مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةافسانہصاحب کا دورہ

صاحب کا دورہ

چھتاری صاحب ابھی ابھی کھانے سے فارغ ہوئے تھے۔ برآمدے میں بچھی آرام کرسی پر پیٹھ ٹکا کر انہوں نے گہری لمبی سانس لی ہی تھی کہ ان کی نظر تپائی پر پڑے اخبار پر پڑی۔ کاہلانہ انداز میں یوں ہی سرخیوں پر نظر دوڑا ہی رہے تھے کہ بے اختیار چونک پڑے۔
“جنڈانوالہ پل کی تعمیر کا سنگ بنیاد وزیرِ اعلی رکھیں گے” سرخی دیکھتے ہی چھتاری صاحب کو اپنے بازوؤں کا رُواں کھڑا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ نیچے خبر کی تفصیل تھی۔
وزیرِ اعلی اس ماہ کی پندرہ کو بذریعہ ریل گاڑی صبح نو بجے جنڈانوالہ تشریف لائیں گے اور اسٹیشن سے بذریعہ کار سنجیاں ندی روانہ ہوں گے۔
“امے منشی جی!” چھتاری صاحب نے آواز لگائی۔
منشی شرافت علی قریب کے کمرے سے جن کی طرح حاضر ہو گئے گویا کہہ رہے ہوں “کیا حکم ہے میرے آقا؟”
“اماں وہ خبر سنی آپ نے؟” چھتاری صاحب نے پوچھا۔
“نہیں حضور۔ کوئی خاص بات؟” منشی جی فدویانہ انداز میں بولے۔
“ارے میاں کیا بات ہے آپ کو کچھ خبر ہی نہیں ہوتی۔ آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ خبروں پر نظر رکھا کریں۔ یہ کم بخت اخبار والے کو ڈھائی سو روپیہ ہر مہینے کیا جھک مارنے کے لئے دیتے ہیں ہم؟” چھتاری صاحب کے انداز میں ترشی تھی۔ “کیا ہوتا اگر میں خبریں اتنی توجہ سے نہ پڑھتا؟” چھتاری صاحب کا خطاب جاری تھا۔
“حضور کچھ تو بتائیں کہ کیا ہوا۔ سب خیر تو ہے؟” منشی جی عاجزی سے بولے۔
“وزیرِ اعلی آرہے ہیں پندرہ کو” چھتاری صاحب کی آواز بدستور بلند تھی۔
منشی جی نے حیرت سے چھتاری صاحب کی جانب دیکھا۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو انہوں نے دو تین گہری استفہامی سانسیں لیں، گویا پوچھ رہے ہوں کہ وزیر اعلی کی آمد سے انہیں یا چھتاری صاحب کو کیا لینا یا دینا؟
“اچھا حضور۔ میرے لئے کیا حکم ہے؟”
“ہمیں چاہئیے کہ ہم ہر چیز تیار رکھیں” چھتاری صاحب نے تاکید کی۔ “مجھے ہر حال میں پندرہ کی صبح اسٹیشن پر ہونا چاہئیے اور ہاں خیال رہے کہ ہماری کار چمچما رہی ہو۔ ایک بھی دھبہ نہیں ہونا چاہئیے گاڑی پر۔”
“دیکھئے حضور میں نے ہی کہا تھا کہ موٹر خرید لیں۔ کیسا سولہ آنے صحیح مشورہ تھا۔ آج وہی موٹر کام آرہی ہے” منشی جی شوخی سے بولے۔ ویسے بھی پرانے خادم تھے اور خاصے منہ چڑھے بھی۔ رئیس فراخ علی چھتاری کی رئیسی کی نشانیوں میں سے تھے۔ اور وہ جاتے بھی کہاں۔ اس ڈھلتی عمر میں انہیں ملازمت دیتا بھی کون۔
“بس منشی جی، آپ کی یہی باتیں تو ہمیں پسند ہیں” چھتاری صاحب خوش دلی سے بولے۔ “کیا خیال ہے حویلی کو اچھی طرح سجا نہ لیا جائے؟”
“کیوں حضور، کیا وہ ہماری سڑک سے گذریں گے؟”
“بھئی پتہ نہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اسٹیشن سے سیدھے ندی پر جائیں۔ ہمیں لیکن تیار رہنا چاہئیے۔ ہمارے گھر پر پارٹی پرچم اور جھنڈیاں ہونا ضروری ہیں۔ اخبار والوں کے لئے یہ بھی ایک خبر ہوگی۔”
“درست فرمایا، حضور۔ مگر کیا یہ خبر خان صاحب سے چھپی رہی ہوگی؟ وہ بھی تو اخبار باقاعدگی سے پڑھتے ہیں”
“ان کی فکر نہ کریں۔ وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ اول تو ان کے پاس ہماری جیسی موٹر کار نہیں ہے۔ ان کی پرانی چھکڑا کو کوئی پھوٹے منہ بھی نہیں پوچھتا” چھتاری صاحب کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔
“یاد نہیں ٹاؤن ہال میں کیسی ان کی بھد اڑی تھی،” چھتاری صاحب کا چہکنا جاری تھا، “جب وہ پارٹی صدر سے ضلع کونسل کی صدارت کا پروانہ وصول کر رہے تھے؟ کیسے مسخروں والے حلیے میں آئے تھے! اور پارٹی کا ٹکٹ لیتے ہوئے ایسے جھکے تھے جیسے ساری زندگی یوں ہی گردن جھکائے رکھیں گے۔ یہی کچھ اب پھر ہوگا۔ دیکھ لینا۔” چھتاری صاحب حقارت سے بولے۔ وہ یہ منظر یاد کرکے کھلکھلا رہے تھے۔
“لیکن پھر بھی” ان کا خطاب جاری تھا “انہیں ہماری تیاریوں کی خبر نہیں ہونی چاہئیے۔ ہر چیز پہلے سے تیار رکھیں۔ حویلی کو پارٹی پرچم اور جھنڈیوں سے چودہ تاریخ کی رات ہی سجائیں۔ لیکن یہ کام رات دس بجے کے بعد ہی ہونا چاہئیے۔ ذرا دیکھتے ہیں خان صاحب کا کیا حال ہوتا ہے، جب وہ صبح ہمارے گھر کا منظر دیکھیں گے۔” چھتاری صاحب اور منشی جی کافی دیر تک آئندہ کی منصوبہ بندی کے بارے میں کھسر پھسر کرتے رہے۔ انہوں نے دیوان جی کو پیغام پہنچا دیا تھا کہ ان کی اگلی ملاقات میں وہ انہیں وزیر اعلی کو سپاسنامہ پیش کرنے کے بارے میں بتائیں گے۔ منشی جی کچھ دیر سر ہلاتے رہے اور پھر اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔
فراخ علی چھتاری ایک خوشحال اور کامیاب کاروباری شخصیت تھے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں واحد تین منزلہ حویلی کے مالک تھے۔ انہوں نے تعمیراتی کام کی ایک دکان (ہارڈویئر اسٹور) میں منشی گیری سے کام شروع کیا تھا۔ آدمی ہوشیار تھے۔ جلد ہی قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور وہ اپنی دکان کے مالک ہوگئے۔ ان کی کمائی دن دونی رات چوگنی بڑھتی رہی۔ انہوں سریے اور سیمینٹ کا بڑا ذخیرہ جمع کر رکھا تھا کہ جنگ چھڑ گئی۔ لام کے دنوں میں ان کا لوہا اور سیمینٹ سونے کے بھاؤ بکنے لگا اور چھتاری صاحب راتوں رات رئیس ہوتے گئے۔ پہلے وہ صرف فراخ علی تھی۔ اپنے نام کے نئے کارڈ چھپوائے تو چھتاری کا لاحقہ بھی جوڑ لیا۔ حالانکہ انہیں ہرگز پتہ نہ تھا کہ چھتاری کون ہوتے ہیں اور کس علاقے کے ہوتے ہیں۔ انہوں نے کسی نواب چھتاری کی تصویر دیکھ رکھی تھی اور ان سے بڑے متاثر تھے۔ اور پتہ نہیں کب سے قصبے کے لوگوں نے انہیں رئیس چھتاری کہنا شروع کیا جس کا انہوں نے بالکل برا نہیں منایا۔
خدا جب حسن دیتا ہے، نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ بہت سارا پیسہ بن گیا تو انہیں اپنی سماجی شناخت بنانے کی دھن ہوئی۔ وہ سوسائٹی میں اپنا درجہ بلند کرنا چاہتے تھے۔ اپنے پڑوسی قمرالدین خان ایڈوکیٹ کو وہ رشک اور حسد سے دیکھتے جن کی کمائی تو چھتاری صاحب جیسی نہیں تھی لیکن قصبے اور ضلعے کے سماجی اور سیاسی حلقوں میں مقبول اور متحرک تھے۔ جگت بازی اور تقریر کے فن کے ماہر تھے۔ انگریزی بھی اچھی بول لیتے تھے۔ آدمی کائیاں تھے۔ ضلع کونسل کے صدر بھی آسانی سے بن گئے تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی چھتاری صاحب نے انگریزی سیکھنے کے لئے ایک استاد رکھ لیا تھا۔ ساتھ ہی سرکاری اور بااثر شخصیات کی دعوتوں اور پارٹیوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔ انہوں نے اپنی دولت کا بڑا حصہ کونسلر کی نشست کا ٹکٹ حاصل کرنے پر اڑا دیا تھا۔ ان کی پوری توجہ اب اسی پر مرکوز تھی۔
اچانک ایک پریشان کن خیال نے انہیں چونکا دیا۔ “اگر خان صاحب نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ مانگ لیا تو؟” وہ کسی بھی طرح خان صاحب سے آگے بڑھنا چاہتے تھے اور وزیر اعلی کا دورہ اس کا بہترین موقع تھا۔
اگلے دن چھتاری صاحب ضلع کونسل میں آ موجود تھے۔ ان کا پر امید چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔ رات بھر کی محنت سے تیار کیا ہوا سپاس نامہ پیش کرنے تجویز کا پلندہ واسکٹ کی جیب سے جھانک رہا تھا۔
اپنی تقریر کو انہوں نے تین حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ پہلے حصے میں حکومت اور پارٹی کی خدمات اور احسانات کا تذکرہ تھا۔ دوسرے حصے میں وزیر اعلی صاحب کی شخصیت اور ان کے خاندان کی اعلی صفات کی باتیں تھیں اور تیسرے حصے میں صوبے کے لئے وزیر اعلی صاحب کی خدمات کی کچھ سچی، کچھ جھوٹی، کچھ اصلی اور بہت سی فرضی تفصیلات کی فہرست تھی۔
سپاس نامے کے آخری حصے میں انہوں نے گلہ کرنے کے انداز میں کچھ ڈھکے چھپے لفظوں میں وزیر اعلی صاحب کی توجہ اس امر کی جانب دلائی تھی کہ ضلع میں پارٹی کے وفادار کارکنان کو ان کا جائز حق نہیں مل رہا اور اعلی سطح پر ان کی ویسی قدر نہیں کی جارہی جس کے وہ مستحق ہیں ۔ساتھ ہی درخواست نما مطالبہ تھا کہ حق داروں کو ان کا حق دیا جائے (چند الفاظ میں پارٹی کے لئے اپنی مالی اور سماجی خدمات بھی جتائی تھیں)۔
منشی جی نے ضلع بھر کے تمام اخبارات میں تجویز کو اس پیغام کے ساتھ بھجوایا تھا کہ چھتاری صاحب اس سپاس نامے کو اخبارات کے مرکزی دفاتر تک بذریعہ تار بھیجنے کے اخراجات خود ادا کریں گے۔ اخباری نمائندوں کو وزیر اعلی کے دورے کے بعد چھتاری صاحب کی حویلی میں چائے پر بلانے کا نیوتا بھی دیا گیا تھا۔
لیکن آہ! ضلع کونسل میں چھتاری صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے بھی نہ تھے کہ ان کی ساری خوشی ہوا ہوگئی اور ایک غم اور غصے کی کیفیت ان پر طاری ہوگئی۔ خان صاحب یہی ساری تجاویز چھتاری صاحب کے آنے سے پہلے ہی دے چکے تھے اور اب تمام معاملات میں اولیت کے حق دار ہوگئے تھے اور چھتاری صاحب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے تھے۔
لیکن چھتاری صاحب بھلا ہار ماننے والے تھے؟ وقت نے انہیں مشکلات میں قدم جمائے رکھنا اچھی طرح سکھا دیا تھا۔ انہوں نے بڑی خوش دلی اور متانت سے خان صاحب کی تقریر کی تائید کے حقوق حاصل کر لئے۔ اب ان کے لئے آسانی ہو گئی تھی کہ وہی تقریر خان صاحب کی تائید میں کر ڈالیں۔ خان صاحب کے تو فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوگی کہ چھتاری صاحب نے اخبار والوں کو اپنی تقریر بھیجنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ رہے خان صاحب تو ان کی تقریر کونسل ہال سے باہر ہی نہ جاسکے گی۔
چھتاری صاحب اندر سے جلے بھنے بیٹھے تھے کہ منشی جی نے کچھ ایسی خبر دی کہ ان کی کوفت کچھ کم ہوگئی۔ منشی جی نے بتایا کہ وزیر اعلی صبح سات بجے جنڈانوالہ اسٹیشن پہنچیں گے اور وہیں سے بذریعہ کار تیس میل دور سنجیاں ندی کے پل کے سنگ بنیاد کی تقریب کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ ان کے پاس سپاسنامہ سننے یا وصول کرنے کا وقت ہی نہیں ہوگا۔ یہ سب منشی جی کو وزیر اعلی کے سکریٹری صاحب سے پتہ چلا تھا۔ منشی جی نے تسلی دی کہ اچھا ہی ہوا کہ تجویز ہم نے نہیں دی۔ اب خان صاحب منہ چھپائے پھریں گے۔ چھتاری صاحب بہت خوش تھے۔ خان صاحب نے ان کی محنت ہتھیانے کی کوشش کی تھی۔
“بہر حال کچھ بھی ہو آپ کو پندرہ کی صبح اسٹیشن پر ہونا چاہئیے” منشی جی بولے۔
“جی بالکل۔ باقی ہر چیز پہلے کی طرح ہوگی” چھتاری صاحب نے تاکید کی۔
آخر کار پندرہ کی صبح بھی آ گئی۔ چھتاری صاحب تڑکے ہی اٹھ گئے تھے۔ غسل اور ناشتے سے فارغ ہو کر آدھے گھنٹے آئینہ کے سامنے کھڑے اپنی مانگ پٹی کا جائزہ لیتے رہے۔ ان کی محبوب بیگم کبھی ان کے پیرہن کی سلوٹیں درست کرتیں کبھی گلے کی چین اور ہاتھ کی انگوٹھیوں کو چمکاتیں۔ چھتاری صاحب سے پہلے انہوں نے باہر آکر سن گن لی کہ شگن اچھا ہے۔ مطمئن ہوکر اندر آئیں۔ چھتاری صاحب بڑی تمکنت سے باہر آئے اور اپنی چمچماتی کار میں داخل ہوئے۔ پارٹی کا پرچم گاڑی کے بونٹ پر آن و شان سے لہرا رہا تھا۔
چھتاری صاحب نے پڑوس پر نظر ڈالی ہی تھی کہ انہیں جھٹکا سا لگا۔ خاں صاحب نے بھی رات میں خاموشی سے اپنا گھر سجا رکھا تھا اور پارٹی کے پرچم اور جھنڈیاں ان کے بنگلے کے در و دیوار پر لہرا رہے تھے۔ گاڑی چلنا شروع ہوگئی تھی۔ چھتاری صاحب زیادہ کچھ ملاحظہ نہ کر سکے۔
کچھ ہی دیر میں وہ اسٹیشن پر موجود تھے۔ خان صاحب یہاں بھی ان سے پہلے آچکے تھے، اور اگلے اقدام کے لئے تیار تھے۔ دونوں کے درمیان سخت مسابقت لیکن منافقت کی چادر میں چھپی ہوئی تھی۔ دنیا کے سامنے وہ بہترین دوست تھے۔
“ارے واہ خان صاحب۔ آج صبح سویرے یہاں کیسے؟” چھتاری صاحب نے خوش مزاجی سے پوچھا۔
“ایک چھوٹا سا کام تھا۔ میں نے سنا ہے آپ لاہور جارہے ہیں۔” خان صاحب شرارت آمیز لہجے میں بولے۔
“ارے نہیں۔ لیکن میں نے آپ کا گھر سجا ہوا دیکھا۔ کوئی خاص تقریب ہے کیا؟” چھتاری صاحب کا لہجہ بدستور خوش گوار تھا۔
“جناب گھر تو آپ کا بھی سجا ہوا ہے۔ کیا ساٹھویں سالگرہ منا رہے ہیں؟” خان کے لہجے میں طنز اور شرارت دونوں موجود تھے۔
چھتاری صاحب انہیں کوئی حسب حال سنانا چاہتے تھے کہ اسٹیشن ایک شور سے گونج اٹھا۔ چاروں طرف سے لوگ اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے۔ ان میں ضلع کونسل کے عہدیداران، تعلقہ اور ضلع بورڈ کے ممبران، طلباء، اساتذہ، وکیل، سرکاری افسران، پولیس اہلکار، رضاکار اور اس جلوس کے شرکاء جو ایک احتجاج کے لئے وزیر اعلی کے منتظر تھے۔ خفیہ پولیس کے نمائندے جو مظاہرین اور دوسرے لوگوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔یہ سب یہاں ایک دوسرے سے جڑے کھڑے تھے اور سب کی نظریں ریل کی پٹری پر تھیں۔
آخر کار وزیر اعلی کی ریل آپہنچی۔ پولیس والوں نے ہجوم کو ایک جانب دھکیلنا شروع کیا۔ معزز وزیر اعلی ٹرین سے باہر تشریف لائے۔ وہ سب جو اپنی آنکھوں میں بہت سارے خواب سجائے، صوبے کے وزیر اعلی کے منتظر تھے، دلوں کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں۔ سب ایک دوسرے پر گرے پڑ رہے تھے کہ مہمان خصوصی کی ایک جھلک دیکھیں۔
وزیر اعلی صاحب نے اپنا ہیٹ سر سے نیچے کر کے حاضرین کے نعروں کا جواب دیا۔ ایک نظر یہاں سے وہاں تک ڈالی۔ بہت سے لوگ سلام کے لئے ہاتھوں سے اپنی پیشانیاں چھو رہے تھے اور کوشش میں تھے کہ وزیر اعلی ایک نظر ان کی جانب بھی ڈال لیں۔ اگلے پانچ منٹ تک ہاتھ اسی طرح سروں کو چھوتے رہے۔
