مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةشخصیاتڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی ترقی کو تیز گام کرنے کے ساتھ ایک طے شدہ وقت میں کامیابی کے ساتھ اسے حاصل کر لینے میں تاریخی کردار ادا کیا ان میں ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ اس کے تیرہویں وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا نام سر فہرست ہے، اور یقیناً ان کے ادوار وزارت عظمیٰ کو تاریخ کے صفحات میں سنہری حروف سے مزین کیا جائے گا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ملک کی باگ ڈور اس وقت سنبھالی جب برطانوی استعمار سے آزادی کے فوراً بعد، جبکہ ملک کی معاشی قوت اور پیداواری صلاحیت بالکل نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی، انہوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ اس کی ترقی اور معاشی استحکام کے لئے نئی راہیں متعین کیں اور ایک مربوط معاشی منصوبہ بندی کے ذریعہ اور اس کی نشونما اور ترقی کے لیے اشتراکیت اور عوامی شمولیت پر مبنی نیا اقتصادی نظام ملک میں متعارف کروایا جس نے ملک کی ترقی کی رفتار کو مستحکم کرنے کے ساتھ اسے تعمیر نو کی نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ لیکن بدقسمتی سے ۱۹۹۰ آتے آتے ملک کی معاشی رفتار ایک بار پھر سست روی کا شکار ہوگئی جس کی وجہ سے ملک میں زراعت و صنعتی پیداوار ایک بار پھر اپنی استعداد اور صلاحیت کی بالکل نچلی سطح پر پہنچ گئی جس کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری کے مواقع کم ہو گئے اور ساتھ ہی زر مبادلہ اور بین الاقوامی تجارت کو بھی بہت نقصان پہنچا۔
ان مخصوص عوامل کے منفی ردعمل نے معیشت کو سست روری کے نچلے پائیدان پر پہنچا دیا جس نے ملک کی معاشی ساکھ اور بین الاقوامی اداروں سے مالی فوائد حاصل کرنے کی شرائط کو بھی متاثر کیا۔ ایسے وقت میں داکٹر منموہن سنگھ نے بطور ایک ماہر فن وزیر خزانہ جس طرح ہندوستانی معیشت کو انقلابی اقدامات سے روشناش کروایا اور بطور ایک بین الاقوامی ماہر معاشیات، ملک کے اقتصادی اور مالیاتی نظام میں بنیادی طرز کی اصلاحات اور اس کے مطابق قوانین اور دستوری تبدیلیاں متعارف کروائیں، وہ صرف انہیں کا یقین حوصلہ اور حصہ تھا، جس کے بعد ملک میں معاشی ترقی کی وہ رفتار دیکھنے کو ملی جس کا سابقہ دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سنہ دو ہزار چار سے دو ہزار چودہ کے درمیان بطور وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کا دور معاشی اصلاحات کے ساتھ کثیر مقدار میں بیرونی سرمایہ کاری، تجارت کے ساتھ زر مبادلہ کے ذخائر میں وسعت اور ملک کے اندر سرمایہ دارانہ معاشی نظام کی راہ ہموار کرنے اور اسے ترقی دینے کے لئے بھی یاد کیا جاتا رہے گا۔ ان کے دور میں ملک میں معاشی ترقی کی شرح دو ہندسوں میں درج ہونے لگی تھی جو اپنے آپ میں کسی بھی ملک کے لئے ایک مثال اور ایک ریکارڈ ہے۔ ڈاکٹر سنگھ کے ان اقدامات کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ملک کی معاشی ساکھ اور کریڈٹ ریٹنگ میں مثبت تبدیلیاں درج کی گئیں اور ملک نے کسی حد تک اپنا کھویا ہوا وقار بحال کر لیا۔ لیکن بد قسمتی سے ان کے بعد معاشی ترقی، قومی آمدنی اور روزگار کے نئے مواقع کی وہ شرح برقرار نہیں رہ سکی اور ملک ایک بار پھر معاشی مسائل سے دوچار ہونے لگا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کی وفات نے گویا ان کی معاشی اور پیشہ ورانہ خدمات کو یاد کرنے کا ایک اور موقع دیدیا ورنہ گودی میڈیا کی چکا چوند اور منفی رپورٹنگ کے ہجوم میں عوام ان کی وہ تمام انقلابی خدمات تقریباً بھول ہی چکے تھے جنہوں نے ملک کو معاشی گرداب سے باہر نکالنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ منموہن سنگھ جنہیں ہندوستانی معیشت میں نئے نظریات متعارف کروانے کے لئے بجا طور پر ہندوستان کا جان مینارڈ کینس (جے ایم کینس) کہا جا سکتا ہے، انہوں نے عین گرداب میں پھنسی ہوئی ہندوستانی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو ایک ماہر کھیون ہار کے انداز میں جس طرح اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور عالمی معیشت میں پیداوار اور تجارتی مسابقت کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا، اس کارنامے کے لئے پوری دنیا کے ماہرین نے بجا طور پر ان کی خدمات کو سراہا۔ عین اس وقت جب ہندوستانی معیشت اپنی ترقی اور افزودگی کی بالکل نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی اس کی بنیادی نظریاتی ساخت کو تبدیل کر کے عالمی سطح کی پیداواری معیشت بنانے اور ترقی کا نیا رخ دینے کے لئے انہیں بجا طور پر ہندوستان ہی نہیں بلکہ عالمی سطح کے ماہرین معاشیات کی صف میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے کینس نے ۱۹۳۰ کی عظیم کساد بازاری سے عالمی معیشت کو باہر نکالنے کے لئے اپنے مشہور زمانہ نئے معاشیاتی نظریات پیش کئے اور ان نظریات نے پوری دنیا کی معیشتوں کو ترقی کا نیا راستہ دکھایا۔ معاشی نظام میں تبدیلی اور معیشت کی ترقی کے تعلق سے بالکل اسی طرح کا کارنامہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کا بھی ہے، چاہے وہ ۱۹۸۲ اور ۱۹۸۵ کے درمیان رزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کے طور پر اس کے مالیاتی نظام میں بہتری لانے کے لئے رزرو بینک کے دستور میں بنیادی طرز کی تبدیلی کرنا رہا ہو یا بطور وزیر خزانہ ملک میں نئی معاشی پالیسی کا نفاذ ہو یا بطور وزیر اعظم ترقی کی نئی شاہراہ کا تعین ہو، ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اپنی دستوری حیثیت اور ماہر فن ہونے کی صلاحیت کو کامیابی کے ساتھ ہر جگہ واضح طور پر ملک اور قوم کے مفادات کے نگراں کے طور پر دیگر مقاصد سے اوپر رکھا۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ پر ان کے زمانے کے حزب اختلاف کے سیاست دانوں نے بے جا الزامات بھی عائد کئے، انہیں کبھی ربر اسٹمپ وزیر اعظم کہا گیا اور کبھی مَون موہن سنگھ کا لقب دیا گیا لیکن جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ حقائق اس کے بالکل بر عکس تھے۔ وہ ایک با صلاحیت وزیر اعظم تھے، اپنا فیصلہ خود لیتے تھے اور اپنی کابینہ کے ساتھیوں اور افسران پر مکمل اعتماد کرتے تھے۔ ان کے زمانے میں وزراء اور افسران با اختیار ہوتے تھے، جس کا بعد کی حکومت میں یکسر فقدان دیکھنے کو ملا۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود منموہن سنگھ کے دور کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ مسلمانوں کے تعلق سے ان کا دور کسی خاص کام اور کارنامے سے خالی ہے۔ وہ سچر کمیٹی کی سفارشات کے نفاذ کا معاملہ ہو، مسلمانوں کا رزرویشن ہو، گجرات اور گودھرا کے مجرمین کو سزا دینے کا معاملہ رہا ہو یا بٹلہ ہاؤس کا انکاؤنٹر اور اس کی آڑ میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں اور بلا تفتیش حراستی سزا رہی ہوں ہر موقع پر اس تعلق سے ان کا دور انصاف اور قانون کی پاسداری سے پہلو تہی کرتا نظر آتا ہے۔ تاریخ میں مسلمانوں کی ترقی کے تعلق سے منموہن سنگھ کا دور بھی دیگر حکمرانوں کی طرح کسی خاص حصولیابی سے خالی اور انہیں نشانہ بنا کر ملک کے دیگر مسائل سے پہلو تہی کرنے کے لئے بھی جانا جائے گا۔
کسی ملک کے عوام کی ناسمجھی اور میڈیا سے متاثر ہو کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لینے کی مثال ہم ہندوستانیوں پر بالکل فٹ ہوتی ہے۔ جب ۱۹۱۴ کے عام انتخابات میں عوام نے انکا متبادل ایک ایسے شخص کو منتخب کیا جو صرف گفتار کا غازی ثابت ہوا اور جس نے ملک کی معیشت کو پھر لگ بھگ وہیں پہنچا دیا جہاں سے آنجہانی ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اسے نکالنے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔ ایک ماہر معاشیات ہونے کے ساتھ ہی وہ ایک زیرک سیاست دان بھی ثابت ہوئے جنہوں ہندوستانی عوام کو جمہوریت اور عوامی حقوق کی بازیابی اور ان کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ ایسے قوانین پارلیمنٹ سے پاس کروائے جنہیں اس وقت عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔ بنیادی معاشی اصلاحات کے ساتھ جو دیگر قوانین ہندوستانی عوام کو حقوق اور آزادی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرانے میں کامیاب ہوئے ان میں حق اطلاعات کا قانون، حق تعلیم کا قانون، حق روزگار کا قانون، غذائی تحفظ کا قانون، وغیرہ اتنے اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں کہ اس کی مثال ترقی یافتہ ممالک میں بھی کم کم ملے گی۔
ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ اور سنجیدہ خیالات کے حامل ماہرین کی پذیرائی ذرا کم ہی ہوتی ہے، انہیں صرف تاریخ میں ہی جگہ ملتی ہے اور تاریخ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ بھی انصاف کرے گی۔ ہمارے یہاں زیادہ بولنے والے، لمبی لمبی ہانکنے والے اور کام سے زیادہ بات بنانے والے افراد معاشرے میں زیادہ اونچا مقام بنا لیتے ہیں خواہ وہ ملک سماج اور معاشرے کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے ہی لے جانے کا کام کیوں نہ کر رہے ہوں۔ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہمارا شمار بھی انہیں لوگوں میں ہوتا ہے جہاں رفتار سے زیادہ گفتار کے غازی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ داکٹر منموہن سنگھ بات بہت کم کرتے تھے لیکن کام بہت زیادہ کرتے تھے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے ملک کو ایسا کوئی قائد عطا کردے جو زیادہ بات کرنے کے بجائے ملک کے عوام کی مساوی فلاح و بہبود اور ان کی خدمت و حفاظت کو اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہوئے ملک کی خدمت کرے۔
المادة السابقة
المقالة القادمة
پروفیسر محمد خالد اعظمی
پروفیسر محمد خالد اعظمی
پروفیسر محمد خالد اعظمی شبلی نیشنل کالج میں شعبۂ معاشیات کے صدر ہیں۔ بظور ماہر معاشیات و تعلیم آپ کے مضامین مختلف مختلف مجلوں اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں