فرمانے لگے “۔۔۔۔۔۔ پہلے کا احوال تو آپ نے قلعے کے داخلی دروازے پر دکان دار کے قصے میں سن لیا۔ دوسرا قصہ بیان کرتے ہوئے حیا مانع ہے کہ شاید آپ کی نفاست پسند طبیعت کو ناگوار گزرے، لیکن چونکہ یہ بھی دلّی اور لال قلعے کی سیر کا ایک ناقابلِ فراموش واقعہ ہے اس لئے آپ کے گوش گزار کیے بنا چارہ نہیں اور شاید کوئی یہ داستانِ عبرت سن کر اپنے جزبات کو قابو میں رکھے اور کریم کے ہوٹل میں نہاری یوں نہ کھائے جیسی میں نے کھائی تھی۔
نہاری کو دو آتشہ بنانے کے لئے میں نے جو چھوٹی ہری تتہیا مرچیں خوب چھڑکی تھیں وہ اب لال قلعے میں اپنا اثر دکھا رہی تھیں اور حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے تھے۔ میں نے آزاد کو حالِ دل بلکہ یوں کہئے کہ حالِ شکم سنایا۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ ہوٹل واپس جانا ممکن نہ تھا اور مغلوں نے اس لمبے چوڑے اور عالی شان محل میں سب کچھ بنایا لیکن وہ کہیں نظر نہ آتا تھا جس کی ہمیں تلاش تھی اور شاید ان محلات میں وہ سہولت موجود ہو لیکن وہاں ہم عام رعایا کی رسائی نہ تھی۔ ایک خاکروب نے قلعے کے بالکل آخر میں ایک جانب اشارہ کیا کہ وہاں! لیکن اس ٹیم (ٹائم) تو بند ہوگا۔ ہم تیز تیز قدموں سے چلتے ‘وہاں’ پہنچے جہاں دو شیڈز میں ایک جانب لکھا ہوا تھا ‘جینٹس’ اور یہی میری منزلِ مراد تھی۔
لیکن تھا انتظار جس کا یہ وہ سحر تو نہ تھی۔ وہاں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے۔ نہ ہی پانی کا کوئی انتظام نظر آرہا تھا۔ اتنے بڑے لال قلعہ میں بڑا ہی نامعقول انتظام تھا۔ وہاں اور بھی تو آتے ہوں گے کریم ہوٹل کی نہاری کھا کر۔ ۔۔۔۔۔۔” _______ عبدالشکور پٹھان، بہتی ہے گنگا جہاں، ص. ١٤١-١٤٢
عرض کیا کہ بھائی کل جب آپ ہندوستان کے سفر کا قصہ بیان کرتے ہوئے جامع مسجد کی سیر کرا رہے تھے اور امید تھی کہ اگلی قسط میں قلعۂ معلی کی زیارت کا بیان ہوگا تو لال قلعے کے حوالے سے ایک خیال گزرا تھا لیکن میں اس کا ذکر شاید نہ کرتا کہ نفیس اور حساس طبیعتوں پر گراں گزرے گا۔ اب چونکہ آپ نے اس جگہ کی تلاش کا واقعہ بیان کر ہی دیا ہے تو میں بھی اپنی بھڑاس نکال لوں۔ جیسے چھپّن ویسے گپّن۔
دراصل آگرے اور دہلی کے قلعوں میں مجھے بھی اُس جگہ کی تلاش تھی۔ اس لئے نہیں کہ میں کریم کی نہاری کھا کر گیا تھا، بلکہ اس لئے کہ میرے اساتذہ کتاب یہ دیکھنے کے لئے پڑھواتے تھے کہ اُس میں کیا نہیں لکھا ہے۔ تو دیوانِ عام و خاص، مساجد و محلات، باغات و حمامات وغیرہ دیکھنے کے بعد لازماً یہ خیال آیا کہ اتنے بڑے محل میں وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ تلاشِ بسیار کے بعد بھی مجھے پائیں باغ کا کچھ پتا نہ چلا، جس سے یہ اندازہ ہوتا کہ اردوئے معلی میں نظافت کا کیا نظام تھا، مخلفات و مدفوعات سے کیسے نمٹا جاتا تھا۔ تذکرہ نگار بھی محلوں، باغوں، آبنماؤں کی زیبائیوں اور درباروں، مشاعروں اور سرور کی محفلوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ وہاں کا ذکر ہی چھوٹ جاتا ہے۔ ویسے بھی ابغض الموضوعات ہے، کون اس کی بات کرے۔ شاید اسی لئے قرۃالعین حیدر اور شمس الرحمن فاروقی جیسے ناول نگاروں نے تمام نقشے کھینچے ہیں لیکن اس کا کوئی ذکر نہیں۔ کئی چاند تھے سرِ آسماں میں داغ دہلوی کی ماں وزیر خانم جب ولی عہدِ سلطنت مرزا فخرو سے شادی کر کے اس کے محل میں آ گئیں تو بس پائپ سے گرم پانی آنے کی بات بتاتی ہیں۔ لیکن مجھے تو آج وہی بات کرنی ہے جس سے لوگ اعراض کرتے ہیں۔
اب آپ یہ نہ کہنے لگیں کہ کس قدر بد ذوق آدمی ہے۔ وہاں تو آدمی اس تصور میں کھو جاتا ہے کہ یہ چھتہ چوک ہے، اسے نوبت خانہ کہتے ہیں، یہ دیوانِ عام ہے، یہیں نقیبوں کی آوازیں گونجتی ہوں گی: جنبش مکن ہشیار باش، سجدے میں نگاہ رہے، تمام ہوش و خرد پیشِ بادشاہ رہے، شہنشاہ، السلطان الاعظم و الخاقان المکرم، مالک السلطنت، مرزا اعلی حضرت، ظل اللہ، صاحبِ قِرانِ ثانی، شہنشاہِ سلطنت الہندیہ و المغلیہ، ابو المظفر شہاب الدین بیگ محمد خان خرم شاہجہاں عالم پناہ پادشاہ غازی جلوہ فروز ہوتے ہیں۔ اور یہ ہے دیوان خاص۔ یہیں تخت طاؤس پر متمکن شہنشاہ کے جاہ و جلالِ شاہی کی نمود ہوتی ہوگی، اور یہیں شعر و سخن کی محفلیں منعقد ہوتی ہوں گی جس میں استاد ذوق اور مرزا نوشہ کے درمیان شاعرانہ چپقلشوں کا مظاہرہ بھی ہوتا ہوگا۔ یہ رنگ محل ہے جہاں رقص و سرور کی محفلیں آراستہ ہوتی ہوں گی۔ یہ باولی، یہ حمام جہاں زیر آب قیمتی نگینے تاروں کے مثل جگ مگ کرتے ہوں گے اور جہاں کنیزیں عطور و زیوت کی خوشبوؤں سے شہزادوں کو نہلاتی ہوں گی۔ محلوں کی یہ راہ داریاں جن کے دونوں جانب شمشیرِ بے نیام محافظ پہرے دیتے ہوں گے اور کنیزیں، خواصیں، خواجہ سرا، مغلانیاں، شہزادیاں زرق برق یہاں وہاں آتی جاتی اور لگاتی بجھاتی ہوں گی۔ وہ اُس کنارے ڈھکی چھپی شرمیلی، زنانی سی موتی مسجد ہے جہاں حضرت عالم گیر مصروفیت کی وجہ سے جامع مسجد نہ جا پاتے تو نماز ادا کرتے۔ قلعے کے اِنہیں بلند و بالا دروازوں سے کبھی مستعد و تیار لشکر جرار دکن، راجپوتانہ، بنگالہ اور نہ جانے کہاں کہاں چڑھائی کرنے کو کوچ کرتے ہوں گے اور واپسی پر فتح کے شادیانے بجائے جاتے ہوں گے۔ اور اِنہیں برجوں اور محرابوں نے حسرت و یاس کے ساتھ آخری مغل فرمانروا، درحقیقت نان و نفقہ کے لئے فرزند ارجمند ٹامس میٹکاف بہادر کے دست نگر، وظیفہ کے محتاج عالم پناہ کو بصد سامان رسوائی نکلتے بھی دیکھا ہوگا۔ اور ایک آپ ہیں کہ یہ سب چھوڑ کر کس قدر نامعقول جگہ کی تلاش میں تھے۔ یقین جانیں آپ کی طرح میں نے بھی چشم تصور سے یہ سارے مناظر منعکس ہوتے ہوئے دیکھے۔ لیکن جب سارا قلعہ دیکھ لیا تو رہ رہ کر یہ خیال آیا کہ وہ جگہ کہیں نظر نہیں آتی جہاں بعض لوگوں پر آمد و آورد کی کثرت ہوتی ہے۔ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں اُسی جگہ۔ اس بیہودگی کے لئے معاف کرنا مرزا۔
اس سلسلے میں میری گزارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے سڈنی میں مقیم میرے ایک جہاں دیدہ مشفق و محسن ڈاکٹر انس ندوی فرماتے ہیں: کریم کی نہاری کھائے بغیر ہی سلاطین باتمکنت کے قصور و شاہی محلات کی سیر کرتے ہوئے جب جب خوبصورت شاہی حمام خانوں سے گزر ہوا، مجھے بھی یہ خیال ضرور آیا اور اپنی متجسس نگاہوں کو ادھر ادھر چکر لگاتے، نشانات ڈھونڈھتے پایا کہ آخر وہ جگہیں کہاں ہیں جو ان خوبصورت حمام خانوں سے پہلے کی منزل ہوا کرتی ہیں۔ لیکن تلاش گمشدہ کا نتیجہ نفی میں رہا، یعنی شاہی بیوت المخلفات و المدفوعات کے نشانات کہیں نظر نہ آئے۔
آخر اس دور میں یومیہ فطری تقاضوں کو کیسے حل کیا جاتا تھا۔ محل و قلعہ میں مقیم ہزاروں افراد آخر کیا کرتے تھے، بلکہ کہاں کرتے تھے۔ مانا کہ ابغض المدفوعات ہے لیکن اس سے کسی کو مفر بھی تو نہیں۔ دست خود دہانہ خود کی مجبوری بھی ہے۔ امیر ہو کہ فقیر، جاہل ہو کہ عالم، وزیر ہو کہ پادشاہ، حاکم ہو کہ محکوم، فروق مراتب اپنی جگہ لیکن چونکہ ولادت و تولید، موت، ہاضمہ اور اس کے بعد کا عمل سب میں ایک ہی جیسا ہوتا ہے، اس لئے اس حمام میں سب کو … ہونا ہی پڑتا ہے۔
انس بھائی فرماتے ہیں کہ محلات اور قلعوں میں آپ کو کہیں کہیں بظاہر بے مصرف سی چھوٹی بڑی قبہ والی برجیاں نظر آتی ہیں، بہت ممکن ہے یہ برجیاں بیت الخلاء کے طور پر استعمال ہوتی ہوں، ان کے دروں پر خشبی یا قماشی پردے پڑے ہوتے ہوں، بعدہ انہیں بند کردیا گیا اور ان کی زمین مسطح کردی گئی ہو۔ اس کے علاوہ اور کوئی توجیہ اس عمل نامرضی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ چونکہ یہ پورا عمل مجبوری و بشری ناپسندیدہ تقاضوں کا نتیجہ ہوا کرتا ہے اس لئے آثار کی حفاظت کا خیال بھلا کیوں ہوتا۔
قلعۂ معلی کا تو نہیں معلوم لیکن مختلف حوالوں سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں وادئ سندھ کی تہذیب کے بعد صدیوں تک بیت الخلاء کا ذکر نہیں ملتا۔ عام لوگ آبادیوں سے ذرا ہٹ کر باہر جاتے تھے۔ مہارشی مَنُو نے اس حوالے سے قاعدے وضع کئے ہیں مثلاً ندی کے کنارے اتنے ہاتھ دور بیٹھیں، تالاب سے اتنے ہاتھ دور، وغیرہ۔ لیکن ان قاعدوں پر شاید ہی عمل ہوتا تھا۔ عام طور پر جب حاجت جہاں مرضی کا اصول رائج تھا۔ بعد میں بدھ خانقاہوں میں بیت الخلاء کے وجود کا پتا ملتا ہے۔ آثار پائے گئے ہیں۔ ویشالی کی کھدائی میں بول و براز کے لئے الگ الگ سوراخ والا ٹیرا کوٹا قدمچہ پایا گیا ہے اور بدھ مذہب کی کتاب ترپٹک میں تفصیلات بھی درج ہیں کہ خانقاہ میں مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ انتظامات ہوں، باہر کپڑے نکال کر ٹانگنے کی سہولت ہو، وغیرہ۔ لیکن اس کے بعد بیت الخلاء کا رواج نہیں ملتا۔ شہروں میں چند بڑے گھروں والے نظروں سے ذرا ہٹ کر گہرے گڈھوں پر پائدان بنواتے تھے اور ایک مدت کے بعد اسے بند کر دیا جاتا تھا۔ سنسکرت اور بعد کی ہندوستانی زبانوں میں اس کے لئے سنڈاس لفظ آیا ہے۔ لیکن عام رواج نہیں تھا بلکہ دولت مند ہونے کی علامت تھی۔ ایک دوسری صورت بھی تھی۔ ہند و سندھ کے برہمنوں نے دوسرے پیشوں کی طرح غلاظت اٹھا کر دور لے جانے والے بھنگی شودر بنا رکھے تھے۔
مسلمانوں کی آمد، پردے کا اہتمام، عام طور سے شہروں میں قیام، اور بہتر حیثیت کہ اب گھروں میں ہی ایک کنارے مخصوص نوعیت کے بیت الخلاء بنائے گئے جس میں دو دروازے ہوتے تھے، ایک گھر کے اندر اور دوسرا پیچھے گلی میں کھلتا تھا جس سے بھنگی ‘کمانے’ آتے تھے یعنی انس بھائی کے لفظوں میں ایسی چَتُر انجینئرنگ کی گئی کہ اندر محنت آپ کریں اور باہر سے کمائی کوئی اور۔ یہ درست ہے کہ پیشہ اور ذات کی ایجاد مسلمانوں نے نہیں کی۔ بھنگی شودر پہلے سے موجود تھے لیکن ان کی خدمات محلوں وغیرہ تک محدود تھیں۔ عام رواج نہ تھا۔ اب ہر شہر میں حلال خوروں کی ایک الگ آبادی وجود میں آگئی۔
حالانکہ جب مرضی جہاں مرضی کی آزادی اب بھی تھی، جس سے گاؤں میں تو کوئی مسئلہ نہ تھا لیکن شہروں کے حالات جو انگریزوں نے لکھے ہیں انتہائی مکروہ ہو جاتے تھے۔ جہانگیر نے عاجز آکر آگرہ کے اطراف میں عوامی طہارت خانے بنوائے تھے کہ جب مرضی جہاں مرضی سے نجات ملے۔ انگریز بہادر نے اس حوالے سے قانون سازی بھی کی اور شہری آبادیوں کے کنارے اس مقصد کے لئے تعمیرات بھی کئے۔
بہرحال عہد مغلیہ میں حالات کچھ اچھے نہ تھے۔ ایک طرف جاہ و جلال کا یہ عالم کہ ان کی آرام گاہوں میں دروں پر کواڑ کے نشان نہیں ملتے۔ یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی اندر جھانکنے یا سننے کی جراءت کر سکتا ہے۔ نفاست و عشرت کا یہ عالم کہ ان کی خوشبو سے معطر تھا زمانہ سارا۔ شام و مصر، تبریز و خراسان، نیز چین کی مصنوعات کی قصر شاہی میں کوئی کمی نہ تھی۔ دوسری طرف پستی کا یہ عالم تھا کہ انسانوں کی ایک جماعت کو ایسے حقارت آمیز کام میں جھونک دیا گیا تھا جس سے نکلنا بہت مشکل تھا۔ سوچتا ہوں کہ جس مغلیہ رعب کے سامنے بڑے بڑے سورما زمیں بوسی کرتے تھے، آنکھ اٹھا کر اور آنکھ ملا کر بات نہیں کر سکتے تھے، کیا مکھیاں بھی بھنبھنانے کے بعد ان کے جسموں پر بیٹھنے سے ڈرتی ہونگی! یا ان کا تمام رعب داب، جاہ و حشمت ان ذلیل مکھیوں کے سامنے کافور ہوجاتا تھا؟ کیوں کہ مغل ایسا سائفون بنانا نہیں جانتے تھے جس میں کچھ پانی رکا رہتا ہے جس سے دوسری جانب سے بدبو، مکھیاں اور دیگر حشرات وغیرہ نہ داخل ہو سکیں۔ دہلی کی حویلیوں کے جو تذکرے ملتے ہیں ان سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے آنے کے بعد ہندوستانی شہروں میں صفائی کا نظام حلال خوروں پر منحصر تھا۔ بھنگن یا حلال خور ‘کمانے’ آتے تھے اور انسانی غلاظت کے ٹوکرے اپنے سروں پر ڈھو کر لے جاتے اور کہیں دور بہاتے یا دفن کرتے۔ مجھے نہیں معلوم کہ خانقاہوں میں کیا نظام تھا لیکن وہاں معتکف مصلحین کو بھی شاید اس میں کوئی خرابی نظر نہ آئی کہ اس کے خلاف کوئی وعظ کرتے۔
تاج محل اور لال قلعہ بنا سکنے والے اور جمنا کا پانی نہرِ بہشت کی اونچائی تک لانے والے مہندسین ایک معمولی سیفون کیون نہ بنا سکے؟ یا کوئی بہتر انتظام کیوں نہ کر سکے؟ کیونکہ اس کی ضرورت کا احساس نہیں ہوا۔ کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ نہیں، ضرورت کا احساس ہونا ضروری ہے۔ ان کے بے حس اہل علم و دانش نے کبھی اس کو برا جانا ہی نہیں کہ تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو۔ ہاں اس حوالے سے پیشہ کے عار اور کفو کی بکواسیات پر بحث کرنا نہیں بھولے۔ ایسے لوگ نئی ایجاد نہیں کر سکتے جو حالات سے غیر مطمئن اور بہتر متبادل کے متلاشی نہ ہوں۔
ایک اور وجہ تھی جس کی تفصیل مستقل مضمون کا متقاضی ہے۔ مختصر یہ کہ ہندوستان میں سفر کرنے کا رواج نہ تھا۔ ورنہ باہر سے سیکھ آتے۔ مغلوں سے پہلے بغداد، قاہرہ، اور اندلس میں صفائی ستھرائی کا بہتر نظام تھا۔ غرناطہ میں سقوط کے بعد مسلمان پکڑ پکڑ کر مارے نکالے جا رہے تھے تو مسلمان گھروں کی ایک شناخت یہ تھی کہ ان میں غسل خانے اور بیت الخلاء ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ جاپانیوں کے یہاں بہت تفصیلی انتظامات تھے۔ ان کے طہارت خانوں میں مختلف تنصیبات کے وجود کا پتا ملتا ہے۔ یہاں تک کہ محلوں میں ملکائیں اور شہزادیاں جب جاتیں تو باہر اس کا بھی انتظام تھا کہ کنیزیں بڑے بڑے برتنوں میں پانی انڈیل کر ایک شور پیدا کرتیں کہ دیگر آوازیں دب جائیں اور کسی باہر والے کو یہ خیال نہ گزرے کہ:
بیت الخلاء میں آج ترنم کا زور ہے
شاید کوئی حسین ہے پیچش میں مبتلا
بہرحال مسلمان ایسا انسانیت سوز نظام قائم کرنے اور جاری رکھنے کے مرتکب کس طرح ہو سکتے تھے! ان کے اہل دانش کیوں خاموش رہے؟ خیال رہے، نام جو بھی دیا جائے، جب ایک بار کوئی اس پیشہ میں چلا گیا تو اس کے لئے باہر نکلنا ناممکن تھا۔ اب اس سے کوئی سبزی، گوشت، یا دودھ تو خریدنے سے رہا۔ ان کے بچے کسی مدرسے میں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ حتی کہ مسجد میں آنے پر لوگ ناک سکوڑتے اور چاہتے کہ میرے بغل میں نہ کھڑا ہو جائے۔ اس سے نہیں کہہ سکتے، تو خود جگہ بدل لیتے۔ یہ سب تو حال تک ہوتا رہا ہے۔ اس جہنم سے نکلنے کا واحد طریقہ تھا شہر بدل کر کہیں اور چلا جائے جہاں اس کو حلال خور نہ جانتے ہوں۔ ایسا ہوا بھی۔ دہلی میں ایک کوتوال لگ گیا۔ لیکن لوگوں کو کسی طرح معلوم ہو گیا۔ شکایت کی گئی کہ یہ کوتوال اونچی نسل کا نہیں، بلکہ نیچ ذات کا ہے۔ معزول کر دیا گیا۔ عہدہ تو گیا ہی، نطفے پر الگ شک کیا گیا کہ اپنے اصل باپ کا ہوتا تو بھلا اتنا پڑھ لکھ کیسے سکتا تھا۔ دہلی مرحوم کی تاریخ میں کم از کم تینتیس عہدہ داروں کو ان کی نیچی ذات کے سبب برطرف کئے جانے کا ذکر مل جاتا ہے۔
نظافت کے معاملہ میں یورپ کا بھی برا حال رہا ہے۔ تفصیلات دے کر میں خوش مذاق احباب کی طبیعتیں منغض و مکدر نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن فرق یہ ہے کہ جب انھوں نے ترقی کے راستے ہموار کرنے شروع کئے تو صرف کچھ میدانوں تک محدود نہیں رہے بلکہ ہر ہر شعبہ میں ترقی کی کوشش کی۔ اس میں ایک انسانی وقار کو بحال کرنے کی کوشش بھی تھی۔ عہد مغلیہ میں بنیادی انسانی وقار کو بحال کرنے کی کوئی شعوری کوشش ہمیں نظر نہیں آتی۔ نہ بیواؤں کو زندہ جلانے سے روکا نہ شودروں کو ذلت کے جہنم سے نکالا۔
ان کی عظمت کو سلام جنہوں نے ایسی چیز دی کہ صاحب ایک بٹن دبائیں اور سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے۔ جو لوگ انسانوں سے غلاظت اٹھوانے پر شرمندہ نہ تھے، ان کے اندر فلش، سائیفون اور کموڈ جیسی چیز بنانے کا داعیہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ جیتے جی کندھوں پر یعنی تقریباً مفت میں مہیا کہاروں کی پالکی میں سواری کر کے بجائے شرمندہ ہونے کے، جن کے جامے تنگ ہوتے ہوں ان سے موٹر کار بنانے کی امید نہیں کی جاسکتی۔
تہذیب و تمدن کا سبق ہم نے پڑھایا
ہر حسن جہاں ساز کی ایجاد ہے ہم سے