تمام مجمعے پر ایک شاہانہ نظر ڈال کر وزیر اعلی صاحب پلیٹ فارم سے باہر کھڑی موٹر کار میں سوار ہوئے اور یہ جا اور وہ جا۔ اور وہ جو صبح سے دیدار کی خاطر جمع تھے منتشر ہونا شروع ہوئے۔
حویلی کے ہال کمرے میں چھتاری صاحب بیچوں بیچ کرسی پر بیٹھے تھے۔ ان کی پیاری بیگم، بھاوجوں، بھابیوں، بیٹیوں اور بچوں نے انہیں گھیر رکھا تھا۔ مشی جی بھی منتظر کھڑے تھے۔
“گاڑی سے اتر کر چند منٹوں کے لئے ضلع کے افسران سے دو ایک رسمی باتیں کر ہی رہے تھے کہ وزیر اعلی صاحب کی مجھ پر نظر پڑی۔ سیدھے میرے پاس آئے۔ تم لوگ کیا سمجھتے ہو میں ڈرا ہوا تھا یا شرمایا؟ ہرگز نہیں۔ انہوں نے گرم جوشی سے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہنے لگے ‘چھتاری صاحب آپ کے بارے میں تو ہم نے بہت سنا ہے۔ کیسے ہیں آپ۔ آپ کے گھر والے اور دوست احباب تو خیریت سے ہیں؟’ اور تم سب تو مجھے جانتے ہی ہو۔ ایک بار بولنے پر آؤں تو بھلا کہیں رکتا ہوں؟ میں نے صاف کہہ دیا کہ حضور والا آپ کی جانب سے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہے لیکن پارٹی اپنے حقیقی جانثاروں کو نظر انداز کر رہی ہے اور سچے اور وفادار کارکنوں کو ان کا مقام نہیں مل رہا۔”
“او ہو! یہ تو بڑی سخت بات کہہ دی آپ نے۔ سی ایم صاحب غصہ نہیں ہوئے؟” منشی جی پر تشویش لہجے میں بولے۔
“غصہ؟” چھتاری صاحب کے لب پھڑپھڑانے “کیا مطلب ہے آپ کا؟۔ جیسے ہی یہ سب کہا، سی ایم صاحب نے میرے دونوں ہاتھ تھام لئے اور کہنے لگے، ‘چھتاری صاحب۔ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے اس جانب توجہ دلائی۔ یہاں سے واپس جاتے ہی میرا پہلا کام اس مسئلے کو دیکھنا ہوگا۔’ ان کا یہ کہنا تھا کہ حاضرین نے وہ زبردست نعرے لگائے اور تالیاں بجائیں۔”
“اور بیچارے خان صاحب” چھتاری صاحب کچھ ٹھہر کر بولے “وہ دم بخود یہ تماشا دیکھ رہےتھے۔ وہ ایک کونے میں کھڑے تھے اور کسی نے جھوٹے منہ بھی ان کی جانب نہیں دیکھا۔”
عین اسی وقت پڑوس کے بنگلے کے ڈرائنگ روم میں خان صاحب گھر کی خواتین اور مردوں میں گھرے ہوئے بیان فرما رہے تھے “لیکن وزیر اعلی صاحب نے غریب چھتاری پر ایک نظر نہ ڈالی۔ وہ بے چارہ ایک کونے میں کھڑا مجھے اور وزیر اعلی کو تک رہا تھا اور کسی نے جھوٹے منہ بھی اس کی طرف نہیں دیکھا۔”
المادة السابقة
المقالة القادمة
عبدالشکور پٹھان
عبدالشکور پٹھان
عبد الشکور پٹھان اصلاً کراچی سے ہیں اور کنیڈا میں مقیم ہیں۔ آپ کی تین کتابیں پذیرائی حاصل کر چکی ہیں، جن میں ایک سفر نامہ ہے اور دو دلچسپ شخصیات کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں

تمغۂ جرأت

صبح کا بھولا

دو خط