مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةفکر و نظركپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

سوال
مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا کا مزاج گرامی بخیر ہوگا۔ کپڑے کے موزوں پر مسح کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ علمائے اہل حدیث تو اجازت دیتے ہیں۔ کیا اگر کپڑے کا موزہ موٹا ہو تو مسح کی گنجائش ہے یا نہیں؟ وضاحت مطلوب ہے۔ امید زحمت گوارہ فرمائیں گے۔
آپ کا شاگرد جمال احمد ندوی، مئو۔
جواب
موزہ كو عربى میں جورب كہتے ہیں، جو فارسى سے معرب ہے۔ فارسى میں اس كى اصل تھى “گورِ پا” یعنى پاؤں كى قبر، قدموں كو چھپانے كے لئے سوت یا اون سے اسے بنایا جاتا تھا۔ یعنى موزہ كپڑے ہى كا ہوتا تھا، چمڑے كا نہیں۔ بعض قدیم تہذیبوں میں چمڑے سے قدم چھپانے كى روایت كا پتہ چلتا ہے، پر چمڑے كے موزے كبھى مقبول نہیں ہوئے۔
عربوں میں موزوں كا سرے سے رواج ہى نہ تھا۔ اسى لئے اس كے لئے عربى میں كوئى لفظ نہیں۔ “جورب” جیسا كہ ذكر كیا گیا فارسى سے ماخوذ ہے۔ نبى اكرم ﷺ كے عہد اخیر اور صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم كے زمانہ میں جورب كا استعمال ہونے لگا تھا۔ بر صغیر میں بالعموم یہ سمجھا جاتا ہے كہ عربوں میں چمڑے كے موزے رائج تھے، جنہیں خف (مثنى: خفین) كہتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے۔ “خف” جوتے كى ایک قسم ہے جو ٹخنوں كو ڈھانپ لیتا تھا۔ اس كى مفصل تحقیق میرے ایک مضمون معنى الخف میں ہے، جو میرى كتاب فتاوى و أبحاث فقھیة معاصرة میں شامل ہے۔
اس فتوى میں موزہ كا لفظ كپڑے كے موزے یعنى جورب كے لئے ہى استعمال كیا جا رہا ہے۔ بر صغیر میں چمڑے كے موزوں كا رواج مسح كرنے كا جواز پیدا كرنے كے لئے كیا گیا ہے۔ كہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد كى ماں ہے. اسى طرح ضرورت و حاجت احكام میں تخفیف كى بنیاد ہے۔ ہندوستان میں بغیر ضرورت و حاجت كے، محض تخفیف حكم كى غرض سے چمڑے كے موزے پہنے جا رہے ہیں۔ یعنى اگر مسح كا بہانہ نہ ہوتا تو لوگ چمڑے كے موزے نہ پہنتے، بلکہ سارے معقول انسانوں كى طرح كپڑے ہى كے موزے پہنتے۔
اس تمہید كے بعد اب آپ كے سوال كا جواب پیش ہے۔ جب میں انگلینڈ آیا اس وقت ابتدا میں موزوں (جورب) پر مسح کرنے كا قائل نہیں تھا، بلکہ لوگوں کو اس سے روکتا تھا۔ میں نے دیكھا کہ عوامی مقامات پر وضو کرتے وقت لوگوں كو اپنے پاؤں دھونے میں دشوارى ہوتى ہے، اور بسا اوقات سفر كے دوران بلکہ حالت اقامت میں بھى ان كى نمازیں چھوٹ جاتی ہیں۔ پھر میں نے اس مسئلے پر غور کیا، اس کے مختلف پہلوؤں كا اچھى طرح جائزہ لیا، اور موزوں پر مسح کے جواز کا فتویٰ دیا۔ بہت سے لوگوں نے تسلیم کیا کہ میرے فتوے كى وجہ سے انہیں نماز کی پابندی میں آسانی ہوئى ہے، خاص طور سے جب وھ آفسوں، یونیورسیٹیوں اور عوامى جگہوں میں ہوتے ہیں، اسى طرح جب وھ سفر كر رہے ہوتے ہیں یا جہاز میں ہوتے ہیں۔
میری دلیل وہ مشہور اور مستند احادیث ہیں جو خفین (چمڑے کے جوتوں) پر مسح کرنے کے بارے میں وارد ہیں، جن میں سے بعض صحیح بخاری و مسلم میں بھی ہیں۔ اگر کوئی اشكال کرے کہ خف اور جورب میں فرق ہے، تو اس كے جواب میں عرض ہے کہ ہاں، فرق ہے، لیکن یہ فرق حکم پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ یہ دعوى کمزور ہے کہ حکم کا دار و مدار خف کے چمڑے کا ہونے پر ہے۔ درست یہ ہے کہ حکم کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ خفین پاؤں کو ڈھانپتے ہیں، اور اس وصف میں خف اور جورب دونوں یکساں ہیں۔ جب دونوں برابر ہیں تو حکم میں بھی برابر ہوں گے۔ یکساں چیزوں میں فرق کرنا اور مختلف چیزوں کو ایک درجہ میں ركھنا خلاف عقل ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت علی بن ابی طالب، ابن مسعود، ابن عمر، براء بن عازب، انس بن مالک، ابو امامہ، سہل بن سعد، اور عمرو بن حریث رضی اللہ عنہم نے موزوں پر مسح کیا ہے، اور یہ بھی روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بھی ایسا کیا ہے۔ اور صحابہ میں سے کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی، جسے اجماع سکوتی کہا جاتا ہے، اور یہ بہت سے فقہاء کے نزدیک حجت ہے۔ علماء كى ایک جماعت صحابۂ كرام كو معیار حق مانتى ہے۔ ایک دوسرى جماعت یہ تعبیر ناپسند كرتى ہے، اس كے بجائے یہ حضرات كہتے ہیں کہ صحابۂ كرام معیار حق پر پورے اترے ہوئے ہیں۔ یہى دوسرى رائے استاد محترم مولانا شہباز علیہ الرحمہ كى ہے۔ كسى وقت اس مسئلہ پر تفصیل سے لكھوں گا۔ بہر حال جو تعبیر بھى اختیار كى جائے اس میں شک نہیں کہ اگر قرآن و سنت میں كوئى حكم صراحتًا مذكور نہ ہو تو صحابہ كرام كى رائے بعد والوں كے مسالک پر ترجیح پائے گى، بالخصوص اس وقت جب ان كے درمیان اس مسئلہ پر كوئى اختلاف منقول نہیں۔
صحابۂ كرام رضی اللہ عنہم كے بعد تابعین اور ائمہ میں سے بھی بہت سے علماء موزوں (جورب) پر مسح كرنے کے قائل تھے، جن میں حضرت سعید بن مسیب، نافع مولیٰ ابن عمر، عطاء بن ابى رباح، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، اعمش، خلاس بن عمرو، سفیان ثوری، ابو یوسف، محمد بن حسن، حسن بن حی، شافعی، ابو ثور، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، داؤد بن علی اور دیگر علماء رحمہم اللہ شامل ہیں۔
اگر یہ کہا جائے کہ ان میں سے بعض علماء نے شرط رکھی ہے کہ موزے موٹے ہوں، یا پانی ان میں سے نہ چھن سکے، یا وہ بغیر باندھے اپنی جگہ پر قائم رہ سکیں، تو اس كے جواب میں عرض كیا جائے گا کہ یہ صرف “طردی” فرق ہے، اس سے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
نقل ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آخر حیات میں موزوں پر مسح كرنے كے قائل ہوگئے تھے۔ امام ترمذى نے اپنی جامع میں ذکر کیا ہے: صالح بن محمد ترمذی نے کہا کہ میں نے ابو مقاتل سمرقندی سے سنا، وہ کہتے ہیں، “میں امام ابو حنیفہ کی اس بیماری کے دوران ان کے پاس گیا جس میں ان کا انتقال ہوا، میں نے دیكھا کہ انہوں نے وضو کیا اور جورب پر مسح کیا، اور فرمایا، آج میں نے وہ کام کیا جو پہلے نہیں کرتا تھا۔” یہ واقعہ “بدائع الصنائع” اور دیگر كتب احناف میں بھى منقول ہے۔
میں نے موزوں پر مسح كے جواز كے متعلق عربى میں ایک مضمون لكھا، تو اس كى تائید كرتے ہوئے مشہور شیخ، عالم، فقیہ اور مفسر مجد بن احمد مکی نے مجھے لکھا: “میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔” مزید لکھا: “میں نے شیخ انس بن مصطفی الزرقا سے استفسار كیا کہ والد محترم یعنى شیخ مصطفى زرقا رحمۃ اللہ علیہ (جو مشہور حنفى فقیہ تھے) کا اس مسئلے پر کیا فتویٰ تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ والد محترم کی رائے جورب پر مسح كرنے كے جواز كى تھى، چاہے وہ باریک ہی کیوں نہ ہوں۔ وہ اس مسئلے پر شیخ القاسمی کی تحریر کی بہت تعریف کرتے تھے، اور میں یقین سے کہتا ہوں کہ وہ شیخ یوسف القرضاوی کے موقف اور اس کی دلیل سے مکمل طور پر متفق تھے”۔
استاد محمد عادل فارس نے بھی میرے مضمون پر تبصرہ كرتے ہوئے مجھے لکھا: “میں کہتا ہوں کہ ہمارے عظیم شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ جورب پر مسح کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے۔ میں نے ان سے اس مسئلے کے بارے میں سوال کیا اور یہ سوال اس ہوٹل کے کمرے میں کیا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ کمرے میں دو قسم کے پردے تھے، ایک موٹا اور دوسرا باریک۔ میں نے موٹے پردے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: کیا جورب کی موٹائی ایسی ہونی چاہیے؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں، دوسرے پردے كى موٹائی بھى کافی ہے۔”
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں