تعلیم کا تعلق انسانی معاشرے کے ساتھ بہت گہرا، ہمہ جہت اور طویل المیعاد ہوتا ہے جس کی رو سے کسی ملک یا معاشرے کی معاشی و سماجی ترقی، تہذیب و تمدن کا ارتقاء اور اس کے بنیادی عوامل کی فراہمی بغیر تعلیم و تحقیق اور افہام و تفہیم کے کسی دیگر ذریعہ سے ممکن نہیں ہوسکتی۔ اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے کہ کسی بھی ملک یا سماج میں اگر تعلیم کے بنیادی وسائل اور ذرائع بالکل مفت یا کم سے کم قیمت پر حکومت کے اداروں اسکولوں اور کالجوں کے ذریعہ ہر خاص و عام کی پہنچ کے اندر ہیں تو اس ملک اور قوم کی ترقی کے لئے کسی دوسرے بیرونی عنصر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تعلیم یافتہ سماج اپنے قدرتی اور انسانی وسائل کی ضرورت کے مطابق تکمیلی افادیت کو صنعتی پیداوار میں اضافے، عوامی خدمات کی وسعت، اس کے کثیر جہت استعمال کو یقینی بنانے کے فن سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ علم کا حصول ہر انسان کا انفرادی عمل ہوتا ہے اور اس کا یہ عمل ایک خاص فائدے پر بھی منتج ہو سکتا ہے لیکن تعلیم کا نظام ایک اجتماعی اور ہمہ گیر عملی اقدام کا متقاضی ہوتا ہے جس کا مجموعی مقصد معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا اور عام آدمی کی زندگی کو سہل بنانا ہوتا ہے۔ غور کرنے کی بات یہی ہے کہ کیا ہمارے ملک کا تعلیمی نظام سماجی بہبود اور تہذیبی علامات کے عمومی مقاصد سے ہم آہنگ ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ نصاب اور نظام تعلیم، خواہ وہ کتنا ہی وسیع اور کثیر الجہات ہو، ترقی کے نام پر انسانی ذہن کو صرف ایک مشین کے طرز پر عمل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور وقت کے ساتھ انسان کو ایک روبوٹ بنا دیتا ہے جو ذاتی مفاد کی پروگرامنگ سے بھرا ہوتا ہے اور جسے اپنے عیش و آرام کے حصول کے آگے سماج و معاشرے کے لئے کچھ کرنے کی عملی تدبیر اور مشق نہیں ہوتی ۔ ایسا نصاب اور تعلیمی نظام انسانی معاشرے کو ایک صنعتی اکائی کی شکل میں وسعت دے دیتا ہے جہاں ذاتی منافع ہی بنیادی مقصد اور ہر عمل کی تحریک مانا جاتا ہے۔
جدید تعلیمی نظام کے اندر پوری دنیا میں اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کا نصاب تعلیم و تربیت اور اس کا مکمل خاکہ صرف انفرادی ترقی اور ذاتی مفاد کے حصول کو یقینی بنانے کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے۔ اسکول میں داخلے سے لے کر وہاں سے فارغ ہو کر سند اور ڈگری لینے تک ہر طالب علم کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے یعنی ایک محدود وقت میں دیا ہوا نصاب مکمل کرنا، اسی کا رٹا مار امتحان دینا، ڈگری حاصل کرنا اور پھر ایک نوکری تلاش کرنا تاکہ آگے اپنی ذاتی زندگی عیش و آرام کے ساتھ گزار سکے۔ آج کل ہر طالب علم صرف ڈگری اور نوکری کے لئے ہی تعلیم حاصل کرتا ہے اور صرف اتنا ہی پڑھتا ہے یا پڑھنا چاہتا ہے جتنے میں اسے مطلوبہ ڈگری اور من پسند نوکری مل جائے۔ جب تعلیم کا سارا منبع اور مقصد ہی چند ذاتی خواہشات کی تکمیل تک محدود ہے تو تعلیم کے مقاصد میں اجتماعی فلاح اور سماجی بہبود جیسے مقاصد پر بات بے معنی ہو جاتی ہے۔ گئے وقتوں میں جب تعلیم بنا کسی امتحان اور ڈگری کے صرف حصول علم کے لئے ہوتی تھی تو زیادہ نامور معلم، طالب علم اور صالح علماء پیدا ہوتے تھے۔ موجودہ نظام کے تحت ایک متعین نصاب تک محدود رہنے سے ایک طالب علم کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پر قدغن ضرور لگ جاتی ہے۔
ملک میں کوئی بھی تعلیمی پالیسی آجائے لیکن اچھے اور خراب کے کچھ سماجی پیمانے کچھ اس طرح راسخ ہو گئے ہیں جو کسی طور بھی تبدیل ہونے کا نام نہیں لیتے۔ انہیں میں ایک امتحانات کے نتائج میں زیادہ سے زیادہ نمبر اور فیصد لانے کا جنون ہے جو والدین اور سرپرستوں کے سر سے اترنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس وقت ایک طالب علم کی ساری صلاحیت، کارکردگی، ذہنی نشو و نما اور شخصیت کے ارتقاء کا سارا پیمانہ سماج اور سرپرست حضرات کے نزدیک صرف مارک شیٹ پر درج نمبرات اور ڈگری کے گریڈ تک ہی محدود ہے۔ ایک طالب علم اپنی تعلیمی زندگی کے دورانئے میں کچھ بھی کر رہا ہو، اسکول میں طلبہ اور اساتذہ کے درمیان غیر معروف حرکتوں کی وجہ سے قابل تعزیر ہو، معاشرے اور سماج میں کیسی ہی حرکات کا مرتکب ہو رہا ہو لیکن والدین ان سب کو قابل معافی سمجھتے ہیں اور انہیں ان سب کی کوئی پروا بھی نہیں ہوتی بس بچے کے رزلٹ میں نمبروں کا فیصد ۹۰ اور ۹۵ سے زیادہ ہو جائے تو اس کی ساری غلطیاں اور کوتاہیاں معاف کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ موضوع ایک سنجیدہ بحث کا متقاضی ہے، امتحان کے نمبر اور فیصد کا جنون اب والدین اور اسکول انتظامیہ دونوں کے سر سے اترنا چاہئے اور طلبہ کی ترقی اور ذہنی نشو و نما کی پیمائش کے لئے شخصیت کا ارتقاء اور تجزیاتی ذہن کی نمود کا ایک نیا پیمانہ متعارف کروایا جانا چاہئے۔ پرائمری کلاس تک تو بچے کی صلاحیت کا پیمانہ صرف اگلی کلاس میں پہنچ جانے کے علاوہ کوئی دوسرا ہونا بھی نہیں چاہئے۔
دوران طالب علمی تعلیم کے ساتھ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا انضمام اور ان کی سماجی اخلاقی ضوابط سے ہم آہنگی کا ایک ضابطہ بنایا جانا چاہئے جس سے ایک طالب علم دوران تعلیم ہی اپنی عملی زندگی کے بنیادی اصولوں سے رو برو ہو سکے۔ صرف نصابی کتابیں پڑھ کر امتحان کو اونچے نمبروں سے پاس کر لینا کامیابی کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ بچے اگر امتحان میں بہت زیادہ نمبر لائیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان بچوں کی پرداخت قدرتی ماحول کے بجائے ایک مصنوعی ماحول اور تربیت کے خودساختہ پیمانے کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ ایسے بچے جو بہت زیادہ نمبر لانے کے لئے مشہور ہوتے ہیں وہ محلے پڑوس اور خود اپنے والدین کے عزیزوں اور رشتہ داروں سے بھی بیگانگی کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نصاب کی کتابوں میں ہر وقت غوطہ زن رہنے کی وجہ سے یہ طلبہ اپنے ہمجولیوں کے ساتھ کھیل کود اور طفلانہ شرارتوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں. قدرت کی صناعی پر غور و خوض کرنے، فطرت کے مظاہر سے لطف اندوز ہونے اور ان قدرتی مظاہر کے ساتھ اپنے تعلق کو جوڑنے کی صلاحیت سے بھی تقریباً نامانوس ہی ہوتے ہیں۔ غیر نصابی کتابیں، کہانیاں ناولٹ اور نظمیں پڑھنے میں دل چسپی نہیں رکھتے جو ان کی ذہنی پرداخت اور تخیل کے پرواز کے لئے بہت ضروری تسلیم کی جاتی ہیں۔ ایسے طالب علم جو صرف نصابی کتابوں اور ان کے امتحانات تک ہی اپنے مطالعے کو محدود رکھتے ہیں ان میں انانیت اور خود پسندی کے عناصر بھی در آتے ہیں۔ پھر وہ چاہے انجینئر، ڈاکٹر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بنیں یا پیسہ کمانے کی کوئی اور مشین، وہ سماج اور معاشرے کی کسی بھی قسم کی خدمت اور رفاہی کاموں کے لئے مفید اور کار آمد نہیں ہو سکتے۔ اس طرح کے طلبہ عملی دنیا میں خود پرست اور خود ستائشی ہوتے ہیں، خود کو ہی سب سے زیادہ عقل مند اور تجربہ کار سمجھنے لگتے ہیں۔
ہمارے اسکولوں اور مدرسوں میں خواہ وہ کسی بھی میڈیم، اور اسٹریم کے ہوں ایک دئے ہوئے نصاب کو پورا پڑھا دینا ہی کامیابی اور تکمیل علم کی دلیل سمجھا جاتا ہے اور ایسے ہی اسکولوں کو معیاری درسگاہ کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے۔ یہی ہمارے نظام تعلیم کی کمزوری ہے لیکن یہ منتظمین اور اساتذہ کے لئے اچھے معیار کا پیمانہ اور پورے نظام تعلیم کا مقصد اور منشا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظریات میں بچے کی ذہنی پرداخت اور تخیل کی وسعت کے لئے نصاب کے علاوہ دوسرا کوئی پیمانہ نہیں ہے اور پرائمری سے لے کر سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری تک یہ نصاب اتنا بوجھل اور غیر ضروری اطلاعات و مواد سے بھرا ہوتا ہے جن کہ اس طالب علم کو عملی زندگی میں کبھی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
آج کل بچوں کو عملی زندگی میں متحرک رکھنے اور متاثر کرنے والے بہت سارے علوم اور صلاحتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں اسکول کی سطح پر متعارف کروانا اور عملی طور پر اس کی مشق بھی کروانا چاہئے لیکن ہمارے اسکولی نصاب میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ٹائم مینجمنٹ، اور منی مینجمنٹ کس چڑیا کا نام ہے ہمارے بارہویں تک کے بچوں کو پتہ نہیں ہوتا لیکن وہ دنیا کے نقشے میں یوریشیا کی ارضی پلیٹ اور چندر گپت اور سمدر گپت کے ساتھ چانکیہ کے باپ کا نام بھی جانتے ہوں گے۔ خود اعتمادی، جذباتی ذہانت اور اس کا کنٹرول، مقاصد کا علم اور اس کی حصول یابی، اسی طرح مطابقت یا موافقت پذیری، معاشرتی ہم آہنگی جیسے کئی اہم موضوعات ہوتے ہیں جنہیں اسکول کی سطح پر ہی بچوں کو ضرور بتایا اور پڑھایا جانا چاہئے، لیکن یہ ہمارے تعلیمی نظام کا المیہ ہی کہا جائے گا کہ غیر ضروری اطلاعات اور معلومات سے نصاب کو بوجھل بنا دیتے ہیں لیکن معاشرت اور انسانی زندگی کے عملی پہلوؤں کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنانے سے ہمیشہ گریز کرتے ہیں۔