مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةشخصیاتمولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است
بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را
عقلیت، فضائل انسانى و مکارم اخلاق صرف اہل ایمان کے ساتھ خاص نہیں۔ یہ بالکل ممکن ہے، بلکہ یہ ایک عام بات ہے کہ جو لوگ خدا پر یقین نہیں رکھتے وہ بھى صدقہ و خیرات کرتے ہیں، غیر خود غرضانہ زندگى جیتے ہیں، اور قومى فلاح کے کاموں اور عوامى نظم و نسق میں مثبت حصہ لیتے ہیں۔ اسى طرح بہت سے عظیم مفکرین نے خدا پر ایمان نہ لاتے ہوئے بھى خدا کے وجود، ذات، صفات و افعال کے بارے میں لکھا ہے، اور دوسرے بہت سے عظیم مفکرین نے اسلام سے دور ہونے کے باوجود دنیا کے نظام اور کس طرح اسے بہتر بنایا جائے اس کے متعلق نظریات و افکار کى تخلیق کى ہے۔ یہ بھى حقیقت ہے کہ بہت سى چیزیں جن کى اہلِ ایمان کو ہدایت کى گئى ہے وہ غیر مسلموں کے لئے بھى کشش کى ہیں، اور وہ تمام قوموں کى روز مرہ زندگى سے متعلق ہیں، تاہم کوئى اچھا قول یا عمل خواہ انفرادى ہو یا اجتماعى، جب اسے ایک صاحبِ ایمان کرتا ہے اور ایک غیر مؤمن کرتا ہے دونوں میں ایک فرق ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ صاحبِ ایمان کى کوشش خدا کے حکم کى تابعدارى اور اسے راضى کرنے کى ہوتى ہے۔
یہ ایک چیز ہے کہ کوئى صحت کے فوائد کے لئے روزہ رکھے اور بھوکا رہے، اور یہ ایک بالکل مختلف بات ہے کہ کوئى اس طرح روزہ رکھے جس طرح اہلِ ایمان پر فرض کیا گیا ہے، اس کى ابتداء اور انتہاء کى پابندى کرے، اس کى سارى سنتوں اور سارے آداب کا خیال رکھے۔ مزید اہلِ ایمان کا ہر عمل روزِ جزا و حساب سے مربوط ہے۔ خدا پر ایمان جو عبادت و تقوى سے عبارت ہے اسى وقت ممکن ہے اور پائیدار ہے جب اس کے ساتھ یہ مستحکم یقین ہو کہ تخلیق اور اس کے اندر جارى سارے احکام خدا کے فضل و رحمت اور عدل و انصاف کے نقش کا اثر ہیں۔
عالمِ ربانى حضرت مولانا سید ابو الحسن على ندوى رحمۃ اللہ علیہ کى حیات اور کارناموں پر مختلف زبانوں میں کتنى کتابیں شائع ہو چکى ہیں، متعدد علمى و فکرى مجلات نے خاص نمبر نکالے، بے شمار محاضرات، کانفرسوں، اور سیمیناروں کا انعقاد ہوا، اور آپ کى علمى، ادبى، تربیتى، اخلاقى، دعوتى اور فکرى زندگى کے مختلف پہلوؤں پر بحث و تحقیق کا عمل جارى ہے۔
یہ سچ ہے کہ آپ سید پیشرو، صاحب قدر رفیع، پیر فرخ نہاد و روشن ضمیر تھے، نیک سیرت و ہنر مند آفاق، آپ کا سر تاجِ بخت و کلاہ سعادت سے مزین تھا، سرشت میں پاکى و درخشانى تھى، پیرى میں بھى جوانى و طیب نعم کے اثار ہویدا تھے، مثال بلبل نغمہ ریز تھے و مانند گل تازہ روے، شہرت ثریا سے اونچى تھى، علم و ادب میں آپ کى رفعتِ پرواز حد ادراک عوام و خواص سے پرے تھى، آپ صورت گر معانى و افکار تھے، سحبان بلاغت، و پردہ کشائے خیال، طوطى گویائے اسرار، انشا پردازى و ادبى جمال میں آپ کى مثال مشک ختن کى طرح بے قیمت، بوسیدہ و مردہ موضوعات پر گھسى پٹى باتیں کرنے سے مجتنب و گریزاں:
شاعر کی نَوا ہو کہ مُغَنّی کا نفَس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ بادِ سحَر کیا
بے معجزہ دُنیا میں اُبھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہُنر کیا!
یہ بھى سچ ہے کہ آپ فرزانۂ حق پرست تھے اور فکر و دعوت مین مقام عزیمت پر فائز تھے۔ تعلیمى اداروں کى سربراہى، ہندوستان اور عالمى سطح پر مسلمانوں کى قیادت، اور قوم و ملت کى خیر خواہى و خیر طلبى میں جو آپ کا مقام تھا وہ کس سے پوشیدہ ہے! شاید غالبؔ کا یہ شعر اپ کے حال کا ترجمان ہے:
آغشتہ ایم ہر سر خارے بہ خون دل
قانون باغبانىِ صحرا نوشتہ ایم
اور یہ بھى حقیقت ہے کہ آپ مرد صافى دروں، پاکیزہ خو تھے، طبیعت کى نرمى، کریمانہ اخلاق، احترام انسانیت، والہانہ جذبۂ عمل، زہد و قناعت کے ساتھ حصول مقصد کے لئے لگن اور قربانى کے فضائل سے متصف تھے۔ زندگى سادگى اور تواضع کى زندگى تھى، اور آپ کى گرم گفتارى سرمایۂ محفل تھى۔
آپ کے تعلق سے ان موضوعات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور آئندہ لکھا جائے گا۔ یہ وہ اوصاف و کمالات ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلموں، مقبولان بارگاہ ایزدى و راندگان درگاہ دونوں میں مشترک ہیں۔ یہ آپ کا وصف نا تمام ہے، آپ کے کمالات کا بیان کمترین، حقیقتِ ابوالحسن سے نا آگہى اور اپنى کوتاہ نظرى و ضعفِ ادراک کى شہادت بیں۔ ان تنگنایوں میں آپ کو محصور کرنا علم و حق شناسى پر ظلم ہے۔ مقتضائے عدل و انصاف یہ ہے کہ مقالات بو على آپ کى شان سے فروتر، مقام فکر و فلسفہ آپ کى راہ کا گرد، فتوحات ابن عربى آپ کے لئے ننگ، اور دعاوى تصوف و سلوک اس قد کشیدہ کے لئے تنگ۔
آپ مسند نشین مقام ذکر و بندگى تھے، اور وارث دولت ابراہیمى و محمدى۔ آپ کے اندر دو خوبیاں ایسى تھیں جن کى وجہ سے مذکورہ تمام خوبیاں بامعنى تھیں۔ ایک عبودیت اور دوسرے تقوى۔ یہ دونوں خوبیاں عام طور سے اہل ایمان میں کسى نہ کسى درجہ میں ہوتى ہیں، لیکن آپ نے ان کى راہ میں جو مجاہدہ کیا اور ان کے حصول میں جو سعى کى وہ آپ کا ما بہ الامتیاز وصف ہے، اور ان دونوں اوصاف میں مقام بلند کے حصول نے آپ کو یکے از مقربان بارگاہ الہى بنا دیا تھا۔
اللہ تعالى سے آپ کو خاص تعلق تھا، للہیت کا جوہر آپ کى متاع تھى۔ آپ شب زندہ دار تھے، اور انس و شوق میں راز محبت کے نگہدار۔ تاریک راتیں جن میں آپ ذکر الہى میں مشغول ہوتے صبح روشن سے زیادہ تابناک تھیں۔ طریق عبودیت کى لذت و سرمستى نے راحت و آسائش کو آپ کى نگاہ میں ہیچ کر دیا تھا۔ عشقِ ہزار مقام آپ کا مقام، عشقِ سراپا دوام آپ کى منتہا، سوز و گدازِ سجود سے جبینِ نیاز آشنا، نغمۂ اللہ ہو رگ و پے میں رواں دواں، بوئے یار کى کشش سے سکون و قرار سے سخت بیزار:
دو عالم سے کرتى ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
آپ کے جانشینِ برحق کے بقول: “وہ تنہائیوں میں روتے، گڑگڑاتے، اپنے قصور و تقصیر کا اعتراف اور استغفار کرتے، اور بڑے درد سے یہ کہہ کر اپنے احتیاج کو ظاہر کرتے کہ رَبِّ إِنِّى لِمَآ أَنزَلْتَ إِلَىَّ مِنْ خَيْرٍۢ فَقِيرٌۭ (سورۃ القصص، ٢٤)۔ کبھى اور جملہ کہتے یا دعا پڑھتے۔ اپنے درد و فکر اور غم کو اللہ کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ بھى پڑھا کرتے إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ (سورۃ یوسف، ٨٦) (عہد ساز شخصیت، ص۔ ١٠٤)، خوشا چشمے کہ گریان دوست ہے، واے ہمایوں دلے کہ پاسدار عہد الست ہے، ذکر پر سوز و سرور اور گریۂ شب نے آپ کو وہ روشنى طلعت عطا کى تھى جو ماہ دو ہفتہ کو شرمائے۔
اس عالمِ رنگ و صوت اور بت خانۂ چشم و گوش کو آپ نے اپنا نشیمن نہیں سمجھا، خلد بریں آپ کا خانۂ موروث تھا، اور اس منزلِ ویرانہ کى محبت سے دل خالى و پاک، شوق لقائے رب سے دل سرشار تھا، اور ایمان کے ساتھ اس دار فانى سے روانہ ہونے کى فکر سے معمور۔ بقول استاذ محترم: حسن خاتمہ کى فکر میں یہ مصرعہ ان کى زبان پر آجایا کرتا کہ “خدایا عاقبت محمود گرداں” (عہد ساز شخصیت، ص۔ ١٠٤)۔ اور اسى ذوقِ عبادت و طاعت میں ثابت قدمى سے زندگى گزار دى۔
عبادت کے ساتھ تقوى، خدا ترسى اور اللہ کے لئے کرنے کے جذبہ کو آگے بڑھایا۔ وسعتِ قلبى اور دوسروں کى دل آزارى سے پرہیز آپ کے اوصافِ نمایاں میں سے ہے، اس کا بڑا خیال کہ کسى کو کوئى تکلیف نہ ہو اور نہ کسى کے دل کو کوئى ٹھیس لگے، گفتگو میں لوگوں کے مزاج و مذاق کى رعایت رکھتے، اور اکرام کى جو صورت مناسب سمجھتے وہ بھى اختیار کرتے، لیکن خدا کے خوف اور اس کى یاد کے ساتھ۔ لوگون کى رعایت میں خدا کے احکام کى رعایت کو نہ فراموش کرتے، بقول استاد محترم: “خرچ کرنے میں مولانا اس پر بہت دھیان دیتے تھے کہ بلا ضرورت اور بے محل نہ ہو، اس سلسلہ میں ان کے یہاں نہ کوتاہى تھى اور نہ ہى اسراف، اللہ نے ان دونوں سے ان کو بچا رکھا تھا” (عہد ساز شخصیت، ص۔ ٩٠)
“ہدیہ اور تحفہ قبول کرنے مین بھى وہ محتاط تھے، اس میں وہ اشراف نفس کو بھى دیکھتے، اگر اس کا ذرا سا بھى حصہ پاتے تو اس کا ادنى درجہ یہ تھا کہ اس کو اپنے لئے استعمال میں نہ لاتے۔” (عہد ساز شخصیت، ص۔ ٩٠)
“مولاناؒ کے یہاں اس بات کا لحاظ بدرجۂ اتم پایا جاتا تھا کہ ان کى ذات سے کسى کو تکلیف نہ پہنچے، اس کے لئے وہ تکلیف اٹھا لیتے تھے، دوسرے کو تکلیف سے بچاتے تھے، ملنے والے اور اپنى ضرورت پیش کرنے والے بعض وقت مولاناؒ کے لئے اذیت کا باعث بنتے، مولاناؒ اس کو گوارا کرتے، اور اپنى اذیت کا اظہار نہ کرتے، بعض اوقات ان سے اپنى ضرورت پورى نہ ہو سکنے پر یا غلط فہمى ہو جانے کى صورت میں بعض لوگ ان کے خلاف رویہ اختیار کرتے، اور ان کو بدنام کرنے کى کوشش کرتے، یا ان کے خلاف مہم چلاتے، مولاناؒ اس کا کوئى جواب نہ دیتے، بلکہ اپنى مجلسوں میں اس کے لئے مذمت کے الفاظ نہیں استعمال کرتے، اور مولانا اس کو غیبت تصور کرتے تھے، اور مولانا کو غیبت سے شدید پرہیز تھا، اور وہ غیبت کا موقع آجانے پر بھى اپنے کو اس سے بچا لے جاتے تھے، خواہ اسى کى غیبت ہو جس سے ان کو تکلیف پہنچى ہو۔ مولاناؒ کى طرف سے اپنى مجلسوں میں کسى کى برائى کرتے ہوئے نہیں سنا گیا، سوائے اس کے کہ دین و ملت کے معاملہ میں کوئى جارحانہ رویہ کسى کا ان کے سامنے آئے، اس میں تو صرف اسى حد تک مولاناؒ تنقید کرتے، اس میں بھى جو پہلو ان کى ذات سے تعلق رکھتا اس کا ذکر نہ کرتے۔” (عہد ساز شخصیت، ص۔ ١٠٣)
“بعض لوگوں نے مولاناؒ کو اپنے مخالفانہ رویہ سے اتنا زچ کیا کہ مولاناؒ پریشان ہوگئے، اس پر بھى مولاناؒ نے صرف اتنا کہا: اس کو اللہ ہى طے کرے گا، ہمارى طرف سے کوئى جواب نہیں۔” (عہد ساز شخصیت، ص۔ ١٠٤)۔ مصاحب نا جنس سے احتراز آسان، لیکن اس کى ایذا رسانیوں پر صبر کارے دارد۔
“اس کے ساتھ مولانا کا یہ حال تھا کہ ان کى نظر اپنے ہى معائب پر رہتى، جبکہ دوسروں کے معائب سے چشم پوشى برتتے۔” (عہد ساز شخصیت، ص۔ ١٠٤)
عبادت و تقوى کى یہ وہ صفات ہیں جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتى ہیں۔ ہم جب کہ آپ کى علمى و فکرى خوبیوں اور آپ کے اخلاقى فضائل اور قائدانہ صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہیں، یہ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان صفات کا حامل خدا سے کس قدر قریب تھا، پارسائى میں کس طرح سب سے اگے تھا، تمکین و جاہ میں ہمنشینِ ملائک تھا، اور مختصر یہ کہ یہ خاک پر اسرار و عجائب روزگار بہ صنعِ الہى تھى۔
ان صفات کا مطالعہ کئے بغیر ہم نہ آپ کو سمجھ سکتے ہیں، نہ علم و ادب میں آپ کى حصہ دارى کا ادراک کر سکتے ہیں، نہ ہندوستانى مسلمانوں کى قیادت میں آپ کے کردار کا صحیح اندازہ، اور نہ ہى ہمارے لئے آپ کى پیروى ممکن:
آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور
شمشیرِ پدر خواہی بازوے پدر آور
المادة السابقة
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں