مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةفکر و نظرگوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

ندوہ میں کچھ طلبہ اپنی تقریروں کی ابتدا ہمیشہ چراغ مصطفوی و شرارۂ بولہبی کی ازلی ستیزہ کاری سے کرتے اور اسی دائرہ میں گھومتے رہتے۔ کچھ طلبہ ایسے بھی تھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے وصف سراجا منیرا سے چمٹے رہتے۔ یک رنگی ان کا مزاج بن گئی تھی، چنانچہ فارغ ہونے کے بعد بھی یہ لوگ جہاں کہیں تقریر کرتے تو وہی باتیں دہراتے رہتے۔ ان کو اس تکرار ممل کا اندازہ نہیں تھا، مگر سامعین کو تھا۔ ایک صاحب کا تو لقب ہی سراجا منیرا پڑ گیا تھا۔
علماء کی ایک تعداد صبح و شام تقلید کے لزوم اور غیر مقلدیت کے فتنہ پر گفتگو کرتی رہتی ہے۔ ان کی قوت شامہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی تحقیقی بات سنتے ہیں تو اس سے فورا غیر مقلدیت کی بو سونگھ لیتے ہیں۔ پھر دوسروں کو اس شخص سے ہوشیار کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں اور عوام الناس کو یہ کہہ کر اپنی خیر خواہی اور خلوص کا یقین دلاتے ہیں کہ غیر مقلدیت الحاد و زندقہ کا پہلا زینہ ہے۔ ان کا مطالعہ اتنا محدود ہوتا ہے کہ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جس بات کے خلاف وہ پروپیگنڈہ کی مہم چلا رہے ہیں وہی دراصل سلف صالحین کی رائے ہے، اور قرآن کریم اور سنت کے دلائل اسی کے مؤید ہیں۔
ایک بار میں نے اپنی تقریر میں عقل کی بات کہہ دی تو ایک مدرسہ کے بعض اساتذہ میرے پیچھے لگ گئے کہ اگر طلبہ سوچنے لگیں گے تو گمراہ ہو جائیں گے، آپ طلبہ کو گمراہ نہ کریں۔ ان مدعیان ہدایت نے اپنے ارد گرد ایک مصنوعی ہالہ بنا رکھا ہے، اس کے اندر وہ راحت محسوس کرتے ہیں، اور اپنے تلامذہ و متبعین کو بھی اسی تنگنائے میں محصور رکھنے پر اصرار کرتے ہیں۔ ان لوگون نے پسندیدہ کتابوں اور مصنفین کی ایک فہرست بھی بنا لی ہےکہ لوگ صرف انہیں پڑھیں، اور ان کے علاوہ کوئی اور چیز پڑھنے کا خیال بھی دل میں نہ لائیں۔ انہوں نے دنیا کی ہر چیز کو سفید و سیاہ میں تقسیم کر رکھا ہے، اور اس تقسیم باطل کو حتمی حق اور دائمی صداقت کے طور پر پیش کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح ایک طبقہ ایسا ہے جو آپ کی ہر بات سے اکابر کی بے حرمتی کا مفہوم نکال لے گا، اور پھر مجلس کی پوری گفتگو اکابر کے احترام و تقدس کے موضوع پر مرتکز ہو جائے گی۔ یہ لوگ اپنے جیسے مختلف افراد کے تجربے بھی بیان کریں گے کہ اکابر کے دامن سے وابسطہ رہنے میں کس قدر حفاظت ہے،  اور جس نے اکابر سے الگ ہو کر اپنی راہ نکالی اس کا دین خطرہ میں ہے۔ جنوبی  افریقہ میں مسلمان دو صدیوں سے آباد ہیں،۔ ان کی زبان انگریزی ہے جس میں وہ گفتگو کرتے ہیں اور جس میں اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اسی طرح انگلینڈ کے مسلمانوں کی نئی نسل کی زبان بھی انگریزی ہے۔ لیکن دونوں جگہوں کے عام مدرسوں میں ذریعۂ تعلیم اردو ہے۔ ذمہ داروں سے جب بھی سوال کیا گیاکہ آپ لوگ اردو سکھانے میں طلبہ کا وقت کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ انہیں انگیزی یا عربی میں کیوں نہیں پڑھاتے؟ تو جواب ملا کہ اگر یہ اردو نہیں جانیں گے تو اکابر سے دور ہو جائیں گے۔ ان سے عرض کیا گیا کہ آسان راستہ یہ ہے کہ آپ اکابر کی کتابیں انگریزی میں منتقل کر دیں، تو کہتے ہیں کہ ان کتابوں کا اصل مزہ اردو میں ہے، اکابر کی باتیں اردو میں پڑھنے سے ایک قسم کا نور منتقل ہوتا ہے، یہ نور کسی اور زبان میں نہیں پایا جاتا۔  جب کہ ان کے طلبہ شکایت کرتے ہیں کہ جو اردو ہمیں سکھائی جاتی ہےوہ اتنی کمزور ہوتی ہے کہ ہم اردو زبان کی کوئی معقول کتاب سمجھ نہیں سکتے، صرف اکابر کی عقیدت ہمارے دلوں میں راسخ کی جاتی ہے، ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ یہ اکابر کیا کہتے ہیں اور ان کے دلائل کیا ہیں۔
آخر ہم خود کو اس قدر غیر محفوظ کیوں سمجھتے ہیں؟ ہم نے خود کو ایک خول میں کیوں بند کر لیا ہے؟ ہم ایک مصنوعی تنگنائے کے اندر محصور ہونے پر کیوں مطمئن ہیں بلکہ فخر کناں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نے اپنے لئے ایک آرام دہ منطقہ بنا لیا ہے  اور اسی کے اندر ہمیں سکون ملتا ہے۔ آرام دہ منطقہ (Comfort zone) ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے کہ انسان اپنے اس محدود دائرہ میں مقید رہے جس سے وہ اچھی طرح واقف ہے، اور اس سے نکل کر کسی اور منطقہ  میں قدم رکھنے کی ہمت نہ کرے۔ اسے نئی چیزوں کے دریافت کرنے اور ان کو آزمانے کا حوصلہ نہ ہو، اور اسے اپنی صلاحیتوں اور خدا کی دی ہوئی نعمتوں پر اعتماد نہ ہو۔ جو لوگ اس منطقہ میں رہنے کے عادی ہو جاتے ہیں ان کی زندگی میں اکتاہٹ پیدا کرنے والی یکسانیت ہوتی ہے، وہ نہ کوئی نئی چیز سیکھتے ہیں اور نہ کسی کو سیکھنے دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کا حال یہ ہو وہ نہ اپنی ذات یا قوم کی کوئی مفید خدمت کر سکتے ہیں اور نہ کسی اصلاحی مشن کا حصہ بن سکتے ہیں، بلکہ جس قوم یا جماعت میں اس طرح کے افراد کا غلبہ ہو جاتا ہے وہ قوم یا جماعت بہت جلد مردہ ہو جاتی ہے۔
اس کے بالمقابل ایک دوسری اصطلاح ہے  ترقی پزیر منطقہ (Growth zone)۔ اس کا مطلب ہے آرام دہ منطقہ سے نکل کر نئی چیزوں کا تجربہ کرنا، جدید چیلنجوں کا سامنا کرنا، ترقی کی راہ میں پیش آنے والے خطرات کا ہنسی خوشی استقبال کرنا۔
دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اور غیر مسلم قوموں نے جب بھی ہجرت کی ہے، خطرات مول لے کر دوسرون سے اختلاط کیا ہے، اور افکار و نظریات کے تبادلہ کے مواقع کی قدر کی ہے انہوں نے علوم و فنون اور ترقی و عمران میں گرانقدر اضافہ کیا ہے۔ بخارا ایک زمانہ میں دنیا کے تجارتی قافلوں کا نقطۂ اجتماع تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ وہاں کے لوگ ذہنی بیداری اور علمی ترقی میں دنیا کی دوسری قوموں سے آگے تھے۔ امام بخاری کی نشونما اسی عقلی و فکری زرخیزی میں ہوئی، پھر انہوں نے مہذب دنیا کے اسفار کئے، اور نتیجتًا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر دنیا کی تہذیبوں میں نہیں۔
المادة السابقة
المقالة القادمة
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں