﷽
ایک سوال
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
محترم المقام ڈاکٹر مولانا محمد اکرم ندوی دامت فیوضہم، امید ہے کہ گرامی قدر بخیر و عافیت ہونگے۔
ڈاکٹر صاحب، ماشاء اللہ، آپ طویل عرصے سے انگلینڈ میں مقیم ہیں مختلف مشرقی و مغربی ممالک کا آپ نے علمی سفر کیا ہے، دینی و دنیوی علوم سے وابستہ افراد کی نفسیات اور ان میں پائی جانے والی کمی اور زیادتی سے آپ بھی واقف ہیں۔
اس وقت دیکھا یہ جارہا ہے کہ خالصتاً دینی علوم کے ماہرین کا اپنا اثر و رسوخ ایک مخصوص حلقہ تک ہی محدود ہوتا جارہا ہے۔ ان کے لئے عصری تقاضوں کو سمجھنا، اسلام کے خلاف اٹھنے والے اعتراضات اور ملحدین و مرتدین کے شبہات کا مدلل و مسکت جواب دینا، بغیر ان کی نفسیات اور زبان جانے ایک مشکل امر ہے۔
دوسری طرف خالصتاً عصری علوم کے ماہرین ہیں جن میں اسلام پر اعتماد کی کمی ہے اور بسا اوقات ان میں اسلامی شعائر پر اعتراضات جنم لیتے ہیں۔ دینی علوم کی ناواقفیت کی بنا پر یا صحیح دینی رہبری نہ ملنے کی وجہ سے ان میں دین بیزاری کا مرض بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔
لہذا ان تمام عوامل کے پیشِ نظر بصد احترام آپ سے یہ جاننا ہے کہ ایک مبتدی طالب علم کو دینی و دنیوی منافع مد نظر رکھتے ہوئے شروع ہی سے حصول علم کے لئے کون سی راہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے؟
العارض: سلیمان خان مظاہری ندوی کاروار کرناٹک۔
جواب
آپ كے سوال سے خوشى ہوئى۔ مسلمانوں كى تعليم كى فكر ملت كا بنيادى كام ہے۔ اس موضوع كے مختلف پہلوؤں پر ميں نے متعدد مضامين لکھے ہيں، يہ مضمون شايد ان سے كچھ مختلف ہوگا۔
ہميں پہلے يہ سمجھنا ہوگا کہ نصاب تعليم كا مقصد كيا ہوتا ہے؟ نصاب تعليم نئى نسل كو اپنے عہد اور ماحول كے لئے نفع بخش انسان كے روپ ميں تيار كرتا ہے، يعنى وه انسان جو معاصر اجتماعى و طبيعاتى علوم و فنون سے واقف ہو، انہيں مزيد ترقى دے سكے، اور ان كى روشنى ميں اپنى قوم كى خدمت كر سكے۔ اسلامى نصاب ميں اس جزو كے ساتھ ایک اور لازمى جزو ہوگا۔ اور وه ہے انسان كى ايسى ساخت و پرداخت كرنا کہ وه خدا كى بندگى كرے اور خود كو آخرت كى كاميابى كا اہل بنائے۔
مندرجہ بالا دونوں مقاصد كى روشنى ميں نصاب كى جزئيات و تفصيلات پر اچھى طرح غور كريں گے تو آپ كو اندازه ہوگا کہ نصاب تعليم كا جزو اعظم سيكولر ہوتا ہے۔ اسلام كى پورى تاريخ ميں يہى نصاب رہا ہے۔ مسلمانوں كى حكومتوں كے ہر دور ميں ہندوستان كا نصاب بھى اسى حقيقت كا عكاس رہا ہے۔ خود درس نظامى تقريباً اسى فيصد سيكولر تھا۔ ہندوستان كے قديم نصابہائے تعليم كے فارغين نے ہى تاج محل، لال قلعہ اور تمام پائيدار اور پر شكوہ عمارتيں بنائيں، شاہراہيں بنائيں، پل بنائے، حيرت انگيز قسم كے اصطرلاب بنائے، ملک كا معاشى نظام مستحکم كيا، عدليہ كو ترقى دى، ادب و شاعرى كو عروج پر پہنچايا، فلسفہ و حكمت كى ایک نئی دنيا كھولى، اور تصوف و طريقت كے رموز واشگاف كئے۔
ہميں پہلے يہ سمجھنا ہوگا کہ نصاب تعليم كا مقصد كيا ہوتا ہے؟ نصاب تعليم نئى نسل كو اپنے عہد اور ماحول كے لئے نفع بخش انسان كے روپ ميں تيار كرتا ہے، يعنى وه انسان جو معاصر اجتماعى و طبيعاتى علوم و فنون سے واقف ہو، انہيں مزيد ترقى دے سكے، اور ان كى روشنى ميں اپنى قوم كى خدمت كر سكے۔ اسلامى نصاب ميں اس جزو كے ساتھ ایک اور لازمى جزو ہوگا۔ اور وه ہے انسان كى ايسى ساخت و پرداخت كرنا کہ وه خدا كى بندگى كرے اور خود كو آخرت كى كاميابى كا اہل بنائے۔
مندرجہ بالا دونوں مقاصد كى روشنى ميں نصاب كى جزئيات و تفصيلات پر اچھى طرح غور كريں گے تو آپ كو اندازه ہوگا کہ نصاب تعليم كا جزو اعظم سيكولر ہوتا ہے۔ اسلام كى پورى تاريخ ميں يہى نصاب رہا ہے۔ مسلمانوں كى حكومتوں كے ہر دور ميں ہندوستان كا نصاب بھى اسى حقيقت كا عكاس رہا ہے۔ خود درس نظامى تقريباً اسى فيصد سيكولر تھا۔ ہندوستان كے قديم نصابہائے تعليم كے فارغين نے ہى تاج محل، لال قلعہ اور تمام پائيدار اور پر شكوہ عمارتيں بنائيں، شاہراہيں بنائيں، پل بنائے، حيرت انگيز قسم كے اصطرلاب بنائے، ملک كا معاشى نظام مستحکم كيا، عدليہ كو ترقى دى، ادب و شاعرى كو عروج پر پہنچايا، فلسفہ و حكمت كى ایک نئی دنيا كھولى، اور تصوف و طريقت كے رموز واشگاف كئے۔
آپ نے خالصتاً دينى علوم كے ماہرين كا لفظ استعمال كيا ہے جو ايک دردناک غلط فہمى كا نتيجہ ہے۔ جس نصاب كو آج درس نظامى كہا جا رہا ہے وه درس نظامى كا نہايت مصغر نسخہ ہے۔ جب نصاب ميں سيكولر اجزاء بھى ہوتے ہيں تو طلبہ زياده ذہين اور سمجھدار ہوتے ہيں۔ ان كے سامنے مقابلہ كى ايک دنيا ہوتى ہے۔ درس نظامى سے سيكولر حصہ نكالنے كے بعد جو لوگ پيدا ہو رہے ہيں ان كى حيثيت دست و پا بريده يا ناكاره انسان كى ہے۔ وه نہ كسى موضوع پر بات كر سكتے ہيں، اور نہ كوئى چيز مرتب طريقہ پر لکھ سكتے ہيں۔ يہ لوگ معمولى انٹرويو دينے كى بھى اہليت نہيں ركھتے۔ ان كى اكثريت صرف مسلک و اكابر كى رٹ لگاتى ہے۔ وه پرانے فتووں كى نقالى كو فتوى نويسى كہتے ہيں، اور شرمناک مناظروں اور مجادلوں كے ذريعہ مسلمانوں كو گمراه كرنے كا فريضہ انجام ديتے ہيں۔ ڈيڑھ سو سالوں سے ان لوگوں نے ہندوستان ميں صرف فرقہ پرستى كا بيج بويا ہے اور اسى بے بركت پودے كى آبيارى كى ہے۔
سوال يہ ہے کہ ہندوستان كے موجوده حالات ميں وه جامع نصاب كيسے نافذ ہو؟ اس كا ايک طريقہ كچھ لوگوں كے نزديک يہ ہے کہ ايسے ادارے بنائے جائيں جہاں دونوں قسم كے علوم و فنون كى تعليم ايک ساتھ ہو۔ یہ تجويز حقيقت پسندى سے بہت دور ہے۔ سيكولر علوم ميں اتنى وسعت ہو گئى ہے کہ پرائيویٹ مدرسوں ميں ان كى تعليم تقريباً ناممكن ہے۔ سائنس كى تعليم كے لئے جس طرح كى ليباريٹريز كى ضرورت ہے ہم انہيں فراہم نہيں كر سكتے۔ اس طرح كے ادارے بنا كر ہم صرف ناقص تعليم كو رواج ديں گے۔
اس لئے معقول راستہ يہى ہے کہ ہم معيارى عصرى اداروں ميں اپنے بچوں كو سيكولر تعليم دلوائيں، جہاں وه اپنے عہد كے علوم و فنون كى تحصيل كريں، اور دوسرے ہم وطنوں سے مقابلہ كريں۔ اس كے بعد ان كے ذہن روشن ہوں گے، ان پر نئے آفاق كھليں گے، اور وه مہذب معاشى مشاغل اختيار كرسكيں گے۔
دينى تعليم ہر روز شام كو ايک دو گھنٹے كے لئے ہو، يا ہفتہ ميں اتوار كے دن پانچ چھ گھنٹے اس كے لئے مخصوص كئے جائيں۔ اس جز وقتى نظام ميں عالميت كا نصاب بھى مكمل ہو سكتا ہے۔ اس نصاب ميں بنيادى تعليم عربى زبان و ادب كى ہو، اس كے بعد قرآن كريم، حديث شريف، سيرت اور اسلامى تاريخ كے مضامين پڑھائے جائيں۔ فقہ و اصول فقہ كا حصہ كم كر ديا جائے، اور عقيده و كلام كى جگہ دعوت اسلامى اور فكر اسلامى كا مضمون داخل درس كيا جائے۔
عالميت كے بعد اگر كسى كو تفسير، حديث، فقہ، كلام يا ادب ميں اختصاص كرنا ہو تو ازہر شريف، قرويين، زيتونہ، يا كسى اور مشہور يونيورسٹى ميں داخلہ لے اور وہيں سے پى ايچ ڈى كرے۔
عالميت تک كا نصاب ميں نے تيار كيا ہے، اور اس پر ايک عرصہ سے ہم عمل كر رہے ہيں۔ اگر آپ كى خواہش ہوگى تو آپ كو بھيج ديں گے۔
يہ سوچيں کہ مسلمانوں كے بچے امانت ہيں، كل قيامت كے دن ان كے متعلق حساب دينا ہوگا۔ ان كو ان كے عہد و ماحول سے بيگانہ نہ كريں، ان كے مستقبل كى فكر كريں، ان كى زندگيوں كو سنواريں، اور انہيں مہذب، صالح اور خدا ترس انسان بنائيں۔
سوال يہ ہے کہ ہندوستان كے موجوده حالات ميں وه جامع نصاب كيسے نافذ ہو؟ اس كا ايک طريقہ كچھ لوگوں كے نزديک يہ ہے کہ ايسے ادارے بنائے جائيں جہاں دونوں قسم كے علوم و فنون كى تعليم ايک ساتھ ہو۔ یہ تجويز حقيقت پسندى سے بہت دور ہے۔ سيكولر علوم ميں اتنى وسعت ہو گئى ہے کہ پرائيویٹ مدرسوں ميں ان كى تعليم تقريباً ناممكن ہے۔ سائنس كى تعليم كے لئے جس طرح كى ليباريٹريز كى ضرورت ہے ہم انہيں فراہم نہيں كر سكتے۔ اس طرح كے ادارے بنا كر ہم صرف ناقص تعليم كو رواج ديں گے۔
اس لئے معقول راستہ يہى ہے کہ ہم معيارى عصرى اداروں ميں اپنے بچوں كو سيكولر تعليم دلوائيں، جہاں وه اپنے عہد كے علوم و فنون كى تحصيل كريں، اور دوسرے ہم وطنوں سے مقابلہ كريں۔ اس كے بعد ان كے ذہن روشن ہوں گے، ان پر نئے آفاق كھليں گے، اور وه مہذب معاشى مشاغل اختيار كرسكيں گے۔
دينى تعليم ہر روز شام كو ايک دو گھنٹے كے لئے ہو، يا ہفتہ ميں اتوار كے دن پانچ چھ گھنٹے اس كے لئے مخصوص كئے جائيں۔ اس جز وقتى نظام ميں عالميت كا نصاب بھى مكمل ہو سكتا ہے۔ اس نصاب ميں بنيادى تعليم عربى زبان و ادب كى ہو، اس كے بعد قرآن كريم، حديث شريف، سيرت اور اسلامى تاريخ كے مضامين پڑھائے جائيں۔ فقہ و اصول فقہ كا حصہ كم كر ديا جائے، اور عقيده و كلام كى جگہ دعوت اسلامى اور فكر اسلامى كا مضمون داخل درس كيا جائے۔
عالميت كے بعد اگر كسى كو تفسير، حديث، فقہ، كلام يا ادب ميں اختصاص كرنا ہو تو ازہر شريف، قرويين، زيتونہ، يا كسى اور مشہور يونيورسٹى ميں داخلہ لے اور وہيں سے پى ايچ ڈى كرے۔
عالميت تک كا نصاب ميں نے تيار كيا ہے، اور اس پر ايک عرصہ سے ہم عمل كر رہے ہيں۔ اگر آپ كى خواہش ہوگى تو آپ كو بھيج ديں گے۔
يہ سوچيں کہ مسلمانوں كے بچے امانت ہيں، كل قيامت كے دن ان كے متعلق حساب دينا ہوگا۔ ان كو ان كے عہد و ماحول سے بيگانہ نہ كريں، ان كے مستقبل كى فكر كريں، ان كى زندگيوں كو سنواريں، اور انہيں مہذب، صالح اور خدا ترس انسان بنائيں۔