شکور بھائی نے ایک مضمون “ہمارے پرچم کی سفیدی” کے عنوان سے تحریر کیا جس میں انہوں نے کراچی مرحوم کی بعض نامور غیر مسلم شخصیات کا تعارف کرایا تھا۔ پرچم کی سفیدی سے مراد غیر مسلم اقلیتیں یعنی اس کی سبزی مسلم اکثریت کی علامت ہے۔ پاکستانی دفترِ خارجہ والے بھی وقتاً فوقتاً بیان دیتے رہے ہیں کہ انہیں اپنے پرچم کی سفیدی پر فخر ہے اور یہ کہ وہ پاکستانی ہندوؤں کی کاوشوں کی قدر کرتے ہیں۔ اب یہ غلط فہمی اتنی عام ہو چکی ہے کہ برصغیر ہی نہیں بلکہ دنیا جہان میں اچھے خاصے پڑھے گڑھے لوگ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سبز اسلامی رنگ ہے، سبز پرچم مسلمانوں کا پرچم ہے، اور چاند تارا مسلمانوں کی یا اسلامی علامت ہے۔ شکور بھائی کا مضمون دیکھ کر خیال گزرا کہ آخر اس کا جائزہ لینا چاہئے کہ کس طرح سبز رنگ اور نشانِ ہلال دھیرے دھیرے اسلامیاتے گئے۔
ریاستیں اپنی تاریخ و ثقافت اور قومی مزاج کی مناسبت سے قومی علامتوں کا انتخاب کرتی ہیں لیکن علامت سازی کے کوئی آفاقی قواعد نہیں ہیں کہ جن کی روشنی میں کسی کو غلط یا صحیح کہا جائے۔ قومیں اپنی مرضی سے کسی بھی چیز کو کسی بات کی علامت بنا سکتی ہیں، اور کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ ہرے رنگ کو کھیتی باڑی کی علامت بنائیں، امن و خوشحالی کی یا مذہبی گروہ کی، یہ شاد باد لوگوں کا ہی اختیار ہے۔ اگر سبز پرچم سے مسلمانوں کی نمائندگی ہوتی ہے تو اس میں کچھ غلط نہیں، لیکن حقیقت ہے کیا؟ کیا واقعی سبز رنگ کو مسلمانوں کی علامت کے طور پر اپنایا گیا ہے اور اگر نہیں تو ایسا کیوں سمجھا جانے لگا؟
پاکستانی آئین ساز ایوان میں قومی پرچم کی منظوری کی قرارداد لیاقت علی خان نے پیش کی تھی۔ صدارت مسٹر جناح کر رہے تھے۔ قرارداد میں کہیں بھی سبز اور سفید حصوں کو کسی مذہبی آبادی سے منسوب نہیں کیا گیا تھا۔ لیاقت علی خاں نے فرمایا کہ یہ پرچم کسی جماعت یا طبقے کا پرچم نہیں۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریسی رہنما بھیم سین سچر نے اس بات کا خیر مقدم کیا کہ یہ پرچم کسی مذہبی شناخت کا مظہر نہیں۔ وزارت اطلاعات کی مطبوعات میں بھی یہی تھا کہ پرچم کا سبز رنگ خوشحالی اور سفید رنگ امن کی علامت ہے اور چاند ستارہ ترقی کا نشان ہے، پرچمِ ستارہ و ہِلال رہبرِ ترقِّی و کمال۔ معلوم ہوا کہ پرچم کی سبزی و سفیدی سے بالترتیب مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت کی نمائندگی نہیں ہوتی اور ستارہ و ہلال بطور اسلامی علامت نہیں ٹانکے گئے ہیں۔ ان کی ویب سائٹ پر میں نے خود بھی دیکھا تھا کہ یہ علامتیں سیکولر معنوں میں ہی تھیں۔ پھر نہ جانے کب چپکے سے معنی بدل دئے گئے۔ اب وہاں رنگوں کو اقلیت و اکثریت سے منسوب کر دیا گیا ہے لیکن ہلال اب بھی ترقی کی اور ستارہ علم و روشنی کی علامت ہے۔ گو کہ بہت سے لوگ چاند کو اسلام اور ستارے کے پانچ کونوں کو اسلام کے پانچ ارکان کی علامت کہنے لگے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے لئے ایوانِ اقتدار و اختیار نے کوئی ترمیمی قرارداد منظور کی ہو تو اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
مختلف شکلوں میں علامتوں کا استعمال تو ہزارہا برس سے ہو رہا ہے لیکن ان کو پرچم کی شکل سب سے پہلے چینیوں نے دی۔ درماندگانِ یورپ نے صدیوں بعد صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کی دیکھا دیکھی اپنی علامات کو جھنڈے کی شکل دینا شروع کیا۔ عربوں میں عَلَم و پرچم کا رواج تھا۔ قبیلۂ قریش جنگوں میں سیاہ علم لے کر جاتا تھا۔ حضور علیہ الصلوات و التسلیم نے ہجرت کے سفر میں مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے اپنے سفید عمامہ کو نیزے سے باندھ کر ایک پرچم بنایا اور حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کو تھمایا تھا۔ آپ صلوات اللہ علیہ کے پاس سیاہ پرچم بھی تھا جو ابھی حال تک عہد عثمانی میں اسطنبول کے توپکاپی سرائے میں باب السعادۃ پر بطور سنجاق شریف نصب ہوا کرتا تھا۔ عثمانیوں نے یہ پرچم فتح مصر کے وقت مملوکوں سے حاصل کیا تھا۔ مجاز صاحب اگر غور فرماتے کہ یہ سیاہ پرچم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونی دوپٹے سے بنا تھا تو اور بہتر شعر کہہ سکتے تھے۔ فتح مکہ کے دن بھی رسالت مآب علیہ السلام نے حضرت زبیر کو اپنا پرچم العقاب دے کر حکم دیا کہ وہ حجون کے مقام پر جھنڈا گاڑ دیں اور انتظار کریں۔ بعد میں اس مقام پر ایک مسجد تعمیر ہوئی جسے مسجد الرایۃ کہا جاتا ہے یعنی جھنڈے والی مسجد۔ بہت سے حجاج و معتمرین نے یہ مسجد دیکھی ہوگی۔
کیا تاریخ میں کبھی مسلمانوں نے بحیثیت قوم علامت کے طور پر سبز رنگ کا انتخاب کیا؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوگا کیوں کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔ مختلف ریاستیں وجود پذیر ہوئیں تو ان کے پرچم و دیگر علامات بھی مختلف ہونے تھے۔ بنو امیہ کا علم سفید تھا۔ ان کی مخالفت میں عباسیوں نے سیاہ پرچم اپنایا۔ عباسیوں کے خلاف بنو فاطمہ کی تحریک اٹھی تو ان کا پرچم پہلے سفید تھا جو بعد میں سبز ہو گیا۔ یہ عالم اسلام میں سبز پرچم کی پہلی مثال ہے۔ جب مامون نے اثنا عشریوں کے آٹھویں امام علی رضا رحمہ اللہ کو اپنا جانشین تسلیم کیا تو پرچم بھی سیاہ سے سبز کر لیا لیکن دو ہی سال میں حضرت امام کو شہید کر دیا گیا اور پرچم پھر سے سیاہ ہو گیا۔ خوارج کا جھنڈا سرخ تھا۔ ایوبیوں اور مملوکوں کا پیلا۔ قرطبہ اور غرناطہ کے جھنڈے بھی سفید و سرخ رہے۔ تیونس و مصر میں فاطمیوں کو عروج حاصل ہوا تو ایک بار پھر ہرا پرچم نظر آیا۔ یہ دوسری مثال ہے۔ سلجوقوں نے سفید اور عثمانیوں نے مختلف ادوار میں سفید، سبز اور سرخ پرچم اپنائے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے دور حکومت میں عام طور پر سبز رنگ کوئی ایسی علامت نہیں بنا کہ اسے مسلمانوں کا رنگ یا اسلامی پرچم کہا جائے۔ مصر کے فاطمیوں کے بعد ایران میں صفوی دور حکومت میں پرچم ایک بار پھر سبز رو ہوتا ہے۔ ہندوستان میں مفرس مغلوں نے جو سبز پرچم اپنایا وہ ایران کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ یہ اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ مغلوں کے پرچم پر بھی صفوی ایران کی طرح شیر و خورشید کی تصویر تھی۔ یہ نشان رضا شاہ پہلوی تک ایرانی جھنڈے پر ہوا کرتا تھا۔ مغلوں سے پہلے سلاطینِ دہلی کے علم سیاہی مائل ہوتے تھے اور مغلوں کے زوال پر میسور، حیدرآباد، اودھ وغیرہ کے جھنڈے الگ الگ رنگوں کے تھے۔ اس طرح دیکھئے تو سبز پرچم اہل تشیع کی تحریکوں کا فیض ہے جو اب بر صغیر ہی نہیں بلکہ کسی حد تک دنیا میں مسلمانوں کی شناخت کا ایک مستقل جزو بن گیا ہے۔ اس کی تین وجوہات نظر آتی ہیں: پاک پرچم، گنبد خضرا، اور سعودی پرچم۔
پاکستانی پرچم کی ہریالی مسلم لیگ کے پرچم سے مستعار ہے۔ لیگ کے پہلے ہی اجلاس میں اس پر فیصلہ ہوا تھا۔ اجلاس کی روداد اور لیگ کے لئے دستور العمل محمد علی جوہر نے گرین بُک کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کی تھی لیکن اِس کتاب تک میری رسائی نہیں ہو سکی جس سے معلوم ہوتا کہ پرچم کے انتخاب میں کون سے عوامل لیگ رہنماؤں کے پیش نظر تھے۔ بہرحال یہ تو ظاہر ہے کہ لیگ کا پرچم دو عظیم مسلم سلطنتوں، مغل اور عثمانی، سے متاثر تھا۔ بر صغیر کے مسلمان مغلیہ حکومت کو عظمت رفتہ کے طور پر دیکھتے تھے۔ سبز پرچم ماضی قریب میں مسلمانوں کے دور عروج کا نشان تھا اس لئے مسلم لیگ نے اپنا پرچم ہرا بنایا جو تھوڑی تبدیلی کے ساتھ آج کے پاکستان کا جھنڈا ہے۔ جغرافیائی قومیتوں کے دور میں دنیا میں پاکستان اور اسرائیل دو ہی ایسے ملک ہیں جن کا قیام مذہبی بنیادوں پر ہوا۔ اب جس ملک کا قیام ہی بطور مسلم ریاست کے ہوا ہو اس کی علامتوں کی اہمیت محض ریاستی ہونے کے بجائے اسلامی ہوتے جانا باعث حیرت نہیں۔
جہاں تک گنبد خضرا کا تعلق ہے، سبز رنگ کو شناخت بنانے میں اس کا بھی کردار ضرور ہے۔ انیسویں صدی میں برصغیر کے لوگ حج کرنے جانے لگے۔ پہلے دس بیس سال میں کوئی قافلہ روانہ ہو تو ہو ورنہ حج کرنے کا عام رواج نہ تھا۔ راستے کی بے امنی اور خطرات کے مد نظر حج کو مَنِ استَطاعَ إليه سبيلاّ کے منافی اور وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ کے خلاف سمجھ کر علماء نے اس کی فرضیت کو ساقط کر رکھا تھا، بلکہ بعض نے حرام ہونے کا بھی فتویٰ دیا تھا۔ ویسے بھی سفر کرنا ہندوستانیوں کے مزاج میں نہ تھا جس کی تفصیل پھر کبھی۔ خواص بھی یعنی امراء و رؤساء حتی کہ علماء و مشائخ تک حج نہ کرتے، سوائے دربار کے وہ لوگ جہیں مجبور کیا جاتا۔ جنہیں قتل کرنے میں ضمیر آڑے آتا تو کہتے آپ مکہ مکرمہ چلے جائیں، حج کریں، اللہ اللہ کریں، ورنہ ۔۔۔۔ یعنی عربستان یا قبرستان۔ آج بھی بعض نابالغ اور غیر مہذب سیاسی معاشروں میں یہی ہوتا ہے۔ سکون سے جینا چاہتے ہو تو ملک چھوڑ کر چلے جاؤ ورنہ زندان یا جلاد کے حوالے کئے جاؤ گے۔ بطور استثناء بعض مشائخ مثلاً شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور ان کے بعد شیخ ولی اللہ دہلوی رحمہما اللہ نے حج کیا۔ لیکن حج پر جانے کی باقاعدہ تحریک سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ نے چلائی اور ۷۵۳ لوگوں کا ایک بڑا قافلہ کئی جہازوں پر سوار کر کے لے گئے۔ قزاقوں کا خطرہ تھا تو ساتھ میں توپیں اور بندوقیں بھی تھیں۔ اس کے بعد حرمین جانے کا سلسہ شروع ہوا اور ہندوستانیوں نے سبز گنبد دیکھا۔ نعتیہ کلام میں گنبد خضرا کا ذکر ہونے لگا اور حجاج کے ساتھ ہرے گنبد کے طغرے بھی آنے لگے۔ کیمرا اور ملَوّن طباعت کا رواج ہوا تو تصویریں، پوسٹر اور کیلنڈر اس طرح چھا گئے کہ گنبد خضرا کی شبیہ مسلمانوں کی محبت و عقیدت کے مرکز کی نمائندہ تصویر ہو گئی۔ مدینہ منورہ کا ذکر ہو تو یہی ایک شبیہ ہے جو ذہن کے پردے پر ابھرتی ہے۔ سبز رنگ راسخ ہوتا گیا۔ ورنہ پہلے گنبد سفید اور پھر نیلا تھا لیکن آپ کو گنبد بیضا یا گنبد زرقا پر اردو میں ایک بھی شعر نہ ملے گا کیوں کہ ہندوستانی جاتے ہی نہ تھے کہ دیکھتے۔ اردو میں لکھے اولین حج نامے، عطا حسین گیاوی کی ہدایت المسافرین (غیر مطبوعہ، ۱۸۴۸) اور منصب علی خاں کی ماہِ مغرب (۱۸۷۱)، گنبد کے ہرے ہونے کے بعد کی تصنیفات ہیں۔
گنبد خضرا سے رنگ پکا ہوا لیکن اصل فاطمی و صفوی حکومتوں کا ہی فیض ہے۔ گنبد بن گیا تو کسی نہ کسی رنگ کا تو ہونا ہی تھا۔ روضۂ اقدس صلی الله علیہ وسلم پر جو گنبد قائم ہے یہ عثمانی سلطان عبدالحمید نے انیسویں صدی کی دوسرے عشرے میں تعمیر کرایا۔ اور اس پر سبز رنگ مزید ۲۲ سال بعد سنہ ۱۸۳۹ میں چڑھایا گیا۔ سنہ ۶۷۸ ھجری تک کوئی گنبد نہ تھا۔ مسجد کی چھت پر کمر تک اونچی دیوار سے حجرۂ اقدس کے حدود اربعہ کی نشاندہی کر دی گئی تھی۔ ۶۷۸ ہجری میں پہلی مرتبہ مصر کے مملوک سلطان قلاؤون الصالحی نے لکڑی کا گنبد تعمیر کرایا، جس میں سیسے کی پلیٹیں بھی استعمال ہوئیں۔ یہ گنبد نیچے سے مربع اور اوپر سے مثمن تھا۔ کئی بار اس کی مرمت بھی ہوئی۔ لیکن جب ۸۸۶ ہجری میں مسجد نبوی میں لگی آگ سے گنبد کو بھی نقصان پہنچا تو ملک اشرف قتبائی نے لکڑی والے گنبد کے اوپر ہی کالے اور سفید رنگ کے پتھر سے ایک نیا گنبد بنوایا۔ اس کو قبۃ البیضاء کہا گیا۔ ۸۹۲ ہجری میں اسی بادشاہ نے سفید گنبد کے اوپر نیلے رنگ کا ایسا گنبد بنوایا جس کے پتھروں پر آگ کا اثر نہ ہو۔ یہ پتھر مصر سے لائے گئے۔ اس کو قبۃ الزرقاء کہا گیا۔ اس کے ۳۴۱ سال بعد سلطان عبدالحمید ثانی نے جیسا پہلے عرض کیا نیلے گنبد کے اوپر ہی تعمیر نو کیا اور ۱۲۵۵ ہجری میں سبز رنگ چڑھا دیا۔ جو آج تک موجود ہے۔ (فصول من تاريخ المدينة المنورة)
ہرے رنگ کی پرت دبیز تر کرنے میں سعودی پرچم کا بھی کردار ہے۔ عثمانیوں کا زوال ہونے لگا تو عرب میں کئی ریاستوں کا طلوع ہوا۔ درعیہ میں سعودیوں کی ایک چھوٹی سی ریاست وجود میں آئی۔ ان کا پرچم سبز تھا۔ اُسی طرح جیسے حائل کے رشیدیوں کا سرخ، عسیر کے مشائخ کا سفید اور مکہ مکرمہ کے شریفوں کا چار رنگوں کا پرچم تھا۔ جب آل سعود کو پورے نجد و حجاز پر اختیار حاصل ہوا تو ان کا ہرا پرچم پورے ملک کا پرچم ہو گیا۔ اب جدید ذرائع ابلاغ کے زمانے میں جن کے پاس حرمین شریفین کے انتظامات ہوں اور جن کا دعوی اسلامی شرعی حکومت کا ہو ان کا بھی پرچم ہرا ہے تو رنگ پکا ہوتا گیا۔ حالانکہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ پرچم تو ریاست اور حکومت کا ہوتا ہے، جب مرکزیت ٹوٹی اور الگ الگ ریاستیں وجود میں آئیں تو سب کو ایک دوسرے سے الگ علامتوں کی ضرورت بھی پیش آئی۔ اس میں مذہبی شناخت جیسی کوئی بات نہ تھی۔ گو کہ رفتہ رفتہ ایک حد تک ایسا ہوتا گیا۔ آج بھی سعودی عرب، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ زیادہ تر ممالک میں پرچم کئی رنگوں کا ہے۔ سبز صرف ایک جزو ہے۔
سبز رنگ کے مقابلے چاند یا چاند ستارہ کو زیادہ بڑی علامت کہہ سکتے ہیں۔ سبز رنگ تو کچھ ممالک کے پرچم تک محدود ہے۔ اس کے برعکس نشانِ ہلال (یا پورا چاند یا چاند ستارہ) بہت سے مسلم اکثریت والے ممالک کے پرچم کا حصہ ہے۔ ویسے تو دنیا کی مختلف قوموں میں چاند کو معبود یا کم از کم علامت کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ہندوستان، افریقہ، یونانی علم الاصنام وغیرہ میں چاند سے منسوب دیوی دیوتاؤں کا تصور ہے اور زمانۂ قدیم سے معابد میں اس کی تجسیم ہوتی رہی ہے۔ صدیوں سے چاند مسلم ثقافت کا بھی حصہ ہے۔ قمری تقویم اور چاند دیکھ کر اپنی عید کرنا، نشانِ ہلال کے ساتھ تہنیتی پیغامات ارسال کرنا، قومی اعلام اور سکہ ہائے نقود پر چاند کی علامت ہونا، مساجد و مقابر اور قومی عمارتوں پر چاند کی علامت نصب ہونا، یہ سب اسی کے مظاہر ہیں۔ حتی کہ مسلمانوں کے مقدس ترین مسجد حرم اور مسجد نبوی کی میناروں پر بھی چاند کی علامت تعمیر کا حصہ ہے۔
چونکہ مختلف ثقافتوں میں چاند کی کسی نہ کسی شکل میں عبادت ہوتی رہی ہے، بعض مستشرقین اور عیسائی مبلغین نے یہ کہنا شروع کیا کہ اسلام کی بنیاد خدائے واحد کی پرستش نہیں بلکہ چاند کی پرستش ہے۔ اسلام مشرکین عرب کے عقائد کی ارتقاء ہے اور مسلمانوں کے نبی نے مشرکین ہی کی عبادات و علامات کو اسلامیایا ہے۔ وہ کہتے ہیں الله نام ہے چاند سے منسوب ایک معبود کا جس کی عبادت قریش پہلے سے کرتے تھے۔ جنوبی عرب میں چاند سے منسوب ایک دیوتا کا نام المقہ ملتا ہے۔ اس کے لئے الہ کا لفظ بھی آیا ہے۔ اللہ اسی الہ کا معرفہ ہے۔
ایک صاحب نے تو اس موضوع پر دو جلدوں میں مستقل ایک کتاب لکھ دی ہے moon-o-theism جو عقیدۂ توحید یعنی monotheism سے صوتی مماثلت رکھتا ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ لفظ اللّہ ال الہ سے بنا ہے اور الہ چاند دیوتا کا نام تھا۔ اس حد تک کہا گیا ہے کہ اللہ کی تانیث اللاة ہے جو سورج سے منسوب دیوی تھی۔ چاند (اللّٰہ) مذکر اور سورج (اللاة) مونث۔ کچھ نے لات، منات اور عزہ کو خدا کی بیٹیاں ہونا بتایا ہے، جس کی بہر حال عربوں میں روایت تھی۔ بیٹیاں ہونے کے لئے مستشرقین نے یونانی علم الاصنام کی طرز پر کہانیاں گڑھ لیں کہ اللہ چاند دیوتا ہے اور معاذ اللہ اس کی شادی کسی سورج سے منسوب دیوی سے ہوئی۔ نقل کفر کفر نباشد۔
چونکہ عرب بت پرست تھے اور چاند کی عبادت ہر قوم میں ہوتی ہی رہی ہے تو آج ہماری مسجدوں پر چاند کی جو علامت ہوتی ہے اس کو چاند کی عبادت سے جوڑ دینا اور قدیم عرب میں اس کی مثالیں دے دینا آسان لگا۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں میں چاند کی عبادت کی کوئی خاص روایت نہ تھی۔ اور پھر قرآن خود کہتا ہے لا تسجدوا للشمس و لا للقمر واسجدوا لله الذي خلقهن.
جہاں تک الہ سے اللہ کے اشتقاق کا تعلق ہے تو یہ قیاس بعض عرب علمائے لسانیات نے بھی کیا ہے۔ لیکن اس طالب علم کا خیال اس کے بر عکس ہے۔ اللہ سے ال الہ بھی ممکن ہے۔ لغویات میں اس کو اشتقاق معکوس کہہ سکتے ہیں۔ الکسندریہ (Alexandria) سے الاسکندریہ بھی اس کی مثال ہے۔ انگریزی میں بَیک فارمیشن کی کئی مثالیں ہیں۔ ویسے تو ٹیچ سے ٹیچر، کلکٹ سے کلکٹر معمول ہے لیکن ایڈیٹر سے ایڈٹ، ٹیلی وژن سے ٹیلی وائز بیک فارمیشن ہے۔
ان کہانیوں کی بنیاد صرف اسلام دشمنی ہی نہیں بلکہ ان کی جہالت بھی ہے۔ در اصل بہت سے مستشرقین علمی ہیضہ کے شکار رہے ہیں۔ تھوڑی سی عربی سیکھ کر عربی کی قدیم کتابوں میں انہیں قواعد کی غلطی نظر آنے لگتی ہے۔ لیکن گوروں کا علمی رعب، ان کی خود اعتمادی، کام کرنے کا اسلوب و انداز اور چونکہ اور کسی نے کام نہیں کیا تھا تو جو ان لوگوں نے کہا فورا سکۂ رائج الوقت ہوا۔ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا۔ مخطوطات پڑھنے، ترجمہ کرنے، اور نتائج اخذ کرنے میں جابجا غلطیاں ہوئیں لیکن تب تک جدید زبانوں میں اس انداز کا کام کسی نے کیا نہیں تھا۔ کسی نے بابر کے قول کو ملٹن کے شیطان عظیم کی تقریر سے ملا دیا تو محترمہ بیورج صاحب نے بابر کو ہمایوں کے بستر کے چکر لگوا دئے۔ تحریر انگریزی میں، تحقیق گوروں کی تو فورا کرنسی حاصل ہو گئی اور ہم آج تک مدارس میں بچوں کو یہ قصہ پڑھاتے ہیں۔ یہی حال اللات کا ہے۔ ایک تھے آرتھر جیفری، جو تھے آسٹرلیا کے، پڑھاتے تھے مصر میں اور اسلام اور قران پر اپنی کتابیں شائع کیں بڑودا، ہندوستان کے مہاراجا گائکواڑ کے مالی تعاون سے۔ جیفری جن کو حافظ صفوان صاحب بڑے پائے کا محقق گردانتے ہیں فرماتے ہیں اللات اللہ کی تانیث ہے۔ جیفری نے صوتی مماثلت اور آخر حرف ت دیکھا تو اسے تائے تانیث سمجھ لیا۔ جب کہ در حقیقت اس کا لفظ اللہ سے سرے سے کوئی لغوی رشتہ ہی نہیں۔ اس کا مادہ لت ہے جس کی معنی آتے ہیں نم کرنا، ملائم کرنا۔ طائف میں ثقفیوں کا ایک شخص جَو کو مکھن میں ڈال کر تیار کرتا اور مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک مکعب پتھر پر بیٹھ جاتا کہ گزرنے والے زائرین کعبہ میں تقسیم کرے۔ یہ شخص اللات کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس کے انتقال کے بعد عمرو بن لحی نے کہا کہ اس کی روح نے دیوی کی شکل لے لی ہے اور اس پتھر میں حلول کر گئی ہے۔ اس کی تعظیم ہونے لگی اور بطور دیوی اللات یہ پتھر طائف میں ہی نصب کر دیا گیا۔ ثقفیوں نے وہاں ایک معبد کی تعمیر کروا دی۔
بعض مستشرقین نے یہ بھی کہا ہے کہ ہبل چاند سے منسوب تھا اور الله اسی ہبل کا نام ہے۔ ایک تو ہبل سب سے بڑا خدا تھا۔ قرآن میں لات و منات و عزہ کا نام لے کر کہا گیا کہ انھیں اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں دیا گیا۔ جب کہ ہبل صاحب کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا۔ قرآن میں دوسرے بہت سے باطل خداؤں کا بھی ذکر نہیں ہے لیکن ہبل تو بڑا خدا تھا، جب لات و منات کی مذمت کی گئی تو ہبل کی بھی ہونی چاہئے تھی۔ اس سے ان قابل مستشرقین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہبل ہی اللہ ہے اور اس کی علامت چاند اب بھی مسلمانوں کے معابد کا حصہ ہے۔ یہ لوگ سیاق و سباق سے یہ سمجھنے سے قاصر یا انکاری رہے کہ ان آیات میں خدا کی بیٹیوں کے تصور کی مذمت ہے جب کہ ہبل صاحب مذکر تھے اس لئے یہاں ان کے ذکر کا محل نہ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ چاند کا کوئی تعلق اسلامی عقائد کے مطابق خدا کے تصور سے کبھی نہیں رہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم، خلفاء راشدین مہدئین، بنو امیہ و بنو عباس کے دور میں چاند کو اسلامی علامت کی طرح کبھی نہیں استعمال کیا گیا۔ مذہبی حیثیت تو آج بھی نہیں ہے۔ مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ چاند کی تقدس کا قائل نہیں ہے۔
مسلمانوں میں سب سے پہلے عثمانی ترکوں نے کثرت سے اپنے پرچم اور عمارتوں پر چاند کی تصویر بنانی شروع کی۔ اور ان سے ہی یہ علامت دولت عثمانیہ کی وسیع و عریض حدود میں رائج ہو گئی۔ بازنطینیوں نے قسطنطنیہ کو کسی چاند دیوی سے منسوب کیا تھا اور اس کی شبیہ عمارتوں اور سکوں پر بنائی جاتی تھی لیکن عیسائی ہونے کے بعد شہر کو کنواری مریم سلام الله علیہا سے منسوب کیا گیا اور معابد کے مناروں پر چاند کی جگہ صلیب نے لے لی۔ بعض کہتے ہیں کہ عثمانیوں نے یہ علامت بازنطینیوں سے لی۔ ویسے تو چاند خود ترک قبائل میں ایک علامت کے طور پر رائج تھا، بلکہ یونان و روم، قدیم مصر، عراق و ایران وغیرہ میں بھی سکوں، عمارتوں، حکومتی نشانوں پر چاند کی تصویر مل جاتی ہے، لیکن عثمانی وقائع نگاروں کے مطابق دولت عثمانیہ کے بانی عثمان علی نے ایک خواب دیکھا تھا کہ شیخ ادب علی کے سینہ سے چاند طلوع ہوا اور جب دھیرے دھیرے پورا ہو گیا تو اس کے سینے میں اتر آیا۔ اور پھر اس کے جسم سے ایک درخت نکلا جس کی شاخوں سے دنیا ڈھک گئی۔ ادب علی کی بیٹی بالا خاتون عثمان علی کے نکاح میں آئی۔ عثمان علی نے یہ علامت اپنے خواب سے لی اور اپنے پرچم اور حکومتی مراکز پر نصب کیا۔ عثمانی مفتوحہ علاقوں میں قلعوں وغیرہ پر صلیب کی جگہ ہلال کی شبیہ بنا دیتے۔ گرجوں کو عمارت میں تبدیلی کئے بغیر مسجد بنا لیتے تھے اور ان کے لئے دوسرا گرجا بنوا دیتے۔ بظاہر کوئی فرق نظر نہ آتا۔ فرق ظاہر کرنے کے لئے یہاں بھی مسیحی صلیب کے مقابل نشان ہلال کا استعمال کیا جانے لگا۔ علامتی طور پر عثمانیوں اور بازنطینیوں کے مجادلے ہلال و صلیب کے درمیان جنگیں سمجھی جانے لگیں۔ جب محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو وہاں بھی یہی کیا۔ اسطنبول میں آیا صوفیا کے علاوہ بھی کئی پرانے گرجے ہیں جنہیں مشرف بہ اسلام کرایا گیا ہے۔ اس کے بعد پورے عثمانی سلطنت میں بلکہ اس کے باہر بھی مساجد و خوانق کی عمارتوں پر چاند نظر آنے لگا۔ ہلال سے مسلمانوں کی نمائندگی ہونے لگی۔ ہندوستان میں بطور مسلم علامت اس کی آمد بیسویں صدی میں ہوئی۔ پہلے مغلوں کی تعمیر کردہ مساجد کے مناروں پر کہیں چاند طلوع ہوتا نظر نہیں آتا۔ لیکن جب مسلم لیگ اور پھر تحریک خلافت نے ستارہ و ہلال کی ترویج کی اور علی برادران نے اسے اپنی کلاہ میں ٹانک کر پورے ہندوستان کا دورہ کیا تو یہاں بھی چاند کے اسلامیانے کا عمل مکمل ہو گیا۔
لیکن مغربی محققین کا یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ چاند کی کوئی مذہبی حیثیت ہے۔ مسجدوں پر نصب ہونے کے باوجود اس کی حیثیت محض مسلم ثقافت اور فن تعمیر کے ایک جزو کی طرح ہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے گنبد و مینار۔ بغیر گنبد و مینار اور محراب کے بھی مسجد بن سکتی ہے۔ آج صرف اس لئے بنائی جاتی ہے کہ روائتی مسلم فن تعمیر کا حصہ ہے لیکن اگر کوئی بغیر چاند کے بلکہ بغیر گنبد و مینار کے مسجد تعمیر کرا دے تو شاید ہی کسی کو اعتراض ہو۔
سبز پرچم اور نشانِ ہلال کو مسلمانوں کی شناخت سمجھ لینا یا بنا لینا درست نہیں۔ آج جب مسلمانوں کی کئی حکومتیں ہیں اور کوئی مرکزی خلافت بحیثیت مسلمان کے نہیں ہے، یہ سمجھنا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ پرچم کسی ملک کی تاریخ و ثقافت کے مطابق کسی بھی رنگ کا ہو وہ اسی ملک اور حکومت کی علامت ہے۔ بس اس غلط فہمی کا ازالہ ہونا چاہئے کہ ہرا جھنڈا مسلمانوں کا ہے۔ جیسے زعفرانی ہنود کا۔ اور کم از کم مذہبی عمارات پر چاند نصب کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ مغلوں نے شیر و خورشید کا اور شاہانِ اودھ نے دو مچھلیوں کا نشان اپنایا جو آج تک صوبۂ یوپی کا نشان ہے۔ اگر یہ حکومتیں اتنی بڑی ہوتیں کہ ان کو مرکزیت حاصل ہو جاتی تو کیا ہم شیر اور مچھلی کو اسلام کی علامت بنا کر مساجد پر نصب کر دیتے۔
معذرت خواہ ہوں اگر یہ طویل مضمون باعث درد سر ہوا۔ ہم بھی خواہ مخواہ مسلمانوں کے پرچموں کو لے کر بیٹھ گئے جن کا کمال رو بہ زوال ہے۔
شکستوں کے ڈیرے منڈیروں پہ ہیں
ہماری فصیلوں پہ پرچم کہاں