﷽
ایک عالم کی جانب سے درج ذیل سوال آیا ہے:
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ مولانا ڈاکٹر اکرم ندوی کے مضامین سے بہت سی علمی و تحقیقی پیچیدگیاں کھلتی رہتی ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر ندوی کا قیام طویل عرصہ سے انگریز ملک میں ہے اور دیگر ممالک کے اسفار کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب شرق و غرب کے مسلمانوں کے دینی حالات سے بخوبی واقف ہیں، میرا سوال اکرم ندوی صاحب سے یہ ہے کہ موجودہ حالات میں خصوصاً مسلمان ارتداد و الحاد کی طرف جس تیزی سے جا رہا ہے، ایسے تشویش ناک ماحول میں ایک عام جدید تعلیم یافتہ مسلمان مرد و عورت کو اپنے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کے ساتھ دینی، علمی و عملی ترقی کے لئے کن کتب سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے؟ بہتر ہوگا کہ آپ اردو داں اور انگریزی داں جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے ایک مخصوص نصاب متعین فرما دیں۔
بندہ سلیمان مظاہری ندوی، ساکن کاروار، کرناٹک۔
جواب
آپ کا سوال آپ کے نیک ہونے کی شہادت ہے۔ موجودہ حالات میں کسی عالم دین کی جانب سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے شفقت و ہمدردی، اس کے دین کی فکر اور اسے ارتداد سے روکنے کی سعی دل کی پاکیزگی کی دلیل ہے۔ آپ کے سوال نے مجھے بیحد متاثر کیا۔ اس وقت مجھے کئی مشغولیتیں ہیں، اور عربی و اردو میں دسیوں سوالات کے تقاضے ہیں، لیکن میرے نزدیک ان ساری چیزوں میں آپ کا سوال زیادہ اہم اور اولین ترجیح کا مستحق ہے۔ میں خود ایک عرصہ سے ایسے ہی طلبہ و طالبات کے درمیان کام کر رہا ہوں۔ ان میں بڑی تعداد مرتد تھی، دوبارہ اسلام میں آگئی ہے، کچھ لوگ ارتداد کے دہانے پر تھے ان کے شبہات دور ہو گئے، بلکہ کچھ غیر مسلم تھے اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ سب صرف اللہ تعالی کے فضل کا نتیجہ ہے۔ اس راہ میں مجھے جو تجربات حاصل ہوئے ہیں انہیں کی روشنی میں یہ جواب لکھ رہا ہوں۔ ارتداد کے موضوع پر انگریزی میں میرا ایک مضمون ہے جسے مرتد لوگوں نے وسیع پیمانہ پر پڑھا اور پھر مجھ سے رجوع کیا، آپ وہ مضمون بھی پڑھ لیں۔ آپ کے سوال کا جواب چونکہ تفصیل طلب ہے، اس لئے میں نے آسانی کے لئے عناوین قائم کر دیئے ہیں۔
کیا نہ کریں
جب آپ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے ملیں اور ان کے سوالات کا جواب دینے کی کوشش کریں تو دو کام ہرگز ہرگز نہ کریں۔
ایک، ان سے مناظرہ نہ کریں، اور نہ ہی مناظرانہ انداز اختیار کریں۔ ارتداد سے روکنے، شکوک و شبہات کے ازالہ اور صداقتوں کی تشریح کے لئے مناظرہ سم قاتل ہے۔ اگر آپ صحیح معنی میں داعی اور معلم ہیں تو جیتنے اور دوسروں کو ہرانے کی خواہش کو مغلوب کریں، خواہ اس کی وجہ سے کتنی ہی ذلت و رسوائی کا سامنا ہو، اللہ تعالی کے لئے اسے گوارا کریں۔ کسی اور موقع سے میں ان شاء اللہ مناظرے کی خرابیاں تفصیل کے ساتھ لکھ دوں گا۔
دوسرے، ان کے سوالات کی تحقیر نہ کریں، ان کی تجہیل نہ کریں کیوں کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی پڑھا لکھا طبقہ ہے، اس کے اپنے دلائل ہیں۔ تحقیر و تجہیل کے رویے سے آپ کے اور آپ کے مخاطب کے درمیان ایک بہت بڑی دیوار قائم ہو جائے گی جس کے بعد آپ کا کوئی جواب کارگر نہ ہوگا۔
کیا کریں
آپ ان کے سوالات اچھی طرح سنیں، ان سوالات کی اہمیت کا اعتراف کریں اور صاف صاف کہیں کہ آپ بھی ان سے سیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی بات سمجھنا چاہتے ہیں۔ آپ ان کے کسی سوال کا جواب دینے کے بجائے درج ذیل تین کام کریں:
احترام
پہلا کام یہ ہے کہ ان کا احترام کریں، ان سے محبت و نرمی سے پیش آئیں، ان کو کھانے پر مدعو کریں اور ان سے اچھی طرح دوستی کریں۔ ان کی کوئی دنیوی ضرورت ہو تو اسے پورا کرنے کی کوشش کریں، ان میں سے کوئی بیمار ہو جائے تو اس کی تیمارداری کریں۔
آپ نیک لوگوں کی ایک ٹیم تیار کریں جن میں کچھ مرد ہوں اور کچھ خواتین۔ مرد حضرات مردوں سے رابطہ کریں اور خواتین طالبات اور دوسری پڑھی لکھی عورتوں میں کام کریں۔ آپ کی یہ ٹیم اسلام پر عمل پیرا ہو، اچھے کردار کی حامل اور اخلاق حسنہ سے متصف ہو۔ یہ وہ پہلا کام ہے جسے آپ ہمیشہ ترجیح دیں۔
دعوت
دوسرا کام دعوت ہے، یعنی آپ یونیورسٹیوں، کالجوں اور دوسرے سیکولر مراکز میں دعوتی پروگرام رکھیں جس میں اللہ تعالی کے اسماء و صفات، رسالت، یوم آخرت، شکر، عبادت وغیرہ موضوعات پر خطابات ہوں۔ آپ کبھی خدا کا وجود ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں، اور نہ اس قسم کے سوالات پر وقت صرف کریں۔ آپ خدا کی تخلیقات اور اس کی نعمتوں سے لوگوں کو متعارف کرائیں۔
ان پروگراموں میں سامعین کو سوالات کرنے کی مکمل آزادی ہو۔ آپ سوالات کے جوابات میں کبھی الزامی طریقہ نہ اختیار کریں، بلکہ سوال کی تعریف کر کے علمی و فکری انداز میں جواب دیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جب آپ تعلیم یافتہ طبقہ کو دعوت دے رہے ہوں تو آپ کی زبان اور آپ کا اسلوب عامیانہ ہرگز نہ ہو، بلکہ اپنے مخاطبین سے ان کی سطح کے مطابق گفتگو کریں۔
اس موضوع پر میری نگاہ میں سب سے اچھی کتاب ہے مولانا امین احسن اصلاحی کی دعوتٍ دین اور اس کا طریقۂ کار۔ میں نے اردو اور عربی میں اس موضوع پر اس سے اچھی کتاب نہیں دیکھی ہے۔ یہ کتاب میں نے بار بار پڑھی ہے اور کئی بار اسے پڑھایا بھی ہے۔ آپ اس کا مطالعہ کریں اور اپنی ٹیم کو ہدایت کریں کہ وہ بھی اس کا بار بار مطالعہ کریں۔ ساتھ ہی دو کتابیں اور بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک حسن البنّا شہید کی مذکرات الدعوۃ و الداعیۃ اور دوسرے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی حضرت مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت۔ ان دونوں کو بھی اپنی ٹیم کی تربیت کے کورس میں شامل کریں۔
تعلیم
تعلیمی نصاب کے متعلق چند بنیادی باتیں یہاں عرض کر دیتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس نصاب میں وہ کتابیں ہوں جو عقل انسانی کو مخاطب کرتی ہوں، کیوں کہ جب کوئی بات عقل میں بیٹھ جاتی ہے تو خواہ انسان کی جان چلی جائے اسے نہیں چھوڑتا۔ یورپ میں سائنسدان اپنے خیالات پر اتنی پختگی کے ساتھ قائم تھے کہ چرچ نے انہیں زندہ جلا دیا پھر بھی وہ اپنے خیالات سے دستبردار نہیں ہوئے۔ ارتداد کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ نئی نسل نے اسلام کو بحیثیت دین سمجھا ہی نہیں۔ وہ اسے کلچر کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، ظاہر ہے کلچر بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ دوسرے یہ کہ نصاب میں جو کتابیں ہوں وہ عصر حاضر کے تعلیم یافتہ طبقہ کی فکری سطح کے مطابق ہوں۔ تیسرے یہ کہ ان کی زبان ادبی ہو مگر ساتھ ہی آسان ہو۔ ان تینوں باتوں کی رعایت کرتے ہوئے مختلف موضوعات پر نصاب کا ایک خاکہ پیش کرتا ہوں۔
ترجمہ قرآن و تفسیر: اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں کتاب مولانا ابوالاعلی مودودی کی تفہیم القرآن (جلد ١، جلد ٢، جلد ٣، جلد ٤، جلد ٥، جلد ٦) ہے۔ آپ اسے نصاب کا حصہ بنائیں۔ جدید تعلیم یافتہ ذہن کو مخاطب کرنے کے لئے یہ مؤثر ترین تفسیر ہے۔
سیرت: اردو میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کی سیرتٍ رسولٍ اکرم، علامہ شبلی اور سید سلیمان ندوی کی سیرۃ النبی (جلد ١، جلد ٢، جلد ٣، جلد ٤) اور انگریزی میں ماٹن لٍنگز کی
عبادات: مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ارکانٍ اربعہ، مولانا مودودی کا رسالۂ دینیات، انگریزی میں راقم السطور کی تین جلدوں میں
فکر اسلامی: یہ موضوع بہت اہم ہے، اسے اچھی طرح پڑھایا جائے۔ اس سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے شبہات دور ہوں گے اور اسلام پر ان کے اطمینان میں اضافہ ہوگا۔ اس موضوع کی اہم کتابیں ہیں: مولانا مودودی کی تنقیحات اور خطبات، مولانا ابوالحسن علی ندوی کی ماذا خسر العالم، مولانا وحیدالدین خان کی مذہب اور جدید چیلنج۔ انگریزی میں محمد اسد کی کتاب Islam at the Crossroads
آج کل اسلام سے ارتداد کی ایک بنیادی وجہ عورتوں کے مقام کے متعلق غلط فہمی ہے۔ اس کے لئے راقم کی دو کتابیں مفید ہوں گی۔ ایک al-Muhaddithat: the women scholars in Islam
نیز خواجہ الطاف حسین حالی کی مسدس، اکبر الہ آبادی اور علامہ اقبال کے منتخب اشعار بھی نصاب میں داخل کریں۔ نصاب کو زیادہ بوجھل کرنا مناسب نہیں، آپ ان کتابوں پر اکتفا کریں۔ اگر آپ نے اخلاص اور محنت سے کام کیا تو ان شاء اللہ جلد ہی اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اللہ تعالی ہم سب سے اپنے دین کی خدمت کا کام لے۔