﷽
(نوٹ: اس میں نظریاتی جمہوریت کا تعارف پیش کیا گیا ہے، عملی طور پر جمہوری نظام میں جو مفاسد پائے جاتے ہیں، وہ اس مضمون کے دائرے سے باہر ہیں۔)
جمہوریت کا نام آتے ہی بے ساختہ زبانوں پر علامہ اقبال کا یہ شعر جاری ہو جاتا ہے:
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
یہ تنقید اس طرح دہرائی گئی کہ لوگوں نے آنکھ بند کر کے اس پر یقین کر لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تنقید میں سچائی بہت کم ہے۔ جمہوریت کو نمائندگان عوام کی حکومت ضرور کہا جاتا ہے، پر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس نظام کے تحت کام کرنے والے مصالح عامہ کے سارے ادارے اور کاروبار رائے شماری سے چلتے ہیں، جس میں بندے صرف گنے جاتے ہوں۔ بلکہ جمہوریت کی اخص خصوصیت یہی ہے کہ یہاں بندے تولے جاتے ہیں ، خدمات کا تعین علمی و عملی صلاحیت و قابلیت پر ہوتا ہے، تعلیمی اداروں میں اساتذہ و منتظمین کی تقرری، عدالتوں میں وکیلوں اور ججوں کا انتخاب، طبی، معاشی و تجارتی عملوں، فوجیوں اور سپاہیوں کی تعیناتی، غرض ہر شعبہ اہلیت و لیاقت کی بنیاد پر چلتا ہے۔
جمہوریت قدر نہیں
یہ بات ذہن میں رہے کہ جمہوریت بذات خود کوئی قدر (value)نہیں۔ تعلیم، عدل و مساوات، امن و تحفظ، معاشی خوشحالی وغیرہ قدریں ہیں، جمہوریت ان کے حصول کا وسیلہ ہے، جیسے خلافت، بادشاہت وغیرہ وسائل ہیں ۔ جمہوریت کا اسی طرح استحصال ہو سکتا ہے جس طرح خلافت و بادشاہت کا ہوتا رہا ہے۔
طاقت کا عدم ارتکاز
ملوکیانہ اور جاگیردارانہ نظاموں کی خرابیوں سے بچنے کے لئے جمہوریت کا نظریہ پیش کیا گیا۔ جمہوری نظام میں بھی وہ سارے مفاسد و نقائص پیدا ہو سکتے ہیں جن کے مداوا کے لئے اسے متعارف کرایا گیا تھا۔ اس لئے شروع سے اس کی کوشش کی گئی کہ کسی ایک شخص یا ایک ہیکل تنظیمی میں طاقت کا ارتکاز نہ ہو، اور طاقت کو تین شعبوں مقننہ، منفذہ، اور عدلیہ میں تقسیم کیا گیا۔
جمہوری نظام میں اصل طاقت کس کے پاس ہوتی ہے؟ یہ ایک راز اور “سر یخفی”ہے۔ طاقت کا یہ عدم ارتکاز جمہوریت کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔
جمہوریت کی کمزوریوں کی اصلاح
اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ جمہوریت میں طاقت مقننہ، منفذہ، اور عدلیہ میں منقسم ہوتی ہے۔ مقننہ کا انتخاب عوام کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس انتخاب میں ہر شہری کا ووٹ یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک نقص ہے، اور یہی وہ نقص ہے جس پر اقبال نے تنقید کی ہے۔ تاہم ایسا نہین ہے کہ یہ نقص اس نظام کے ماہرین پر مخفی رہا ہو، بلکہ وہ اس سے اچھی طرح واقف ہیں، اور اسے دور کرنے کی انہوں نے مختلف تدابیر اختیار کی ہیں۔
عوام کے نمائندگان قانون سازی کا عمل کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ یہ نمائندگان قانون سازی کے ماہر نہیں ہوتے، اور یہ ڈر ہے کہ یہ لوگ ایسے قوانین نہ بنائیں جو ملک و وطن کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں۔ اس نقصان کی تلافی کے لئے ایک اور ہیکل کی تشکیل کی گئی جسے ایوان بالا کہا جاتا ہے، جب کہ نمائندگان عوام کو ایوان زیریں کہا جاتا ہے۔ ایوان بالا کے ممبران ملک کے تمام بنیادی اداروں کی نمائندگی کرتے ہیں، ان میں قانون کے ماہرین، معاشیات کے ماہرین ، تعلیم کے ماہرین، اور ملک و وطن کی قدروں اور روایتوں کے محافظین ہوتے ہیں۔
ایوان زیریں میں قانون سازی سے پہلے بل پیش ہوتا ہے، اس کے فوائد تفصیل سے پیش کئے جاتے ہیں۔ ایوان زیریں کے ممبران کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ان تفصیلات کا مطالعہ کریں، ان کی باریکیوں کو ماہرین سے سمجھیں ، پھر اس کی موافقت یا مخالفت کریں۔ اس مرحلہ کے بعد بل پر بحث ہوتی ہے، ہر ایک کو اپنے اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع ہوتا ہے، پھر اس پر ووٹنگ ہوتی ہے۔
اس کے بعد یہ بل ایوان بالا میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایوان بالا چونکہ ماہرین پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے ان کی رائے کو وقعت ہوتی ہے، وہ اس پر غور کرتے ہیں، اور اگر انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ وہ بل ملک و وطن کے حق میں مفید ہے تو اسے منظوری دے دیتے ہیں، ورنہ رد کر کے ایوان زیریں میں دوبارہ بھیج دیتے ہیں۔ ایوان زیریں ان اعتراضات کی روشنی میں دوبارہ اس بل پر غور کرتا ہے، اگر اسے وہ اعتراضات تشفی بخش معلوم ہوتے ہیں تو بل کو وہیں پر ختم کر دیا جاتا ہے، ورنہ اسی طرح یا کچھ ترمیم کے بعد اس بل پر دوبارہ ایوان زیریں کے ممبران کی رائے لی جاتی ہے۔ اگر وہ اسے اکثریت سے منظور کرتے ہیں تو اسے دوبارہ ایوان بالا میں پیش کیا جاتا ہے۔ ایوان بالا کو دو بار بل واپس کرنے کا اختیار ہوتا ہے، تیسری بار اسے ہر حال میں منظور کرنا ہوتا ہے۔ پھر بل سربراہ مملکت (بادشاہ یا صدر) کے دستخط سے قانون بن جاتا ہے۔
اسلام اور جمہوریت
جمہوریت کا ایک پہلو اسلام سے معارض ہے، اگر اس میں ترمیم کر دی جائے تو جمہوریت اسلام کے لئے قابل قبول ہو سکتی ہے، اس پہلو کی تشریح یہ ہے:
اسلام میں چونکہ قانون سازی صرف اللہ کا حق ہے، اس لئے قانون بنانے کا مجاز نہ کوئی فرد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی ادارہ۔ ایوان زیریں کو دین کے مجمع علیہ اور مختلف فیہ امور میں تفریق کرنی ہوگی۔ مختلف فیہ معاملات میں ایوان زیریں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے، اور وہ کردار یہ ہے کہ ایوان زیریں کے ممبران کسی ایک پہلو کو ترجیح دینے پر غور کریں۔ اسی طرح ایوان زیریں ان انتظامی معاملات پر قانون بنا سکتا ہے جن کا تعلق مصالح عامہ سے ہے۔
اگر ایوان زیریں کی صلاحیت محدود کر دی جائے تو جمہوری نظام کی قباحت باقی نہیں رہے گی۔ ایوان زیریں کی صلاحیت کو محدود رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ عدلیہ کو مکمل آزادی و خودمختاری حاصل ہو، کسی کو بھی اس میں دخل اندازی کی اجازت نہ ہو۔ عدلیہ کی خودمختاری اس کی ضامن ہوگی کہ قران و سنت کی بالادستی قائم رہے، اور یہی اسلامی نظام کی بنیاد ہے۔
ایوان بالا کے نمائندگان میں دوسرے شعبوں کے ماہرین کے ساتھ علماء، فقہاء اور محدثین کی ایک بڑی تعداد لازمی قرار دے دی جائے۔ اس ایوان بالا کو اگر شوری کا نام دے دیا جائے تو نظام اسلامی کی یاددہانی ہوتی رہے گی۔
مزید برآں یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ عوامی نمائندگان کے لئے بنیادی دینی و دنیوی تعلیم کی قید لگا دی جائے۔ تعلیم کی قید مغرب میں عملاموجود ہے۔
خلاصہ
حاصل یہ ہے کہ جمہوریت میں صرف ایوان زیریں عوام کے انتخاب سے وجود میں آتا ہے، ملک کے دیگر تمام شعبے اور ادارے عوام کے دائرۂ انتخاب سے باہر ہوتے ہیں، ان میں ہر تقرری اہلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
جمہوریت بذات خود نہ اسلامی ہے اور نہ غیر اسلامی، اس کی حیثیت وسائل کی ہے، مقصد کی نہیں۔ اچھے مقاصد کے لئے اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس طرح برے مقاصد کے لئے استعمال ہوتی ہے۔