مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةانشائیہلوٹوں کی لٹیا

لوٹوں کی لٹیا

‏‎ لوٹا عام طور پر لوہے، پیتل وغیرہ کا بنا خالص ہندوستانی برتن ہے۔ عہد ما قبل تمدن سے اس کا کثیر المقاصد استعمال رہا ہے۔ اس کی شکل گھڑے جیسی ہوتی ہے لیکن حجم میں اس سے بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ میرے دوست ماہر اشتقاقیات اجیت واڈنیرکر کے مطابق سنسکرت میں ایک مادّہ ہے لُٹ جس سے لُوٹنا (واؤ مجہول)، لُڑھکنا، مقابلہ کرنا، پیچھے ڈھکیلنا وغیرہ معنی لئے جاتے ہیں۔ اسی سے قریب ایک اور مادّہ ہے لُٹھ۔ اس میں حملہ کر کے شکست دینے، پَچھاڑ دینے، پٹخ دینے، زمین پر گرا کر لوٹ پوٹ کر دینے جیسے معنی ہیں۔ لَٹھ اور لاٹھی سے مار مار کر لِٹا دیا جاتا ہے۔ ایک اور فعل ہے لُڈ۔ اس سے گول گول گھومنے کا مطلب لیا جاتا ہے۔ لُوٹا کا رشتہ ان تینوں میں کسی ایک سے ممکن ہے۔ صوتی اعتبار سے لُٹ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے۔ اس مادّے سے مشتق دوسرے الفاظ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سبھی میں کسی طرح کا گھومنا نظر آتا ہے۔ لُوٹنا (واؤ مجہول)، لُڑھکنا تو دیکھ لیا۔ آپ کہیں جائیں اور گھوم کر واپس آجائیں تو کہتے ہیں لَوٹ آئے۔ لُٹیرے کسی کو لٗوٹتے (واؤ معروف) ہیں تو دراصل جدھر سے آتے ہیں لٗوٹ کر ادھر ہی لَوٹ جاتے ہیں۔ یہاں حملہ کرنے کا مطلب بھی عیاں ہے۔ لَٹّو تو اپنی جگہ گول گول گھومتا ہی ہے۔
معلوم ہوا کہ لوٹا اصلاً بے پیندی کا ہی ہوتا تھا۔ محاورے میں “بے پیندی کا لوٹا” ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اِدھر سے اُدھر لڑھکتا رہتا ہے، کبھی اِس طرف کبھی اُس طرف۔ یعنی جس کی اپنی کوئی رائے، اپنا موقف یا نظریہ نہ ہو۔ یا ایسا شخص جو کبھی ایک طرف رہتا ہے، کبھی لڑھک کر حزب مخالف سے جا ملتا ہے. سیاست میں تو یہ کامیابی کی ضمانت بھی ہے۔
ہمارا عزمِ سفر کب کدھر کا ہو جائے
یہ وہ نہیں جو کسی رہ گزر کا ہو جائے
‏‎اُسی کو جینے کا حق ہے جو اِس زمانے میں
‏‎اِدھر کا لگتا رہے اور اُدھر کا ہو جائے
‏‎کراچی والے ایسے سیاست دانوں کو لوٹا کہتے ہیں۔ ظاہر ہے “بے پیندی کا” ہونا لوٹے کی بنیادی صفت ہے، لوٹے کے معنی میں شامل ہے، اس لئے سابقہ لگانا ضروری نہیں۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بعد کی تبدیلیاں کثرت استعمال کی وجہ سے اصل کی جگہ لے لیتی ہیں۔ اب زیادہ تر لوٹے پیندی والے ہوتے ہیں۔ اس لئے دہلی اور لکھنؤ والے انھیں بجائے “پیندی والا لوٹا” کہنے کے صرف “لوٹا” کہتے ہیں اور چونکہ استعارے میں قدیمی شکل والے اصلی لوٹے سے مماثلت ہے اس لئے ان کا محاورہ “بے پیندی کا لوٹا” ہے۔ ایسی معنوی تبدیلیوں کی بہت سی مثالیں ہیں۔ جہاز اصلاً پانی والا ہوتا ہے۔ بعد میں ہوا میں اڑنے والے آئے تو انھیں “ہوائی جہاز” کہا گیا۔ سفینے کو صرف “جہاز” کہنا کافی تھا۔ لیکن اب پانی کے راستے سفر بہت کم ہو گیا۔ بہت اُڑنے کا شوق تو ہر کسی کو ہوتا ہے۔ لہذا اب سب اُڑتے ہیں اور جلد منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ ‏‎
عہد حاضر میں گرفتار ہے پابندِ سفر ‏‎
منزلیں سب کے لئے ہو گئیں آساں جاناں ‏‎
نتیجہ یہ ہوا کہ اب بغیر کسی سابقہ کے صرف “جہاز” کہا جائے تو ہوا پیما مراد لیا جاتا ہے اور اصلی یعنی سمندر میں چلنے والے کو “بحری جہاز” یا “پانی کا جہاز” کہنا پڑتا ہے۔ اسی طرح پہلے شرفاء کے یہاں اگر صرف “سموسہ” کہا جاتا تو مطلب ہوتا تھا قیمے کا سموسہ۔ قیمہ کی جگہ کچھ اور ہے تو وضاحت کرنی ہوتی تھی کہ آلو کا یا کسی اور چیز کا۔ لیکن پھر آلو والوں کا بول بالا ہوتا گیا۔ سیاسی قوت، ثقافتی غلبہ، زبان اور رسم الخط کی تبدیلی کے ساتھ الفاظ کے معنی بھی بدل گئے۔ تو اب اگر آپ صرف “سموسہ” کہیں تو مطلب آلو والا لیا جائے گا۔ اور قیمہ والے کی وضاحت کرنی پڑے گی۔ لیکن بریانی اب بھی۔۔۔۔ خیر چھوڑیں، لُوٹے پر لَوٹتے ہیں۔ ‏‎
پیندی تو گھڑے، مٹکے وغیرہ میں بھی نہیں لیکن اس کو لوٹا نہیں کہتے۔ گھڑا مستقل ایک جگہ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ہے۔ اس کو سُتلیوں سے بنی موٹی رسی کا دائرہ بنا کر اس پر رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ لڑھکتا نہیں کہ لوٹا کہا جائے۔ لوٹا ساتھ لے کر یہاں وہاں جانے کے لئے ہے۔ اسی لئے لوٹا عموما دھات کا ہوتا ہے کہ ٹوٹ نہ جائے جب کہ گھڑا یا مٹکا مٹی کا ہوتا ہے، مستقل ایک جگہ ہونے سے ٹوٹنے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ گھڑے کی وجہ تسمیہ پانی ہے۔ یہ سنسکرت کے گھٹ سے مشتق ہے۔ پانی کے حوالے سے کئی الفاظ اسی گھٹ سے نکلتے ہیں۔ گھٹا (بادل) سے پانی برستا ہے، گھاٹی (وادی) پانی کی گزرگاہ ہوتی ہے، گھٹ (گھڑا) پانی ذخیرہ کرنے کے لئے, گھاٹ ندی یا تالاب کے کنارے اس ہموار و استوار جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے پانی لے سکیں۔ پہلے جب سارا کاروبار ندیوں کے راستے ہوتا تھا تو جو بہت سفر کرتا اسے گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پڑتا۔ مختلف المزاج لوگوں سے سابقہ اور سفر کے تجربات و مشاہدات انسان کو چالاک بنا دیتے ہیں۔ اب ندیوں کے راستے سفر تو نہیں ہوتا لیکن کسی چتر چالاک تجربہ کار کو اب بھی کہتے ہیں کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ لیکن اصلاً گھٹ پانی کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس سے جمع کرنا، جمع ہونا، نکالنا، وہ جگہ جہاں کچھ جمع کیا جا سکے، سما سکے وغیرہ سمجھا جاتا ہے۔ رکھ تو کچھ بھی سکتے ہیں لیکن پانی بنیادی ضرورت ہے۔ اکیلے بادل کے ٹکڑے کو گھٹا نہیں کہتے۔ لیکن جب بہت سے ٹکڑے مل جائیں تو گھٹا چھا جاتی ہے۔ البتہ شاعروں کے ہاں ان کی زلفیں لہرانے سے بھی گھٹائیں چھا جاتی ہیں۔
زلفیں ان کی جو لہرا گئیں
دیکھتے ہی گھٹا چھا گئی
اگر لوٹا چھوٹا ہو تو لُٹیا کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی طرح ہی ہماری زبانیں بھی مردانہ تسلط کی عکاسی کرتی ہیں۔ ہندی اردو میں یائے تصغیر لگا کر ظروف کے مصغر بناتے ہیں تو ان کو تانیث کا صیغہ دیا جاتا ہے۔ بڑا ہے تو دیگ، اس سے چھوٹا دیگچہ، اور اس سے بھی چھوٹا تو دیگچی۔ پتیلا پتیلی، پیالہ پیالی، کٹورا کٹوری، ٹوکرا ٹوکری میں جو کم تر و کم ظرف ہے وہ مونث ہے۔
اب آپ ذرا پرانے زمانے کے کسی سنیاسی کا تصور کریں جو ندی تالاب کنارے اَلَکھ جگائے دھونی رمائے دھیان لگائے بیٹھا ہو۔ اس کے پاس ایک لٹیا ہوتی تھی۔ صبح ایک لٹیا پانی پیا اور پھر بھر کر کہیں آڑ میں بیٹھ گیا۔ آدھی لُٹیا سے کام چلایا اور باقی سے ہاتھ منہ دھو لیا۔ پھر اسی لٹیا کا نہانے میں استعمال۔ نہانے کے بعد ایک لٹیا پانی سورج کو اَرپَن کیا اور ایک لٹیا پانی لے کر پیڑ کے سائے میں نصب دیوتا کے عضو خاص کی شبیہ کا جلابھیشیک کر دیا کہ تولیدی عمل اور نسل انسانی کے تسلسل و دوام کا سبب ہے۔ ایک لٹیا پانی لیا، بِھکشا (بھیک) مانگ کر جو آٹا دال گَمچھے میں باندھ رکھا تھا اس میں سے آٹا نکال کر کسی پتھر پر گوندھ لیا اور تین لوئیاں بنا کر آگ پر رکھ دیا۔
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ روٹی یعنی توے پر بنی چپاتی ہندوستانی ایجاد ہے لیکن مجھے اس میں شک ہے. روٹی اور چپاتی سنسکرت کلمات سے مشتق ہیں لیکن روٹیکا کا ذکر ہندوستانی متون میں دسویں صدی سے قبل نہیں ملتا۔ میرا خیال ہے کہ توے کی روٹی قدیم مصر میں ایجاد ہوئی اور وہاں سے حجاز پہنچی۔ پہلے ہنود سیدھے آگ پر آٹا رکھ کر پکا لیتے تھے، جو لٹی یا باٹی کی شکل میں باقی ہے۔ اپنی مرغوب غلاظت کو ایندھن بنا کر اس پر باٹی سینکنا ان کی اپنی ایجاد ہے، توے کی روٹی عربوں کے ساتھ آئی، تنور کی فارسی زدہ ترکوں کے ساتھ، اور بریڈ نئے آقاؤں کی لائی ہوئی ہے۔ توے کی روٹی کے بارے میں ابھی میرے پاس نقلی دلائل نہیں ہیں، لیکن یہ میری منفرد رائے بھی نہیں ہے۔
خیر آپ اپنے بال نہ نوچیں، میں لُٹیا پر لَوٹتا ہوں۔ تو صاحب روٹی ابھی پک رہی ہے، آدھی لُٹیا پانی میں دال ڈال کر اسی آگ پر ابلنے کے لئے رکھ دیا۔ کھانا کھا کر اسی لُٹیا میں پینے کو پانی لے آیا۔ آدھا پیا آدھے سے اس کو دھو لیا۔ یعنی لُٹیا کھانا، پکانا، پینا، نہانا، عبادت نیز اس کی ہر بنیادی ضرورت کی ساتھی تھی۔ اب اگر ایسے میں پانی لیتے وقت لٹیا ڈوب جائے تو اس کی زندگی کا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہو گا۔ لٹیا ڈوب گئی یعنی اس کی زندگی معطل ہو گئی، وہ برباد ہو گیا۔ تو جب کسی کا بڑا نقصان ہو جائے، وہ برباد یا ناکام ہو جائے تو کہتے ہیں اس کی لٹیا ڈوب گئی۔
‏‎لٹیا اپنی بھی ڈوب سکتی ہے اور دوسروں کی بھی ڈبائی جاتی ہے۔ جب سیاسی لوٹے اپنی جماعت چھوڑ کر حزب اختلاف کی طرف لڑھک گئے اور حکومت گرا دی تو گویا لوٹوں نے اپنے قائد، اپنی جماعت کی لٹیا ڈبو دی۔ لیکن ایک بات ہے کہ عموماً خود لوٹوں کی لٹیا نہیں ڈوبتی۔ یہ جس کا پلڑا نیچے (بھاری) ہوتا ہے ادھر لڑھک جاتے ہیں۔ کل ان کا غلبہ نظر آئے گا تو واپس لڑھک لیں گے۔ یہ لوٹے ماہر موسمیات ہوتے ہیں اور ہواؤں کا رخ پہچانتے ہیں.
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
لیکن اس محاورے سے اہل زبان کے پسماندہ، غیر متمدن اور تنگ نظر ہونے کا پتہ بھی ملتا ہے۔ یہ ایسے معاشرے کا محاورہ ہے جس کی نظریں تالاب اور ندی سے آگے نہ جاتی ہوں، جس کی فکر کا دائرہ محدود ہو۔ ترقی یافتہ اور متمدن قوموں کا کینوس بڑا ہوتا ہے، ان کی نگاہیں سرحدوں، سمندروں کے پار پہنچتی ہیں۔ اس لئے انھوں نے تنگ نظروں کی لٹیا نہیں ڈبوئی، بیڑا غرق کیا۔ ورنہ پہلے اہل لوٹا سمندر کا سفر جانتے تھے نہ بیڑا۔
ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ لٹیا رکھتے بھی نہیں تھے کہ ڈوبے۔ نہ ان کے سسرال میں سالیاں ایسا کرتیں کہ کھانے میں کچھ ملا دیں اور لوٹا پریڈ ہو جائے۔ ایسے گھٹیا مذاق انھیں کے یہاں رائج ہو سکتے ہیں جو سالی کو گھر والی کہہ کر اپنی بے غیرتی کا ثبوت دیتے رہے ہوں۔ پھر بھلا لُٹیا بھر پانی سے ہوتا بھی کیا ہے۔ نظافت کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ ان کے یہاں بڑا آفتابہ (اصلاً، آب تابہ) ہوتا تھا، جو ایرانیوں کی طرح کچھ نخرے دار بھی ہوتا تھا۔ پکڑنا آسان اور کافی سے زیادہ پانی۔ فارسی میں آبریز بھی ہے جو معرب ہو کر ابریق بن گیا اور قرآن مجید کی آیت بأَكْوَابٍ وَأَبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّن مَّعِينٍ میں آیا ہے۔ عرب کے مشرقی ساحل پر آباد بعض قبائل اب بھی ز کا تلفظ ق کی طرح کرتے ہیں۔ آبریز کثیر المعانی لفظ ہے جب کہ ابریق محدود معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
‏‎لئے ہے طشت زمرد کوئی، کوئی ابریق ‏‎
مؤدبانہ کھڑی ہے ملائکہ کی قطار
ڈاکٹر محمد سلیم
ڈاکٹر محمد سلیم
ڈاکٹر محمد سلیم جامعہ ملک عبدالعزیز ، سعودی عرب کے کلیۃالعلوم والآداب میں لسانیات کے استاذ ہیں
مصنف کی دیگر تحریریں