﷽
نعره زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شد
حسن لرزید کہ صاحب نظرے پیدا شد
نقاد جہان آباد کا خاموش ہو گیا
٢٥ دسمبر کو پروفیسر شمس الرحمن فاروقى کا سانحۂ ارتحال رواں صدى میں اردو دنیا کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ کچھ دنوں پہلے خبر ملى تھى کہ وه دہلى میں ہیں اور انہیں کووِڈ ١٩ ہو گیا ہے۔ افاقہ ہوا اور اپنے وطن الہ آباد چلے گئے۔ لیکن شاید وائرس کے اثرات ابھى جسم کے اندر موجود تھے، اور یوں کورونا ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔ اور اب ہمارے درمیان ایک ایسا شخص نہ رہا جو بیک وقت عالم، محقق، ادیب، شاعر، ناول نگار، مترجم، اور سب سے بڑھ کر ایک روشن دماغ تھا۔ آه! نقاد جہان آباد کا خاموش ہوگیا۔
مقام شناسى
يہ اسى عقل مفكر كا كرشمہ تھا كہ اس نے صرف اپنے بل پر اردو تنقيد كو اكيسويں صدى ميں داخل كيا، اور دنيائے اردو اس عظيم نقاد كے احسان سے كبھى سبكدوش نہيں ہو سكتى جس كى تنقيدى بصيرت منفرد تھى، اور جس نے اپنے عصر كو تنقيد كى نئى جہتوں اور اچھوتى راہوں سے روشناس كرايا۔
شبلى و حالیؔ كے بعد اردو تنقيد كى مسند آزاد، سليمان، نياز فتحپورى، اور ماجد نے سنبھالى۔ پھر اس كى وراثت ان لوگوں كے حصہ ميں آئى جنہوں نے ادبى مطالعہ كے ان وسائل سے بھى استفاده كيا تھا جو مغرب كے ذريعہ فراہم ہوئے تھے، اور جو مغربى تنقيد كے رجحانات سے براه راست واقف تھے۔ وه اردو كو ان نئے نئے خيالات سے مالا مال كرنے كى سعى پيہم كر رہے تھے۔ ان ميں نماياں تھے: مجنوں گوركھپورى، حسن عسكرى، كليم الدين احمد، اور آل احمد سرور۔ ان بزرگوں كے بعد شمس الرحمن فاروقى تنہا رونق آرائے بزم رہے۔ جہاں گئے چھائے رہے۔ اديبوں اور شاعروں نے ان كے سامنے سر تسليم خم كيا، دنيائے علم و ادب نے ان كى خدمتوں كو سراہا، اور سنہ ١٩٩٢ ميں انہيں بر صغير كا سب سے بڑا ادبى ايوارڈ سرسوتى سمّان ديا گيا۔
شب خون
سنہ ١٩٧٨ سے ميرا قيام ندوه ميں بحيثيت طالب علم، پھر بحيثيت مدرس رہا۔اس دوران شمس الرحمن فاروقی سے آشنا ہوا۔ ان كے رسالہ شب خون كا نام سنا۔ ايک نيا رنگ اور نيا آہنگ، اديبوں اور شاعروں كى بے راه روى پر اچانک اور بے محابا حملہ۔ رسالہ كا نام الصارم المسلول، السيف البتار، اور صمصام الاسلام كے قبيل كا محسوس ہوا۔ اگر يہ كسى ناول كا نام ہوتا تو اتنى حيرت نہ ہوتى، ليكن ايک ادبى اور تنقيدى مجلہ كا يہ نام غير ادبى لگا اور ہميشہ كھٹكتا رہا۔ نام سے قطع نظر ميں اس پرچہ کے قارئين ميں شامل ہو گيا، اور شمس الرحمن فاروقى كى ادبى عظمت دن بدن دل ميں راسخ ہوتى گئى۔
سنہ ١٩٨٥ كے شمارے ميں ان كى ايک تحرير بعنوان مير كے كلام ميں عاشق كا كردار شائع ہوئى، اس نے اپنى طرف متوجہ كيا۔ اس ميں لكھتے ہيں: “مير كى زبان كے اس مختصر تجزيئے اور غالب كے ساتھ موازنے سے يہ بات ظاہر ہو جاتى ہے كہ مير اور غالب ميں اشتراک زياده ہے، افتراق كم۔ استعمال زبان سے ہٹ كر ديكھئے تو بھى اشتراک كے بعض پہلو نظر آتے ہيں۔ اوپر ميں نے عرض كيا كہ مير كے بعد غالب ہمارے سب سے بڑے انفراديت پرست ہيں اور ان دونوں كى انفراديت پرستى ان كے كلام سے نماياں ہونے والے عاشق كے كردار ميں صاف نظر آتى ہے۔” مذكوره شماره ميں ان كا ايک مضمون بعنوان تفہيم غالب تھا۔ سنہ ١٩٨٩ ميں اسى نام سے ان كى مشہور كتاب شائع ہوئى۔
سنہ ١٩٨٦ كے ايک شماره ميں شائع شده ان كى ايک تحرير بعنوان افسانے ميں بيانيہ اور كردار كى كشمكش پسنديدگى كى نگاه سے ديكھى گئی، جس كى ابتدا يوں ہوتى ہے: “نئے افسانے كے بارے ميں عام طور پر اس تشويش كا اظہار كيا جاتا ہے كہ اس كو روايت سے اللہ واسطے بير ہے، اس ميں روايت شكنى كا رجحان ہے۔ اس ميں بيانيہ كى روايتى خوبياں نہيں ہيں يا بہت كم ہيں۔ افسانے سے بيانيہ كے اخراج كا ذمہ دار جديديت كو ٹھہرايا گيا ہے۔ يعنى جديديت كے جرائم كى فہرست ميں بيانيہ كا قتل بھى شامل ہے۔ چنانچہ بعض حلقوں كى طرف سے جب افسانے كى موت كا اعلان ہوا تو اس كے كچھ دنوں بعد (یعنی تحقیق و تفتيش كى كارروائى پورى كرنے كے بعد) يہ بھى كہا گيا كہ جديديت نے افسانے كو چيستان بنا كر ان ہزاروں قارئين سے اسے چھين ليا تھا جو انسانى مسائل كے تخلیقى افسانوى اظہار كو، افسانے كا افسوں جانتے تھے۔”
سنہ ١٩٩٠ ميں ان كى كتاب شعر شور انگيز شائع ہونا شروع ہوا، يہ چار جلدوں (جلد ١، جلد ٢, جلد ٣، جلد ٤) ميں مفصل مطالعہ كے ساتھ ميؔر كى غزليات كا محققانہ اور معيارى انتخاب ہے۔ اس كتاب كى اشاعت نے مطالعۂ ميؔر كو ايک نئے عہد ميں داخل كر ديا، اور اس سے فاروقى صاحب كے انتقادى شعور كو مزيد شہرت ملى۔ اس كى تمہيد ميں لكھتے ہيں: “ميرى تحرير ميں نغمۂ داؤدى تو شايد نہ ہو، ليكن مير كى عظمت كو الفاظ ميں منتقل كرنے كى كوشش ضرور ہے۔ اس كوشش ميں آپ كو دماغ كے تيل كے ساتھ ساتھ خونِ جگر كى بھى كار فرمائى شايد نظر آئے۔”
اگر چہ گوشہ گزيں ہوں ميں شاعروں ميں ميؔر
پہ ميرے شور نے روئے زمين تمام ليا
٭٭٭
جانے كا نہيں شور سخن كا مرے ہرگز
تا حشر جہاں ميں مرا ديوان رہے گا
ادب كى معياريت
ندوه ميں شب خون اور شمس الرحمن كى تحريروں كا ذكر محدود تھا، مجھ سے جونيئر دو تين طلبہ ادب كے جديد رجحانات سے متاثر تھے۔ ان سے صحبت رہتى، اور ان كى ديكھا دیکھی شبخون پڑهنے لگا۔ اسى دوران ادبى پياس بجھانے كے لئے لكھنؤ كى لائبريريوں كا بھى طواف كيا۔ دانش محل جاتا اور گھنٹوں وہاں ادب و تنقيد كى كتابوں كا مطالعہ كرتا۔ اس كے مالک علم دوست تھے۔ انہيں تجارت سے زياده اردو ادب كے فروغ سے دلچسپى تھى۔ بہت سستے داموں كتابيں فروخت كرتے۔ پھر بھى ہم جيسے لوگ ان كے مكتبہ كو لائبريرى كے طور پر استعمال كرتے۔ سننے ميں آيا ہے كہ دانش محل بند ہو گيا۔ جب تجارت تجارت كے اصول پر نہيں ہوگى تو انجام يہى ہوگا۔
شبخون جہاں ايک طرف اپنے قارئين كو ادب كى نئى سمتوں، نئے زبان و بيان سے روشناس كرا رہا تھا، اور جس سے ہم جيسے نوجوان متاثر ہو رہے تھے، وہيں دوسرى طرف ميؔر و غالبؔ كى تفہيم ايک نئے انداز سے كر رہا تھا۔ اس نے ہمارے سامنے مير فہمى اور غالب فہمى كى نئى راہيں كھوليں، اور سب سے بڑھ كر شمس الرحمن فاروقى كى اس ضد نے ہميں ان كا شيدائى بنا ديا كہ كسى حال ميں ادب اپنے معيار سے نيچے نہ اترے۔ جو چيز ہمارے نزديک خوبى تھى وہى ايک بڑے حلقہ ميں برائى سمجھی گئى، اور يہ الزام لگايا گيا كہ شمس الرحمن ادب كا رشتہ معاشره سے كاٹنا چاہتے ہيں۔ انہيں ناعاقبت انديش لوگوں كا دباؤ ہے كہ ندوه كے لوگ غير معيارى زبان يہ كہہ كر استعمال كرتے ہيں كہ ہم جس معاشره ميں جيتے ہيں اس كى زبان يہى ہے۔
آكسفورڈ ميں ذكر شمس الرحمن
ميں سنہ ١٩٩١ ميں آكسفورڈ آگيا اور شبخون سے ميرا رشتہ منقطع ہوگيا۔ سنہ ١٩٩٥ ميں الہ آباد يونيورسٹى كے شعبۂ تاريخ كے پروفيسر نعيم الرحمن فاروقى صاحب ايک سال كے لئے آكسفورڈ تشريف لائے، اور انٹلكچول اينڈ سوشل ہسٹرى آف مسلم ورلڈ كے اس علمى پروجكٹ پر كام كرنے كے لئے ان كا تقرر ہوا جس پر ميں كئى سالوں سے لگا ہوا تھا۔ اسى دوران لكهنؤ يونيورسٹى كے شعبۂ معاشيات كے پروفيسر محمد مزمل صاحب بھى تشريف لائے، اور ہم تينوں ميں قربت بڑھى۔ ايک مدت كے بعد ادب و شاعرى كى مجلسيں زنده ہوئيں۔ کبھى ميرے مكان پر اور كبھى ان كى رہائشوں پر ہمارى نشستيں پابندى سے ہونے لگيں۔
نعيم الرحمن صاحب نے كسى موقع پر ذكر كيا كہ شمس الرحمن فاروقى ان كے بڑے بھائی ہيں، اور وه گاہے بگاہے اردو ادب و تنقيد ميں ان كے كارناموں كا تذكره بھى كرتے۔ نعيم الرحمن صاحب اپنے بھائی كا نام ہميشہ تعظيم سے ليتے، اس طرح جيسے ايک فرمانبردار بيٹا اپنے باپ كا نام ليتا ہے، يا جس طرح ايک لائق شاگرد اپنے محسن استاد كا نام ليتا ہے۔ ان مجلسوں سے شمس الرحمن فاروقى كى عقيدت ميں غير معمولى اضافہ ہوا۔
لندن كى ايک شام شمس الرحمن كے نام
اسى دوران انڈين پوسٹل سروسز سے سبكدوشى كے بعد شمس الرحمن فاروقى كى لندن آمد كے موقع پر ادب نواز دوستوں نے ان كے اعزاز ميں ايک نشست كا اہتمام كيا۔ ميں بھى نعيم الرحمن فاروقى كے ساتھ اس ميں شريک ہوا۔ شمس الرحمن فاروقى نے مختلف ادبى موضوعات پر بے تكلفانہ باتيں كيں۔ اس زمانہ ميں وه داستان امير حمزه كى ڈكشنرى تيار كر رہے تھے۔ زياده تر محور گفتگو يہى داستان اور ڈكشنرى رہى۔ يہ داستان حضرت حمزه بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ كى ہے۔ داستان گويوں نے اسے ايرانى عناصر اور ہندوستانى رنگوں سے اس قدر بھر ديا ہے كہ يہ داستان كچھ كا كچھ بن گئى، اور چھياليس جلدوں تک پہنچ گئى۔ فارسى اور تركى كے مقابلہ ميں اردو ميں يہ داستان ناقابل يقين حد تک طويل ہوگئى۔ فاروقى صاحب نے تشريح كى كہ داستان امير حمزه ايک زبانى بيانيہ ہے۔ زبانى بيانىہ كے اپنے ضوابط اور رسوميات ہوتے ہيں۔ اس داستان ميں بعض اوصاف و خواص ايسے ہيں جو دنيا كے كسى بيانيہ ميں نہيں ملتے۔ ناول نگارى نے اس بيانيہ كى اہميت پس پرده ڈال دى۔ بالعموم داستان امير حمزه بلكہ سارى داستانوں كے بارے ميں عام ادبى حلقوں ميں يہ خيال رہا ہے كہ يہ واقعيت سے دور اور اخلاقى قدروں سے عارى ہوتى ہيں۔ يہ داستان رزم، بزم، طلسم اور عيارى كے ارد گرد گھومتى ہے۔ داستان امير حمزه ميں غير معمولى وسعت، پيچيدگى اور رنگا رنگى ہندوستان ميں اور خاص كر اردو داستان گويوں كے ہاتھوں عمل ميں آئى۔ فاروقى صاحب نے اس پر زور ديا كہ داستان گو جب بھى داستان سناتا ہے تو وه ہر بار اس داستان كو دوباره تصنيف كرتا ہے اس معنى ميں كہ سنانے كے دوران داستان ہر بار كچھ نہ كچھ بدل جاتى ہے۔
اس ادبى محفل كے بعد ہم لوگوں نے محبان ادب و تنقيد كى صحبت ميں كھانا تناول كيا. شعر و تنقيد ہى پر زياده گفتگو رہى. شمس الرحمن فاروقى نے مجھے مخاطب كر كے بطور مزاح فرمايا كہ اكرم صاحب! حيرت ہے كہ رندوں كى صحبت ايک عالم نے كيسے گوارا كرلى۔ كہاں شعر و تنقيد اور كہاں مدرسہ! مجھے حيرت ہوئى كہ ابھى ان قافلوں كو گزرے زياده دن نہيں گزرے جن ميں سے ہر ايک نے مدرسہ كى چٹائيوں پر ادب و شاعرى كا ذوق پيدا كيا تھا، اور جن كے دم سے دنيائے شعر و ادب روشن و تابناک تھى:
عجب معيار ہے مے پرستو بزم ساقى كا
جنہيں ہم رند سمجھتے تھے وه اكثر پارسا نكلے
پھر مجھے ياد آيا كہ اس ميں قصور شمس الرحمن صاحب كا نہيں۔ مدرسوں سے جس طرح ادب كا ذوق ناپيد ہوا ہے، اس كے بعد كسے حيرت نہيں ہوگى؟ علماء كو اپنى كمى دور كرنے اور شعر و ادب كا ذوق پيدا كرنے پر توجہ دينى چاہئے۔ يہ زيبا نہيں كہ وه اس نوع كے تبصروں پر منہ بسوريں:
يہ دنيا ہے اے شؔاد، ناحق نہ الجھو
ہر اک كچھ تو اپنى سى آخر كہے گا
جامعہ مليہ ميں ايک يادگار نشست
فاروقى صاحب سے رشتہ تقريباً تيئيس سال منقطع رہا۔ سنہ ٢٠١٩ ميں ميرى ہندوستان آمد كے موقع پر پروفيسر ترنم صديقى صاحبہ نے جامعہ مليہ ميں ميرے ايک لكچر كا اہتمام كيا۔ اس پروگرام كے انعقاد ميں جامعہ كے شعبۂ انگريزى كى پروفيسر باراں فاروقى ان كى معاون تھيں۔ انہوں نے كئى بار مجھ سے رابطہ كيا اور اپنا تعارف كرايا كہ شمس الرحمن فاروقى ان كے والد ہيں۔ يہ جان كر مجھے بہت خوشى ہوئى۔ انہوں نے ايک بار فون كر كے بتايا كہ جن دنوں جامعہ ميں ميرا لكچر ہوگا فاروقى صاحب بھى ان دنوں دہلى ميں ہوں گے۔ اگر مجھے كوئى اعتراض نہ ہو تو وه اس سيمينار كى صدارت كر ليں۔ ميں نے عرض كيا كہ ميرے لئے اس سے زياده خوشى كى بات كيا ہو سكتى ہے۔ ميں جلسہ گاه ميں پہنچا، فاروقى صاحب ميرے منتظر تھے، پرانى ياديں تازه ہوگئيں۔ لندن كى ملاقات اب تک ان كے حافظہ ميں تھى۔ ان كو ميں نے اپنى انگريزى كتاب المحدثات كا ايک نسخہ پيش كيا۔ انہوں نے ميرا لكچر غور سے سنا اور اپنے صدارتى كلمات ميں اسے بہت سراہا۔ بعد ميں بہت دير تک اس خطاب كى اہميت پر گفتگو كرتے رہے، اور از راه تواضع انہوں نے اس كا بھى اظہار كيا كہ ميرے لكچر سے كتنى نئى باتيں ان كے علم ميں آئيں۔
اس كے بعد ان سے ان كى جديد تحريروں اور ادبى كاوشوں كے متعلق گفتگو ہوئى۔ اس آخرى ملاقات ميں بھى مجھے ان كے خيالات وہى نظر آئے جن كى ايک جھلک ميں نے لندن ميں ديكھى تھى، اور جن سے ميں شب خون كے صفحات پر مانوس تھا۔ اور شايد ادب كے مؤرخين كو ان كى اس بات سے اختلاف نہ ہو: “ادب كے بارے ميں ميرے نقطۂ نظر ميں كوئى خاص تبديلى، كچھ باتوں ميں تاكيد كى كمى، اور كچھ باتوں ميں تاكيد كى زيادتى كے علاوه نہيں آئى۔”
اس پروگرام كے بعد بھى ان كى صاحبزادى باراں فاروقى كے فون آتے رہے جن ميں وه بالعموم فقہى سوالات كرتيں اور اسى بہانہ اپنے والد صاحب كى خيريت سے مطلع كرتيں۔ كل پروفيسر ترنم صاحبہ سے فون پر بات ہوئى اور اس عظيم حادثہ پر افسوس كا اظہار كيا۔ انہوں نے كہا كہ وه باراں فاروقى كو ميرا تعزيتى پيغام پہنچاديں گى۔
فاروقى صاحب سے ميرى يہى دو ملاقاتيں ہيں، اور يہ ميرے لئے يادگار اور باعث فخر ومسرت ہيں۔ ايک ايسا اديب دوراں جس كى تحريريں زمانۂ طالب على ميں مرعوب كرتى تھيں۔ پھر ايسا عہد بھى آيا كہ اس كى ہمنشينى كے مواقع ميسر ہوئے۔
نقش پائيدار
شمس الرحمن فاروقى نے ادبى و تنقيدى فضا پر وه گہرے نقوش چھوڑے ہيں جو ہمارى تاريخ ميں ہميشہ پائيدار رہيں گے، اور ان كے خيالات و تصورات كے بغير كوئى بھى ادبى اور تنقيدى بحث تشنۂ تكميل رہے گى۔ وه اپنے عصر كے سب سے زياده لكھنے والے اور سب سے زياده پڑھے جانے والے اديب تھے۔ اور ان كا كمال يہ تھا كہ زياده لكھنے كے ساتھ وه معيار قائم ركھتے تھے۔ وه زبان كے معاملہ ميں غيرت مند تھے، سوقيانہ پن اور ادبى بے راہ راوى سے انہيں خدا واسطے بير تھا۔
فاروقى صاحب كے يہاں صحيح معنوں ميں تنوع تھا، يعنى شعر و ادب كا كوئى ايسا رخ نہيں جس پر انہوں نے غور نہ كيا ہو، اس پر اپنے ہم عصروں سے گفتگو نہ كى ہو، اور اس تدبر و تامل كے نتائج اہل نظر كے سامنے نہ ركھ ديئے ہوں۔ فاروقى صاحب كے يہ سارے كمالات و اوصاف ايک طرف، تاہم اہل نظر كے نزديک ان كى سب سے نماياں حيثيت ايک ديده ور نقاد اور ايک مبصر جمال شعر و نثر كى تھى۔