مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةزبان و بیانكيا قرآن كريم ميں گرامر كى غلطى ہے؟

كيا قرآن كريم ميں گرامر كى غلطى ہے؟

سوال
مشفق مكرم جناب مولانا رضاء الحق صاحب ناظم جامعۃ الہدى نوٹنگھم مدظلہ العالى كى صاحبزادى ہيں استاذه صفيہ زيد مجدہا، جو عالمہ فاضلہ ہيں، عربى زبان اور حديث شريف كى بہترين معلمہ ہيں، ميرى تلمیذه بھى ہيں، اور انہيں بہت سے مشائخ سے اجازت حديث حاصل ہے، انہوں نے درج ذيل سوال كيا:
نبى اكرم ﷺ كے امّى ہونے كا كيا مطلب ہے؟ كيا قرآن كريم كى كتابت كے معاملہ ميں آپ ﷺ سے كوئى كوتاہى ہوئى ہے؟ كيا قرآن كريم ميں گرامر كى كوئى غلطى ہے؟ كيا قرآن كريم ميں رسم الخط كى كوئى غلطى ہے؟ لَيَكُونًا مِّنَ ٱلصَّـٰغِرِينَ (سورة يوسف، آيت ٣٢)، اور لَنَسْفَعًۢا بِٱلنَّاصِيَةِ (سورة العلق آيت ١٥) ميں نون الف كى شكل ميں كيوں لكها گيا ہے؟
جواب
آپ كے يہ سوالات اہم ہيں۔ ان كى اہميت كے پيشٍ نظر ہر سوال كو ذيلى عنوان بنا كر جواب ديا جا رہا ہے، تاكہ بات واضح ہو جائے اور ہر قسم كى غلط فہمى دور ہو جائے۔
نبى اكرم ﷺ كے امّى ہونے كا كيا مطلب ہے؟
ہم لفظ امّى كے اشتقاق سے بحث نہيں كريں گے، كتب لغت و تفسير ميں اس كى مكمل تحقيق موجود ہے۔ يہاں صرف اس كا وه مفہوم بتانا مقصود ہے جو قرآن كريم كے اطلاق سے معلوم ہوتا ہے۔
يہود كے پاس آسمانى كتابيں يكے بعد ديگرے نازل ہوتى رہيں۔ وه انہيں پڑھتے تھے، اور انہيں لكھتے بھى تھے۔ دوسرى قوموں كے مقابلہ ميں يہود زياده پڑھے لكھے تھے، تا ہم ان ميں بھى كچھ ايسے لوگ تھے جو پڑھنا لكھنا نہيں جانتے تھے۔ يہود كے اس طبقہ كو قرآن كريم نے امّى كہا ہے: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّآ أَمَانِىَّ (سورة البقرة، آيت ٧٨)۔ عرب يہود كے بر عكس تھے، ان كى اكثريت لكھنا پڑھنا نہيں جانتى تھى، اسى لئے من حيث القوم ان پر اميين كا لقب غالب آگيا۔
لفظ امّى عالم كا مقابل نہيں، بلكہ قاری/كاتب كا مقابل ہے، عالم كا مقابل جاہل ہوتا ہے، يعنى ايک امّى شخص گرچہ لكھنا پڑھنا نہ جانتا ہو پھر بھى عالم ہو سكتا ہے۔ اسلام ميں كتنے نابينا علماء گزرے ہيں، مثلاً قتاده بن دعامہ سدوسى (متوفى سنہ ١١٧ھ) جو امّى ہونے كے باوجود حديث، تفسير، فقہ اور تاريخ چاروں ميدانوں ميں علامہ شمار ہوتے تھے۔
نبى اكرم ﷺ بھى عام عربوں كى طرح پڑھنا لکھنا نہيں جانتے تھے، اسى وجہ سے آپ كا لقب امّى ہے۔ اللہ تعالى نے قصداً آپ كو امّى ركھا تاکہ جب قرآن كريم كى وحى نازل ہو تو كسى لغو پسند اور باطل دوست كو يہ كہنے كا موقع نہ ملے کہ يہ كتاب آپ نے خود وضع كى ہے، وَمَا كُنتَ تَتْلُوا۟ مِن قَبْلِهِۦ مِن كِتَـٰبٍ وَلَا تَخُطُّهُۥ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّٱرْتَابَ ٱلْمُبْطِلُونَ (سورة العنكبوت، آيت ٤٨)۔ يہ وہى حكمت ہے جو مريم عليہا السلام كو غير شادى شده ركھنے ميں تھى، تاکہ جب عيسى عليہ السلام كى پيدائش بغير باپ كے ہو تو كسى دجال و فريبى كو اس آيت كبرى ميں تشكيک كى گنجائش باقى نہ رہے۔
امّى ہونے كے ساتھ نبى اكرم ﷺ علم و حكمت كے بلند ترين مقام پر فائز تھے۔ آپ كى حديثيں اور آپ كے عملى اقدامات اس حكمت كے شاہد عدل ہيں۔ نيز يہ بات خود كسى معجزه سے كم نہيں کہ ايک نبى امّى كى كتاب نے تمام آسمانى كتابوں پر خط نسخ پھير ديا۔ شيخ سعدى كا يہ شعر آب زر سے لكھنے كے قابل ہے:
يتيمے کہ نا خوانده قرآں درست
كتب خانۂ ہفت ملت بشست
كيا قرآن كريم كى كتابت كے معاملہ ميں آپ ﷺ سے كوئى كوتاہى ہوئى ہے؟
قرآن كريم كى حفاظت كا جو غير معمولى اہتمام ہوا ہے وه اہتمام كسى آسمانى و غير آسمانى كتاب وصحيفہ كے لئے نہيں ہوا۔ يہ كتاب خدا كے يہاں لكھى ہوئى محفوظ ہے، اسى نوشتہ سے حضرت جبريل عليہ السلام بحكم الہى حسب ضرورت مختلف آيات نبى اكرم ﷺ كو پہنچاتے تھے۔ آپ انہيں ياد كر كے ترتيب الہى كے مطابق نمازوں ميں ان كى تلاوت فرماتے، اور اپنے معتمد اصحاب كے ذريعہ اسى ترتيب مقدس كے مطابق انہيں اپنے پاس لكھوا كر محفوظ فرماتے۔ بہت سے صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نبى اكرم ﷺ كے پاس محفوظ صحف كى نقليں اپنے اپنے پاس ركھتے تھے۔ صحيح مسلم ميں حضرت ابو سعيد الخدرى رضی اللہ عنہ كى روايت ہے کہ نبى اكرم ﷺ نے فرمايا: لا تكتبوا عني، ومن كتب عني غير القرآن فليمحه۔ جس سے ہمارى بات كى تائيد ہوتى ہے۔
كتابتِ كلام الہى كا شرف متعدد صحابہ كرام رضی اللہ عنہم كو حاصل ہوا۔ آخر ميں زياده تر زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ نے يہ خدمت انجام دى۔ مختلف قرائن سے يہ بات واضح ہوتى ہے کہ رسم الخط ميں اس وقت يكسانيت تھى، بعد ميں جب حضرت ابو بكر صديق رضی اللہ عنہ كے عہد ميں لكھى ہوئى شكل ميں ايک مصحف ميں قرآن كو جمع كرنے كى نوبت آئى تو يہ كام صرف زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ نے كيا۔ انہوں نے دوسرے كاتبين وحى كے متعلق رسم الخط كے سلسلہ ميں كوئى اختلاف نقل نہيں كيا۔ يوں رسم كے معاملہ ميں ہر حيثيت سے ايک ہم آہنگ نسخہ تيار ہو گيا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قريش كے لہجہ پر سب كو متحد كرنے كا عظيم كارنامہ انجام ديا۔ اس وقت بھى اصل كاتب زيد بن ثابت رضی اللہ عنہ ہى تھے۔ ميں نے جمع قرآن كى پورى تاريخ مستند حوالوں سے اپنى كتاب مبادئ في اصول التفسير ميں نقل كردى ہے، جسے تفصيل دركار ہو وه اس مختصر كتاب كا مطالعہ كرلے۔
كيا قرآن كريم ميں گرامر كی كوئى غلطى ہے؟
قرآن كريم عربى زبان كا اعلى نمونہ ہے۔ اس كى گرامر وہى ہے جو اس عہد كے محفوظ اشعار، خطب و امثال كى ہے۔ بعد ميں ائمۂ نحو نے انہيں كى روشنى ميں عربى زبان كے قواعد جمع کئے۔ سيبويہ نے الكتاب ميں جس طرح عربى زبان كے قواعد تفصيل سے مرتب كئے ہيں وه خود كسى معجزه سے كم نہيں۔
دوسرى صدى ہجرى ميں نحو كے دو مضبوط مركز ظہور پزير ہوئے، ايک بصره، دوسرے كوفہ۔ سيبويہ كى مذكوره كتاب ائمۂ بصره كى نحوى ترجيحات كى نمائنده ہے۔ يہ دونوں مراكز گرامر كے اعتبار سے قرآن كريم كے بلند ترين معيار كے گواه ہيں، اور اس كى ہر آيت كو فنى لحاظ سے شک و شبہہ سے بالا تر سمجھتے ہيں، تا ہم ان دونوں مراكز ميں نحوى توجيہ كا اختلاف ضرور ہے۔ نحوى توجيہ كى حيثيت زبان كے فلسفہ كى ہے، اس ميں اختلاف سے اصل زبان پر اثر نہيں پڑتا۔ نحوى توجيہ كا يہ اختلاف بہت تھوڑى سى آيات ميں ہے۔ بعد كے علمائے نحو كبھى ايک توجيہ كو راجح قرار ديتے ہيں، اور كبھى دوسرى توجيہ كو۔ بالعموم بصره كى توجيہات ہى راجح قرار پاتى رہى ہيں۔ اس كى ايک وجہ يہ ہے کہ الكتاب كى تصنيف كے بعد يہى اسكول غالب ہو گيا۔ ميں نے عربى ميں ايک دو مضمون لكھے ہيں جن ميں كوفہ كى بعض توجيہات كو بصره كى توجيہات پر راجح قرار ديا ہے۔
بعضے وه لوگ جن كى عربى گرامر سے واقفيت محدود ہے وقتاً فوقتاً قرآن كريم كے متعلق گرامر كى غلطى كا شوشہ چھوڑ ديتے ہيں، جسے سن كر انسان كو صرف ہنسى آتى ہے۔ ايک عالم ميرے پاس آئے اور كہنے لگے کہ قرآن كريم عربى گرامر كے مطابق نہيں ہے۔ ميں نے سوال كيا کہ كوئى مثال پيش كريں، اس پر وه لگے بغليں جھانكنے۔ جب ميں نے بہت اصرار كيا تو انہوں نے سورۂ يوسف كى ايک آيت پيش كى۔ ميں نے عرض كيا کہ اگر آپ نے صَرف كى پہلى كتاب يا ميرى كتاب مبادئ التصريف پڑھى ہوتى تو يہ اشكال نہ كرتے۔ جب ميں نے ان كى غلطى كى تشريح كى تو انہيں بہت خفت ہوئى۔ اگر كسى مؤمن كى تذليل كے گناه كا ڈر نہ ہوتا تو ميں ان كا نام ظاہر كر ديتا۔
كيا قرآن كريم مين رسم الخط كى كوئى غلطى ہے؟
رسم الخط كے متعلق ايک بات اچھى طرح ذہن نشيں كرليں کہ اس ميں ہر زبان كى طرح عربى زبان ميں بھى تغير آتا رہا ہے، تا ہم اور زبانوں كے مقابلہ ميں عربى رسم الخط ميں مرور ازمنۂ طويلہ كے على الرغم بہت كم تبديلى ہوئى ہے۔ نيز تبديلى كے باوجود پہلى شكليں بھى رواج پزير رہى ہيں۔ بعض مثاليں سب كو معلوم ہيں، ان ميں سے ايک يہ ہے کہ پہلے الف لكھنے كا شيوع كم تھا اسے فتحہ كى طرح ہى ايک حركت سمجھا جاتا تھا۔ قرآن كريم ميں بھى جب اشتباه كا انديشہ نہ ہوتا تو الف نہ لكھا جاتا، مثلاً “قال” كو “قل” لكھتے۔ ہندوستان والے قاف كے اوپر ہلكا سا الف لکھ ديتے ہيں جسے فتحہ اشباعی یا كھڑا الف كہا جاتا ہے۔
تقريباً يہى حال آپ كى دى گئى دونوں مثالوں لَيَكُونًا مِّنَ ٱلصَّـٰغِرِينَ (سورة يوسف، آيت ٣٢) اور لَنَسْفَعًۢا بِٱلنَّاصِيَةِ (سورة العلق آيت ١٥) كا بھى ہے جن ميں نون الف كى شكل ميں لكھا گيا ہے۔
فعل مضارع، امر اور نہى كے آخر ميں تاكيد كے طور پر دو قسم كے نون آتے ہيں۔ ايک نون مشده (نّ)، دوسرے نون ساكنہ (نْ)۔ صوتى طور پر نون ساكنہ اور تنوين ميں كوئى فرق نہيں، تنوين پر وقف كرنے كى دو شكليں ہيں، ايک يہ کہ جس اسم پر تنوين ہے وه مضموم يا مكسور ہے تو ان دونوں حالتوں ميں اس اسم كے آخر پر سكون آئے گا، جيسے “قال محمدٌ” اور “آمنت بمحمدٍ”، حالت وقف ميں كہيں گے “قال محمدْ” اور “آمنت بمحمدْ”، جبكہ فتحہ كے موقع پر تنوين الف سے بدل جائے گى جيسے “أرسل اللہ محمدًا”، حالت وقف ميں كہيں گے “أرسل اللہ محمدا”۔
مضارع كے نون ساكنہ سے پہلے اگر فتحہ ہو تو وقف ميں وه نون بھى الف ہو جاتا ہے، ميمون بن قيس الأعشى نے كہا ہے:
وذا النُّصُبِ المنصوبَ لا تَنْسُكَنَّه
ولا تعبُدِ الأَوثانَ واللهَ فاعبُدَا
“فاعبدا” اصل ميں “فاعبدنْ” ہے، وقف ميں نون الف ہو گيا۔ وقف ميں نون تاكيد كے الف ہو جانے كى مثاليں بہت ہيں جنہيں كتب تفسير، لغت و نحو ميں ديكھا جا سكتا ہے۔
اسى لئے اس نون كو الف كى شكل ميں لكھا جاتا تھا۔ قرآن كى مندرجہ بالا دونوں مثالوں ميں “ليكوناً” اور”لنسفعاً” الف سے اسى لئے لكھا گيا ہے کہ حالت وقف ميں يہ الف ہو جاتا ہے، يعنى “ليكونا” اور”لنسفعا”۔
شروع ميں اس طرح كے نون كو الف كى شكل ميں لكھنے كا رواج تھا، بعد ميں بعض لوگوں نے كہنا شروع كرديا کہ تنوين اسم كى علامت ہے، اس لئے مضارع كے نون كو نون ساكنہ ہى لكھيں، ورنہ يہ نون تنوين سے مشتبہ ہو جائے گا۔ اس رائے كو اہل كوفہ نے راجح قرار ديا۔ اہل بصره كا مسلک يہى ہے کہ مضارع كا وه نون جس سے پہلے فتحہ ہو اسے الف كى شكل ميں لكھا جائے گا۔ سيبويہ نے الكتاب ميں يہى بات كہى ہے، اور دوسرے نحوى بھى يہى بات لكھتے رہے ہيں۔ مشہور امام نحو ابن ہشام نے شرح قطر الندى كى بحث وقف ميں لكھا ہے: “نون التوكيد الخفيفة الواقعة بعد الفتحة كقوله تعالى لنسفعا وليكونا وقف الجميع عليها بالألف”۔
ابن ہشام نے مزيد لكھا ہے: “لما ذكرت الوقف على هذه الثلاثة ذكرت كيفية رسمھا في الخط استطرادا فذكرت أن النون في المسائل الثلاث تصور ألفا على حسب الوقف وعن الكوفيين أن نون التوكيد تصور نونا”۔
يعنى جن شكلوں ميں نون حالت وقف ميں الف ہو جاتا ہے اسے الف كى شكل ميں لكھا جائے گا، البتہ كوفيوں كو اختلاف ہے، وه نون تاكيد ساكنہ كو نون لكھتے ہيں۔
اس جواب كو مزيد حوالوں سے گرانبار نہيں كرنا چاہتا، مجھے يقين ہے کہ اس تفصيل سے بات واضح ہو گئى ہوگى، و للہ الحمد۔
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں