﷽
بلبل كى چمن ميں ہم زبانى چھوڑى
بزم شعرا ميں شعر خوانى چھوڑى
جب سے دل زنده تو نے ہم كو چھوڑا
ہم نے بهى ترى رام كہانى چھوڑى
ميں نے مسدس حالى كا نام پہلى مرتبہ اس وقت سنا جب آزاد ميں پڑھنے لگا۔ يہ كتاب يہاں كے مكتب پنجم كے نصاب ميں داخل تھى، يعنى جو طلبہ مجھ سے ايک سال نيچے تھے وه يہ كتاب پڑھ رہے تھے۔ ان كى ديكھا ديكھى ميں نے بھى مسدس كا كچھ حصہ پڑھا۔ اس ميں شک نہيں کہ مسدس حالی اردو ادب كى ایک عظیم الشان تخلیق ہے۔ اسے “مد و جزر اسلام” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس میں حالیؔ نے اسلامی تاریخ، مسلمانوں کے عروج و زوال، اور زوال کی وجوہات کو نہایت درد مندی اور فکری گہرائی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہ نظم مسلمانوں کے اخلاقی، دینی، اور معاشرتی انحطاط پر آه و فغاں كے مانند ہے۔ اس كا پہلا مسدس كتنا موہنى ہے:
كسى نے يہ بقراط سے جا كے پوچھا
مرض تيرے نزديک مہلک ہيں كيا كيا
كہا دكھ جہاں ميں نہيں كوئى ايسا
کہ جس كى دوا حق نے كى ہو نہ پيدا
مگر وه مرض جس كو آسان سمجھيں
كہے جو طبيب اس كو ہذيان سمجھيں
خواجہ الطاف حسین حالیؔ (١٨٣٧-١٩١٤م) اردو کے ممتاز شاعر، نقاد، اور نثر نگار تھے۔ ان کی پیدائش پانی پت میں ہوئی اور انہوں نے اردو ادب و تنقيد كى قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ حالیؔ کو اردو شاعری میں ایک اصلاحی تحریک کا بانی مانا جاتا ہے۔ بحيثيت انساں، حالى كا درجہ بہت بلند ہے۔ وه فرشتہ خصلت، فراخ دل اور انكسار مجسم تھے۔ “ان كا قلب صافى حسن صداقت و شرافت كا آئينہ دار تها” (صالحہ عابد حسين)۔ “حالى انسان نہيں، فرشتہ تھے” (راس مسعود)۔
مسدس حالى کی تخلیق اس وقت ہوئی جب بر صغیر کے مسلمان سیاسی، سماجی اور مذہبی طور پر شدید انحطاط کا شکار تھے۔ حالیؔ نے اس کربناک صورت حال کو محسوس کیا اور مسلمانوں کی اس حالت پر نہ صرف غم و غصہ کا اظہار کیا بلکہ انہیں بیدار کرنے کی کوشش کی۔ اس نظم کو لکھنے کے پیچھے سر سید احمد خان کا ہاتھ تھا۔ “حالى كى سر سيد سے ملاقات ہوئى، اور وه سر سيد كى اصلاحى تاريخ كے روح و رواں بن گئے۔ مسدس سر سيد كى فرمائش پر لكھى گئى، اور سر سيد اسے اپنى نجات كا باعث سمجھتے تھے، ليكن ميرا خيال ہے کہ اس كى وجہ سے مسلمانوں كو بھى پستى سے نجات ملى” (آل احمد سرور)۔
یہ كتاب پڑھنے كے بعد سر سيد نے حالىؔ كو ايک خط لكھا، جس كا ايک حصہ يہاں نقل كيا جاتا ہے: “جس وقت كتاب ہاتھ ميں آئى، جب تک ختم نہ ہوئى ہاتھ سے نہ چھوٹى، اور جب ختم ہوئى تو افسوس ہوا کہ كيوں ختم ہوگئى … كس صفائى اور خوبى اور روانى سے یہ نظم تحرير ہوئى ہے، بيان سے باہر ہے۔”
مسدس حالى شاعرى كى صنف مسدس سے تعلق ركھتى ہے، یعنی یہ ایک ایسی نظم ہے جس میں ہر شعر کے چھ مصرعے ہوتے ہیں۔ حالیؔ نے اس صنف کو چنا کیوں کہ اس میں تاثیر پیدا کرنے اور ایک تسلسل میں کہانی بیان کرنے کی خوبیاں موجود ہیں۔ مسدس میں بنیادی طور پر چار اہم موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے:
١۔ مسلمانوں کا ماضی
حالیؔ نے مسلمانوں کی ابتدائی عظمت اور عروج کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے علم، ادب، فلسفہ، اور سائنس کے میدان میں شاندار کارنامے انجام دیئے:
غرض فن ہيں جو مايۂ دين و دولت
طبيعى، الہى، رياضى و حكمت
طب اور كيميا، ہندسہ اور ہيئت
سياست، تجارت، عمارت، فلاحت
لگاؤ گے كھوج ان كا جا كر جہاں تم
نشاں ان كے قدموں كے پاؤ گے واں تم
٢۔ زوال کی وجوہات
حالی نے مسلمانوں کے زوال کی وجوہات پر گہری نظر ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، مسلمانوں کے اندرونی اختلافات، اخلاقی انحطاط، علم سے دوری، اور دین سے بے توجہی ان کے زوال کی اہم وجوہات ہیں:
سدا اہل تحقيق سے دل ميں بل ہے
حديثوں پہ چلنے ميں ديں كا خلل ہے
فتاووں پہ بالكل مدارِ عمل ہے
ہر اک رائے قرآں كا نعم البدل ہے
كتاب اور سنت كا ہے نام باقى
خدا اور نبىؐ سے نہيں كام باقى
٣۔ موجودہ حالت
حالیؔ نے مسلمانوں کی حالتِ زار کو نہایت درد ناک انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان اپنے ماضی کی عظمت کو بھول چکے ہیں اور اب ایک پست حال قوم بن چکے ہیں:
مگر مومنوں پر كشاده ہيں راہيں
پرستش كريں شوق سے جس كى چاہيں
نيز:
نبى كو جو چاہيں خدا كر دكھائيں
اماموں كا رتبہ نبى سے بڑھائيں
نيز:
رہے اہل قبلہ ميں جنگ ايسى با ہم
کہ دينِ خدا پر ہنسے سارا عالم
٤۔ اصلاح کا پیغام
حالیؔ نے اپنی نظم میں مسلمانوں کو بیدار کرنے کا پیغام دیا ہے۔ وہ انہیں تلقین کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کریں، علم کو اپنا زیور بنائیں، اور اخوت و بھائی چارے کو فروغ دیں:
رہو گے يونہى فارغ البال كب تک
نہ بدلو گے یہ چال اور ڈھال كب تک
رہے گى نئى پود پامال كب تک
نہ چھوڑو گے تم بھيڑيا چال كب تک
بس اگلے فسانے فراموش كر دو
تعصب كے شعلے كو خاموش كر دو
ہمارے استاد مولانا شميم احمد اصلاحى رحمۃ اللہ عليہ كا شعرى ذوق معيارى تھا۔ وہى اسے پڑھاتے تھے۔ ميں نے ان كے سامنے مسدس كا یہ شعر پڑھا:
كوئى قرطبہ كے كھنڈر جا كے ديكھے
مساجد كے محراب و در جا كے ديكھے
اور كھنڈر ميں نون كا اظہار كرديا، اس پر مولانا سخت ناراض ہوئے، اور انہيں حيرت ہوئى کہ ميں نے اتنى بھونڈى غلطى كى۔ مفكر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن على ندوى مسدس كى سادگى اور تاثير كے ثنا خواں تھے، نہ كوئى مبالغہ، اور نہ كوئى كمزور روايت، اس كے با وجود ايک جادوئى تاثير۔ يہ شعر كئى بار گنگاتے سنا:
وه نبيوں ميں رحمت لقب پانے والا
مراديں غريبوں كى بر لانے والا
مصيبت ميں غيروں كے كام آنے والا
وه اپنے پرائے كا غم كھانے والا
فقيروں كا ملجا ضعيفوں كا ماوىٰ
يتيموں كا والى غلاموں كا مولىٰ
يہ شعر معجزه معلوم ہوتا ہے:
اتر كر حرا سے سوئے قوم آيا
اور اک نسخۂ كيميا ساتھ لايا
اسى طرح يہ شعر:
وه بجلى كا كڑكا تھا يا صوت ہادى
عرب كى زميں جس نے سارى ہلا دى
مسدس حالى اس لائق ہے کہ ہر مسلمان بچہ اسے پڑھے، سمجھے اور زبانى ياد كرے۔ اس ميں اسلامى تاريخ كا مذاكره ہے، فكر اسلامى كى تصحيح ہے، ادب و شاعرى كى اصلاح ہے، اور ايک معيارى زبان كى تربيت۔ اقبال نے حالىؔ كى موت كو بانگِ درا ميں زنده جاويد بنا ديا:
شبلى كو رو رہے تھے ابھى اہل گلستاں
حالىؔ بھى ہو گيا سوئے فردوس ره نورد