آيت ٢٦)، نيز وَعِبَادُ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى ٱلْأَرْضِ هَوْنًۭا الى آخر الآیۃ (سورة الفرقان، آيت ٦٣)۔
الله تعالى ہم سب كو صلاح وتقوى كى توفيق دے، اور مسلمانوں كے خلاف ناجائز فتوى بازيوں سے ہميں محفوظ ركهے، آمين۔