مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةشخصیاتمولانا وحید الدین خان (١٩٢٥- ٢٠٢١)

مولانا وحید الدین خان (١٩٢٥- ٢٠٢١)

برسوں لگى رہى ہيں ان مہر و مہ کى آنکھیں
تب کوئى ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے
ابھی خبر ملى کہ آج (بروز چہار شنبہ ٩ رمضان المبارک ١٤٤٢ه مطابق ٢١ اپريل ٢٠٢١) ہندوستان کے معروف اسلامى مفکر و مصنف مولانا وحيد الدين خان كا چھيانوے سال كى عمر ميں انتقال ہوگيا۔ كئى دہائيوں سے بر صغير ميں ان كى انفراديت مسلم تھى۔ وه تقليد، قدامت پسندى اور اكابر پرستى سے دور تھے، مجتہدانہ اور محققانہ شان كے حامل تھے، اور ان كو تخليق و ابتكار سے دلچسپى تھى۔ وه ‘نہيں’ كو ‘ہے’ ميں بدلنے كے قائل تھے، اور اس كے لئے ہر قسم كى جد و جہد كرتے۔ یہ انہيں كا قول ہے: “جو لوگ تخليق كى صلاحيت كھو ديں، وه كسى اور چيز كے ذريعہ يہاں اپنا مقام نہيں پا سكتے۔ خواه وه كتنا ہى شور و غل كريں۔ خواه ان كے فرياد و احتجاج كے الفاظ سے تمام زمين و آسمان گونج اٹھيں۔ وه لاؤڈ اسپيكروں كا شور تو برپا كر سكتے ہيں، مگر وه استحكام كا خاموش قلعہ كبھى كھڑا نہيں كر سكتے۔” ـــــــــــ كتاب زندگى، ص۔ ١١
مولانا كى پيدائش اعظم گڑھ كے ايک گاؤں ميں ہوئى تھى۔ مدرسۃ الاصلاح سرائے مير ميں تعليم پائى، ذاتى محنت سے انگريزى ميں دسترس حاصل كى اور علوم جديده كا گہرائى سے مطالعہ كيا۔ دار العلوم ندوة العلماء ميں قيام كے دوران اپنى سب سے معركۃ الآراء كتاب مذہب اور جديد چيلنج تصنيف كى، جو مجلس تحقيقات و نشريات اسلام سے سنہ ١٩٦٦ ميں شائع ہوئى، اور اس كا عربى ترجمہ الاسلام يتحدى كے نام سے كويت سے سنہ ١٩٧٠ ميں طبع ہوا۔ جماعت اسلامى سے وابستہ رہے، الجمعيت ميں كچھ روز كام كيا، پھر سب سے الگ ہو كر اپنى منفرد شناخت بنائى، اور مثبت تحريروں كے ذريعہ فكر اسلامى كے ارتقاء ميں حصہ ليا۔
ندوه كى طالب علمى سے ميں الرسالہ كا قارى رہا ہوں، اور ہميشہ مولانا كے مضامين بڑے شوق سے پڑھتا۔ مولانا ريڈرز ڈائجسٹ اور انگريزى اخبارات اور مجلات سے چھوٹى كہانيوں كو لے كر ان سے بہترين استنتاج كرتے تھے۔ انگريزى مواد سے غير معمولى شغف كى وجہ سے ان پر انگريزى تعبيرات كا غلبہ ہوگيا تھا۔ اس سے ان كى اردو بھى متاثر ہوئى، جس طرح کہ ہمارے بہت سے علماء پر عربى تعبيرات كا غلبہ رہتا ہے۔ علامہ شبلى، علامہ سيد سليمان ندوى، مولانا سيد ابو الحسن على ندوى، اور مولانا مودودى كے بعد علماء ميں وه لوگ نادر الوجود ہيں جو خالص اور مستند اردو لکھتے ہوں۔
مولانا سے پہلى ملاقات نظام الدين ميں ان كے گھر پر سنہ ١٩٨٣ ميں ہوئى۔ وه ابھى جلد ہى وہاں منتقل ہوئے تھے۔ اس وقت وه زيادہ تر نمازيں مركز نظام الدين ميں ادا كرتے تھے، اور تبليغى جماعت كى افاديت كے قائل تھے۔ بعد ميں تبليغ كے متعلق ان كى رائے بدل گئى تھى۔ اس ملاقات ميں ان سے ایک خاص تعلق ہوگيا تھا، پھر جب بھى دہلى جانا ہوتا تو ان سے ملاقات كى كوشش كرتا۔ مولانا كے صاحبزادے جناب ڈاكٹر ثانى اثنين خان اور ان كى پوتياں يہاں آكسفورڈ مجھ سے ملاقات كے لئے بھى آئے، اور ان سے ايميل كے ذريعہ وقتا فوقتا رابطہ بھى رہا۔ ہر ملاقات ميں مولانا اپنى كوئى نہ كوئى كتاب ضرور ہديہ كرتے، اور ان كى گفتگو سے فكر و نظر كے نئے دريچے وا ہوتے۔ ايک بار ان سے ملاقات كے لئے حاضر ہوا تو اپنے گھر كے سارے افراد كو بلايا اور مجھ سے كچھ نصيحت كرنے كے لئے فرمايا۔ ميں نے عرض كيا كہ آپ كے سامنے كچھ كہنے كى ہمت نہيں پڑتى، مگر مولانا كا اصرار جارى رہا تو مولانا ہى كى زندگى كے كچھ اسباق ان كے سامنے ركھے۔ مولانا نے ايک بار مجھ سے ميرى كتاب المحدثات كے متعلق دريافت كيا اور پوچھا كہ ان خواتين كى زندگى ميں غير مسلم عورتوں كے لئے سيكھنے كى كيا چيز ہے؟ ميں نے كسى وجہ سے اس موضوع پر گفتگو كرنے سے معذرت كرلى۔
انہوں نے بڑى فعال، متحرک اور سرگرم زندگى گزارى۔ وه ايک محنتى انسان تھے، راحت طلبى سے كوسوں دور تھے۔ ايک بار گرميوں ميں ان سے ملنے گيا تو اپنے بالائى كمره ميں سخت گرمى ميں اپنے كام ميں مشغول تھے۔ چھت كى تپش جسم پر محسوس ہو رہى تھى۔ ہم لوگوں كے لئے وہاں بیٹھنا مشكل تھا۔ ميں نے عرض كيا كہ اس گرمى ميں آپ كو كسى ٹھنڈے كمره ميں كام كرنا چاہئے تو انہوں نے كہا كہ مجھے اس كى عادت ہوگئى ہے، اور كچھ پتہ نہيں چلتا۔ محنت كا يہ جذبہ ان كى حيرت انگيز كاركردگى كى روح ہے۔ ان كى يہ بات بڑى قيمتى ہے: “حقيقت يہ ہے كہ تمام علوم محنت كى درسگاه ميں پڑھائے جاتے ہيں۔ تمام ترقياں محنت كى قيمت دے كر حاصل ہوتى ہيں۔ اور محنت وه چيز ہے جو ہر آدمى كو حاصل رہتى ہے۔ حتى كہ اس آدمى كو بھى جس كو بيمارى نے معذور بناديا ہو، جو كالج اور يونيورسٹى كى ڈگرى لينے ميں ناكام ثابت ہوا ہو۔ محنت ايک ايسا سرمايہ ہے جو كبھى كسى كے لئے ختم نہيں ہوتا۔” ـــــــــــ كتاب زندگى، ص۔ ١٢
مولانا بنيادى طور پر ايک مفكر و دانشور تھے، يعنى وه جذبات و احساسات كى گرفت سے آزاد ہوكر عقل كى رہبرى ميں كوئى بات كہتے تھے يا كوئى اقدام كرتے تھے۔ بر صغير ميں عام مسلمان رہنما اس فكر ميں رہتے ہيں كہ كہيں ان كا حلقہ ان سے كٹ نہ جائے، كہيں ان كى مقبوليت پر آنچ نہ آجائے۔ نتيجہ یہ ہے كہ ان كى فكر رسوم و روايات كى بندشوں سے نكل نہيں پاتى، اور وه اسى دائره ميں گردش كرتے رہتے ہيں۔ انہيں نہ دوسرے جہانوں كا علم ہوتا ہے اور نہ اپنے بادۂ دردى آميز كے سوا كسى شراب خالص وصافى كى جستجو ہوتى ہے:
آئين نو سے ڈرنا طرز كہن پہ اڑنا
منزل يہى كٹھن ہے قوموں كى زندگى ميں
مولانا كا خيال تھا كہ ہندوستان كے علماء و مصلحين روح عصر سے خالى ہيں، انہيں يہ اندازه نہيں كہ آزادى كے بعد ايک نئے ہندوستان نے جنم ليا ہے۔ ان كے رويوں سے لگتا ہے کہ گويا وه مغليہ دور ميں، يا خلافت عباسيہ ميں، يا عہد آل عثمان ميں جى رہے ہيں۔ كور پسندى اور غفلت كے اس ماحول ميں وه تنہا مفكر ہيں جو روح عصر كى منادى كرتا ہے۔ طبقۂ علماء ميں اس وقت ان كے علاوه كوئى نہيں جو عصرى اسلوب ميں لكھتا ہو۔ اس ميں شايد كچھ مبالغہ ہو، ليكن اس سے كون انكار كر سكتا ہے كہ جس استقلال كے ساتھ انہوں نے اپنے زمانہ كے انسانوں كو خود ان كى زبانوں ميں پيغام حق سنانے كى ذمہ دارى نبھائى ہے وه ان كا عظيم كارنامہ ہے ۔
ان كو سوچنے كى عادت تھى، اور اس دائره سے باہر نكل كر سوچتے تھے جس كے اندر عام پڑھے لكھے لوگ مقيد ہوتے ہيں، اور جس سے نكلنے كى نہيں سوچ سكتے، بلکہ نكلنے كو كفر و فسق سے تعبير كرتے ہيں۔ مولانا ان بندشوں سے آزاد تھے۔ ان كى يہ بات بالكل سچ ہے: “ہر زمانہ ميں ايسا ہوتا ہے كہ بعض خيالات آدمى كے دماغ پر اتنا زياده چھا جاتے ہيں كہ ان سے نكل كر آزادانہ طور پر سوچنا آدمى كے لئے ناممكن ہو جاتا ہے۔ يہ مذہبى دائره ميں بھى ہوتا ہے اور غير مذہبى دائره ميں بھى۔ يہ بند ذہن ہر قسم كى ترقى كے لئے سب سے بڑى ركاوٹ ہے۔” ـــــــــــ كتاب زندگى، ص۔ ٣٩
اس پر ان كا ايمان واجب الاذعان تھا كہ مسلمانوں كى ترقى كا راستہ پر امن ماحول ميں كام كرنا ہے۔ ان كا يہ ارشاد گرامى اسلامى مراجع كے وسيع و عميق مطالعہ كا ثمره ہے: “حقيقت يہ ہے كہ اسلام ميں امن كى حيثيت عموم (rule) كى ہے اورجنگ كى حيثيت صرف استثناء (exception) كى۔ اسلام كى تمام تعليمات اور پيغمبر اسلام كى عملى زندگى اس كى تصديق كرتى ہے۔” ـــــــــــ امن عالم، ص۔ ١٣
انہوں نے لوگوں سے اختلاف كيا اور لوگوں نے ان سے اختلاف كيا۔ اور اختلاف اگر مہذب اور معقول ہو تو افكار و نظريات كى تطہير كا ذريعہ ہوتا ہے، مگر افسوس كہ ان كے متعلق بدگمانياں بہت پھيلائى گئيں۔ ان كے خيالات كو صحيح و معتدل معيار پر نہيں جانچا گيا۔ خود مولانا نے علامہ اقبال، مولانا مودودى، اور مولانا ابو الحسن ندوى رحمہم الله پر جو تنقيديں كيں ان ميں نقائص تھے۔ انہوں نے ان بزرگوں كے سياق كو سمجھنے كى كوشش نہيں كى، اور كہيں كہيں صاف معلوم ہوتا ہے كہ ان كى تنقيد بالكل بيجا ہے۔
مولانا نہ فقيہ تھے، نہ محدث اور نہ قديم علوم كے ماہر۔ وه ہندوستان كے موجوده ماحول ميں مسلمانوں كو زنده رہنے، پر امن طريقہ سے اسلام كى تعليم اور دعوت عام كرنے اور ترقى كى راه پر گام زن ہونے كا درس ديتے تھے۔ وه ممكن كى موجودگى ميں ناممكن كے پیچھے وقت ضائع كرنے كو بيوقوفى سمجھتے تھے۔ واقعہ ہے كہ متعدد حيثيتوں سے ان كا طريقۂ كار قابل عمل ہے، اور شايد آئنده ان كے مخالفين بھى وہى باتيں كريں گے جن پر اب تک تنقيد كرتے رہے ہيں۔
كون ہے جو اس كا اعتراف نہ كرے كہ مولانا نے بے شمار انسانوں كے ذہنوں كو متاثر كيا۔ ان كى تحريروں نے جديد تعليم يافتہ طبقہ كى رہنمائى ميں بڑا كردار ادا كيا۔ انہوں نے مثبت اور پر امن طريقہ سے ٹھوس اور پائيدار كام كرنے كا نمونہ پيش كيا، اور كتنے مايوس لوگوں كو ياس و نا اميدى سے نكالا اور انہيں جينے كا حوصلہ ديا۔ وه يہ كہہ سكتے ہيں:
شادم از زندگى خويش كہ كارے كردم
رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں