مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةفکر و نظرکچھ یوم علیگ کے تعلق سے

کچھ یوم علیگ کے تعلق سے

انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ اسے اپنے والدین، اپنے وطن اور اپنے مکتب، اسکول اور درسگاہ سے محبت اور لگاؤ کا احساس کسی نہ کسی شکل میں زندگی بھر رہتا ہے۔ اسی انسانی فطرت کے نتیجے میں طلبۂ علی گڑھ بھی سر سید علیہ الرحمہ کے یوم پیدائش کو اپنی درسگاہ اور اس کے بانی سے اظہار محبت و اظہار تشکر و امتنان کے طور پر یوم سر سید یا سر سید ڈے کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن وہ اپنی بساط کے مطابق کچھ علمی، ادبی اور ثقافتی پروگرام منعقد کرتے ہیں اور شام کو اپنی مادر درسگاہ کے فارغین کے ساتھ اجتماعی ڈنر بھی کرتے ہیں۔ فارغین علی گڑھ کی یہ روایت کب قائم ہوئی پتا نہیں، لیکن ہے بہت پرانی روایت اور خاص بات یہ ہے کہ یہ علی گڑھ والے دنیا کے جس حصے میں بھی ہوتے ہیں، ۱۷ اکتوبر کو یوم سرسید / یوم علی گڑھ/ عید علیگ منانا بالکل نہیں بھولتے، اور اسی مخصوص طرز پر اپنی درسگاہ سے محبت، یگانگت اور تعلق قلبی کا اظہار کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ علی گڑھ والوں کے اس جذبے کی قدر دانی اور اظہار عقیدت کو قابل تقلید سمجھتے ہوئے دیگر تعلیمی اداروں کے فارغین بھی اسی نوعیت یا اسی سے ملتے جلتے جشن کا انعقاد اپنی مادر علمی کے لئے کرتے ہیں۔
آج کل اعلی تعلیم یافتہ حضرات اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والوں کے اندر بھی دوسروں کے خیالات اور پسند و ناپسند کے تعلق سے منفی باتوں کا اظہار عام ہوتا جارہا ہے، جبکہ انہیں کے مثبت اور تعمیری افکار کی کھل کر تعریف اور اسے دوسروں تک پہچانے اور اسے مشتہر کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔ ردعمل کے اظہار کا یہ ایک نامناسب اور غیر معروف طریقہ ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ ہم مثبت اعمال، خیالات اور باتوں کی تعریف کریں تاکہ اس سے دوسروں کے اندر بھی اسی طرح کے تعمیری کام کا جذبہ پیدا ہو اور اس طرح ان کی حوصلہ افزائی بھی ہو جائے گی۔ اور اگر کسی کی بات سے ہمیں اتفاق نہیں ہے تو اس پر غیر مناسب اور بھونڈے انداز کا منفی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے اپنی بات کو مناسب انداز سے کہنا چاہئے۔ ہر انسان کے اندر اچھائی اور خرابی کا مادہ پایا جاتا ہے، مثبت اور منفی جبلت ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہے لیکن ہمیں اپنی فطرت کے مثبت پہلو پر ہی دھیان دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔
بانی درسگاہ علی گڑھ، سر سید احمد خاں کی ہمہ جہت زندگی کے کئی پہلو ہیں جن میں سب سے نمایاں حیثیت ان کی ایک سماجی مصلح اور مسلمانوں کی تعلیم کے تعلق سے ان کی فکر اور اس کے لئے برپا کی جانے والی تحریک ہے جس نے بر صغیر میں مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کو مہمیز کرنے اور تعلیم کے لئے ادارے و انجمنیں قائم کرنے میں اپنا بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ ان کی زندگی کا دوسرا پہلو اردو زبان کی وسعت و ترقی کے لئے ان کی خدمات ہیں جس کے تحت ان کے ذریعہ لکھے گئے مضامین اور رسالے ہیں اور اسی لئے انہیں اردو کے عناصر خمسہ میں اہم مقام حاصل ہے۔ اسی طرح ان کی زندگی کا تیسرا پہلو ان کی مذہبی فکر اور خیالات ہیں جہاں وہ قرآن کے تراجم و تفسیر میں علماء و مفسرین کے عام تراجم و تفہیم سے ہٹ کر قرآنی اصطلاحات کے کچھ نئے مفہوم متعارف کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سرسید احمد خاں کے ان کے اپنے تراجم اور قرآنی مفاہیم کو امت میں کبھی بھی کسی سطح پر پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ قرآنی اصطلاحات کے وہ مطالب اور مفاہیم جو مسلمانوں میں قبولیت عام کے درجے پر ہیں ان سے ہٹ کر سر سید کے مخصوص اصطلاحی مفہوم سے مسلمان عوام و خواص نے شروع میں ہی قطع تعلق کر لیا تھا، اور وہ آج بھی صرف کتب خانوں کی زینت ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے ہر سال یوم سرسید کے موقع پر بہت سارے علماء، ماہرین اور مفکرین سر سید احمد خاں کے انہیں قرآنی علوم و تفہیم کو لے کر سر سید پر طعنہ زنی، کردار کشی اور مرتد ہونے کے فتوے جاری کرنے لگتے ہیں جنہیں بہت پہلے خود علی گڑھ میں ہی پس دیوار کیا جا چکاہے۔ سر سید کو ایک مذہبی مفکر یا ماہر قران کا درجہ کبھی بھی حاصل نہیں رہا۔ ان کا جو بھی کارنامہ ہے وہ علی گڑھ کا مدرسہ، کالج اور مسلم یونیورسٹی ہے اور اسی کارنامے کی وجہ سے انہیں پوری دنیا میں جانا جاتا ہے اور ایک ماہر تعلیم اور سماجی مصلح کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، ناکہ کسی مذہبی مفکر اور مفسر کے طور پر۔
ہمارے یہاں حال یہ ہے کہ بہت سارے غیر علیگ علماء اور دانشور سر سید کی سماجی مصلح اور ماہر تعلیم یا بانی یونیورسٹی کی حیثیت سے ان کے کارنامے کی تعریف کرنے کے بجائے ان کی مذہبی فکر اور قرآنی اصطلاحات کے مخصوص معانی کو لے کر ان کی کردار کشی میں لگ جاتے ہیں گویا علی گرھ مسلم یونیورسٹی یا اس کا فیض اور پوری مسلم دنیا میں اس کی وجہ سے آنے والی علمی بیداری اور تعلیمی فیضان کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں اور نہ وہ اس کام کے لئے سر سید کو کوئی اہمیت دینے کو تیار ہیں۔ بلکہ وہ سر سید کی مذہبی فکر جس کی کوئی خاص اہمیت کبھی نہیں رہی، اسے لے کر سر سید پر طعنہ زنی شروع کر دیتے ہیں۔ علی گڑھ کے فیض یافتہ طلبہ صرف ہندوستان پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیسیوں ممالک سے آتے ہیں اور الحمدللہ یہاں کے علمی فیضان سے مطمئن بھی ہوتے ہیں۔ خود ہندوستان کے بے شمار مدارس کے طلبہ اپنی آگے کی تعلیم کے لئے علی گڑھ یا علی گڑھ کی ہی فکر سے پیدا جامعہ ملیہ اسلامیہ کا رخ کرتے ہیں اور ان اداروں سے تعلیم پاکر وہ اپنے کو خوش قسمت بھی تصور کرتے ہیں۔ اگر ہم علی گڑھ کے علمی فیضان کو کسی بھی سطح پر اپنے لئے یا ملک و قوم کے لئے مفید تصور کرتے ہیں تو ہمیں سر سید علیہ الرحمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے وقت کسی طرح کی کنجوسی اور تساہلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔
پروفیسر محمد خالد اعظمی
پروفیسر محمد خالد اعظمی
پروفیسر محمد خالد اعظمی شبلی نیشنل کالج میں شعبۂ معاشیات کے صدر ہیں۔ بظور ماہر معاشیات و تعلیم آپ کے مضامین مختلف مختلف مجلوں اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں