﷽
علامہ محمد فاروق صاحب اترانوى (وفات سنہ ٢٠٠٠م) رحمۃ اللہ عليہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے فارغ التحصيل تھے، اور شاہ وصى اللہ فتحپورى رحمۃ اللہ عليہ کے مسترشد و خليفہ، ايک متبحر، وسيع النظر، دقيقہ سنج عالم، اور عمل صالح، زہد و تقوى سے متصف، زندگى علم کى نشر و اشاعت ميں صرف کى۔ اللہ تعالى ان کے درجات بلند کرے۔
حال ہى ميں علامہ موصوف کى کتاب الکلام البليغ في أحکام التبليغ (يعنى تبليغى جماعت کى شرعى حيثيت) مطالعہ ميں آئى، جس ميں تبليغى جماعت پر محققانہ تنقيد ہے۔ علمى تنقيد سے اصلاح ہوتى ہے، اور علم کا کارواں آگے بڑھتا ہےَ۔ اميد ہے کہ تبليغى جماعت سے متعلق افراد اس کتاب کا اسى نيت سے مطالعہ کريں گے، اور سنجيدگى سے اس کے مباحث پر غور کريں گے۔
يہ بات ذہن ميں رکھنا ضرورى ہے کہ تنقيد کا مطلب ہرگز کسى چيز کى بيخ کنى نہيں ہوتا۔ اس تنقيد کى وجہ سے تبليغ کا کام بند نہيں ہونا چاہئے۔ ہاں اس کى اصلاح کا اہتمام ہونا چاہئے۔ اسى کى دعوت حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمۃ اللہ عليہ نے دوسرے انداز سے دى ہے۔
پيش نظر کتاب ميں بدعت کے متعلق ايسى اصولى باتيں آئی ہيں جن کى وجہ سے مجھے اس ميں ايک خاص کشش محسوس ہوئى، اور مختلف حيثيتوں سے مجھے اس کتاب سے فائدہ ہوا۔
ميں نے ندوہ میں قيام کے دوران سنت و بدعت کے متعلق شيخ الاسلام امام ابن تيميہ رحمۃ اللہ عليہ کى کتابيں پڑھى تھيں، اور ان کى برکت سے سنت و بدعت کا فرق ذہن ميں اچھى طرح واضح ہوگيا تھا۔ انگلينڈ منتقل ہونے کے بعد شروع ہى ميں جو کتابيں مطالعہ ميں آئيں ان ميں امام شاطبى کى الاعتصام تھى۔ يہ کتاب ناقص تھى، تاہم ميں نے غور سے اس کا مطالعہ کيا اور اس سے نوٹس لئے۔ اس کے بعد الموافقات پڑھى اور پڑھائى بھى۔ نتيجتًا اصولى نقطۂ نظر سے سنت و بدعت کا فرق معلوم ہوا۔ بعض پہلوؤں سے شاطبى کى باتيں امام ابن تيميہ سے زيادہ واضح، طاقتور اور مؤثر محسوس ہوئيں۔
سنت و بدعت کے موضوع پر اردو کى کوئى تصنيف کبھى چجى نہيں۔ بر صغير کى کتابوں ميں علم و تحقيق کا انداز کم نظر آيا، البتہ مناظرہ و مجادلہ زيادہ معلوم ہوا۔ اتنے طويل عرصہ کے بعد جب يہ کتاب پڑھى تو حيرت انگيز مسرت ہوئى کہ اردو ميں کم از کم ايک کتاب ايسى ضرور ہے جو علم و تحقيق کے معيار پر پورى اترتى ہو۔ اس کى تصنيف ميں مصنف نے الاعتصام سے خصوصى استفادہ کيا ہے اور جگہ جگہ اس کے حوالے ديئے ہيں۔
مصنف حرف آغاز کے تحت لکھتے ہيں: “کوئى عمل شرعى اس وقت عمل شرعى ہوتا ہے جب کہ شرعى دليل سے ثابت ہو۔ اگر شرعى دليل سے ثابت نہ ہو تو خواہ وہ عمل کيسا ہى عمدہ اور کتنا ہى مفيد کيوں نہ ہو شرعى نہ ہوگا۔ غير شرعى ہوگا۔” (ص۔ ٤١)۔ کتاب کا يہ پورا حصہ پڑھ کر ميرى آنکھيں کھلى کى کھلى رہ گئيں کہ کيا واقعتاً بر صغير کا کوئى عالم اس قدر صاف بات، اور اتنى جرأت و بيباکى سے کہہ سکتا ہے؟
مزيد لکھتے ہيں، اور اسى صفائى سے لکھتے ہيں: “جب عمل کے شرعى ہونے و بدعى ہونے کا معيار دليل شرعى ہے، معتبر و غير معتبر ہونے کا دار و مدار، صحت و سقم کا انحصار دلائل شرعيہ ہى پر ہے، تو کوئى بھى عمل اگر دليل شرعى سے ثابت نہ ہو، مگر بکثرت علماء اس ميں شريک ہوں، يا وہ عمل عام لوگوں ميں بہت مقبول ہو، اور اس عمل کى شہرت عالم گير ہو جائے، اور اس کے بہت مفيد ہونے کا مشاہدہ ہو، کسى ولى اللہ کے قلب ميں اس کا القا يا الہام ہو، اس عمل کى کوئى کرامت ظاہر ہو، يا اس کى کسى خوبى کا کسى کو کشف ہو، يا خواب ميں بشارت ہو، يا اس عمل کے نتيجے ميں بہت سے غير مسلم اسلام قبول کرليں، يا اس عمل کے نتيجے ميں بہت سى مسجديں وجود ميں آجائيں، يا بکثرت لوگ ديندار اور نمازى بن جائيں وغيرہ، تو يہ امور شريعت کے نزديک کوئى معتبر دلائل نہيں ہیں۔ ان امور سے کسى عمل کے صحيح يا غلط ہونے کا فيصلہ نہيں ہو سکتا۔” (ص۔ ٤٢-٤٣). اس کے بعد مصنف نے شاطبى کى (الاعتصام) ايک عبارت اپنى تائيد ميں پيش کى ہے، اور قرآن کريم کى بعض آيات سے استدلال کيا ہے۔
اس کتاب کى ايک اہم بحث حديث اور علمائے محققين کے اقوال کى روشنى ميں بدعت کے مفہوم کى تشريح ہے۔ اس ميں ايک مفيد عنوان ہے: جس طرح فعل رسول سنت ہے اسى طرح ترک بھى سنت ہے (ص۔ ٥٣-٥٤)۔
کتاب کى ايک بحث ہے: تبليغ امر مطلق ہے۔ اس کے پڑھنے سے مصنف کا علمى مقام ذہن ميں راسخ ہو جاتا ہے۔ اسى بحث کا حصہ ہے: تبليغ مطلق کے ثبوت سے تبليغ مقيد کا ثبوت نہيں ہوتا۔ يہ حصہ مصنف کى دقيقہ سنجى اور مجتہدانہ ومحققانہ نظر کا شاہد عدل ہے۔ فرماتے ہيں: “اہل بدعت کى بہت بڑى اصولى غلطى يہ ہے کہ وہ احکام عامہ مطلقہ سے امور خاصہ مقيدہ ثابت کرتے ہيں۔ حالانکہ احکام عامہ مطلقہ سے امور خاصہ مقيدہ کا اثبات ہرگز صحيح نہيں ہے، تا وقتيکہ امور مقيدہ و مخصوصہ کى تخصيص و تقييد کے لئے کوئى خاص اور مستقل دليل نہ ہو۔” (ص۔ ٩٩)۔ اس کے بعد امام شاطبى کى بعض عبارتيں تائيد ميں پيش کى ہيں۔ اگر يہ بحث اچھى طرخ پڑھ لى جائے تو علماء و مشائخ کے بہت سے استدلالات زمين بوس ہو جائيں۔
کتاب ٥٦٣ صفحات پر مشتمل ہے، اور اس کى اصولى باتيں غير معمولى افاديت کى حامل ہيں۔ اس مختصر تحرير ميں ان تمام باتوں کو نماياں کرنا ناممکن ہے۔ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد يہ احساس مجھے بار بار ستاتا رہا کہ کاش اتنے جليل القدر محقق سے ان کى حيات ميں واقفيت ہوگئى ہوتى تو استفادہ کے لئے حاضر ہوتا اور اجازت کے حصول کى سعى کرتا، مگر يہ مقدر نہ تھا، محدثين کا قول ہے: السماع رزق۔
اس ريويو کا مقصد تبليغى جماعت پر کى گئى تنقيدات کا جائزہ لينا نہيں، اسے ميں دوسروں کے لئے چھوڑ ديتا ہوں، اور اگر ميں ان تنقيدات پر کوئى رائے قائم کروں بھى تو شايد وہ انصاف پر مبنى نہ ہو، کيوں کہ خود ميرا اس جماعت سے بچپن سے تعلق ہے، اور مجھے اس سے بہت فائدہ پہنچا ہے۔
کتاب ميں کہيں کہيں مناظرانہ رنگ آگيا ہے۔ کاش اس ميں يہ نقص نہ ہوتا۔ شايد اسے موضوع کى مجبورى کہا جائے کيوں کہ کتاب کا اصل موضوع تنقيد ہے۔ اس ايک بات سے قطع نظر يہ کتاب اردو زبان ميں اپنے موضوع پر لاثانى ہے۔
ميرى رائے ہے کہ بر صغير کے مدارس کے ذمہ داروں کو يہ کتاب نصاب ميں شامل کرنى چاہئے، اور اگر کسى وجہ سے ايسا ممکن نہ ہو تو کم از کم طلبہ کو اس کے مطالعہ کى ترغيب کرنى چاہئے۔