﷽
اسلامی مراجع، اسلامی تاریخ اور علماء کی تحریروں اور تقریروں میں جب اسلام کا لفظ مستعمل ہوتا ہے تو ہمیشہ ایک معنی میں استعمال ہوتا ہے، اور عام لوگ جو اس حقیقت سے واقف نہیں کنفیوژن کا شکار ہو جاتے ہیں، اور اس کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں ایک قسم کا بیان ہوتا ہے وہاں دوسرے قسم کی خصوصیات تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور جہاں دوسری قسم کا ذکر ہوتا ہے وہاں پہلی قسم کے احکام کا اجراء کرنے لگتے ہیں۔
اس مختصر تمہید کے بعد عرض ہے کہ بنیادی طور پر اسلام کی دو قِسمیں ہیں۔
پہلی قسم
پہلی قسم حقیقی اسلام کی ہے۔ یہ وہ اسلام ہے جس کا خدا نے اپنے بندوں سے مطالبہ کیا ہے، اسی کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے: إن الدين عند اللہ الإسلام۔ حقیقی اسلام اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ ایمان کا تعلق علم و عقل سے ہے۔ اس کے بعد ایمان دل میں داخل ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں دل خدا کے سامنے جھک جاتا ہے۔ دل کے اسی جھکنے کو اسلام کہا جاتا ہے۔ جب دل مسلمان ہو جاتا ہے تو سارے اعضاء کو خدا کی عبادت و اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ اسی اسلام سے پانچوں ارکان ناشی ہوتے ہیں۔ شہادتیں زبان پر جاری ہوتے ہیں، نماز قائم کی جاتی ہے، زکات ادا کی جاتی ہے، روزے رکھے جاتے ہیں اور حج کیا جاتا ہے۔ اور اگر ایمان نہ ہو تو ارکان خمسہ پر عمل حقیقی اسلام نہیں شمار ہوگا۔
حقیقی اسلام پر جنت اور خدا کی قربت کا وعدہ ہے۔ اس کے مدارج بے شمار ہیں، سب سے اعلی درجہ پیغمبروں کا ہے۔ یہی وہ اسلام ہے جس کی وصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کی تھی۔ اسلام کی یہ قسم صرف خدا کے علم میں ہوتی ہے، کیوں کہ وہی عقل و قلب کے احوال سے واقف ہے۔ اس کے جانچنے کا معیار بندوں کو نہیں دیا گیا ہے۔ قیامت کے روز ہر انسان کا الگ الگ فیصلہ ہوگا۔ جماعتوں اور مسلکوں سے انتساب وہاں کسی کام نہیں آئے گا۔ جو لوگ اس اسلام پر پورے اتریں گے ان میں سے کچھ حنفی ہوں گے، کچھ مالکی ہوں گے، کچھ اہل حدیث ہوں گے، کچھ سلفی ہوں گے، کچھ بریلوی ہوں گے، اور کچھ کسی اور مسلک کے ہوں گے، جب کہ ان مسلکوں کی ایک بڑی جماعت اس اسلام پر پوری نہیں اترے گی، یعنی حقیقی اسلام مسلک و جماعت سے انتساب کے تابع نہیں۔
دوسری قسم
دوسری قسم ظاہری اسلام کی ہے۔ اس دنیا کے اندر مسلمان اور غیر مسلم دونوں ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ مسلمانوں کے باہمی تعامل کی شکلیں غیر مسلموں کے ساتھ تعامل سے مختلف ہیں۔ ہم کیسے سمجھیں گے کہ کون مسلمان ہے اور کون مسلمان نہیں ہے؟ حقیقی اسلام کو معیار نہیں بنایا جا سکتا، کیوں کہ اس کا تعلق عقل و دل سے ہے، اور عقل و دل کے حالات سے صرف اللہ تعالی واقف ہے۔ اس لئے ظاہری چیزوں کو اسلام کی علامت بنا دیا گیا۔ یہ علامتیں دنیا کے تعامل کی غرض سے ہیں، ضروری نہیں کہ جس کے ساتھ ہم اس دنیا میں مسلمان کا معاملہ کریں وہ خدا کے یہاں بھی مسلمان ہو۔ بہت سے لوگ جو ظاہری اعتبار سے مسلمان ہیں وہ منافق بھی ہو سکتے ہیں۔
یہ ظاہری علامتیں زمان و مکان کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں، تاہم کچھ علامتیں دائمی ہیں مثلاً نماز، اذان، کلمہ پڑھنا، حلال کھانا، مردوں کے لئے ختنہ کا ہونا، پیغمبرون کا احترام کرنا وغیرہ وغیرہ۔
ان ظاہری علامتوں میں سے ہر علامت کی تحقیق ضروری نہیں ہوتی، بلکہ اگر کسی کے اندر چند علامتیں بھی موجود ہوں جن سے اندازہ ہو کہ وہ شخص مسلمان ہے تو اس کے ساتھ مسلمانوں کا معاملہ کیا جائے گا، مثلاً اس وقت مسلمانوں کی اکثریت نماز نہیں پڑھتی تب بھی دوسری علامتوں کی وجہ سے ہم انہیں مسلمان سمجھتے ہیں، ان کے یہاں شادی بیاہ کرتے ہین اور ان کا ذبح کیا ہوا جانور کھاتے ہیں۔ حالانکہ نماز اسلام کی سب سے بڑی علامت ہے، بلکہ بعض حدیثوں میں نماز نہ پڑھنے کو کفر قرار دیا گیا ہے۔
نماز کی مثال سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر علامت کی تحقیق کرنا ضروری نہیں، بلکہ بعض علامتیں بھی کافی ہیں خواہ وہ علامتیں معمولی ہوں۔ جب وہ بعض علامتیں کسی کے اندر پائی جائیں تو اس کے ساتھ مسلمان کا معاملہ ہوگا، اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اس کے لئے مغفرت کی دعا کی جائے گی، اس کی غیبت اور ایذا رسانی سے بچا جائے گا۔ غرض اسے مسلمانوں کے سارے حقوق حاصل ہوں گے۔
یہ علامتیں حقیقی اسلام کی طرح مسلک و جماعت کے حدود سے ماوراء ہوتی ہیں۔ مسلمان خواہ کسی مسلک یا جماعت کا ہو اس کا احترام ہم پر فرض ہے، مسلک و جماعت صرف انتظامی امور سے متعلق ہیں۔
حقیقی اسلام کی سرٹیفکٹ کسی کے پاس نہیں
پیغمبروں کو اللہ تعالی وحی کے ذریعہ کچھ لوگوں کے جنتی ہونے کی خبر دے دیتا تھا، پیغمبروں کے بعد اللہ تعالی نے یہ علم کسی کو نہیں دیا۔ اب کوئی کسی کے متعلق یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جنتی ہے، یا مقبول بارگاہ ایزدی ہے۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں شخص کو ہم اس طرح سمجھتے ہیں، البتہ علم صرف خدا کو ہے۔
اپنے متعلق نفاق کا خدشہ
حقیقی اسلام کا معیار بہت بلند ہے۔ اسی لئے جو خدا کے جتنا قریب ہوگا اسے اسی کے بقدر اپنے متعلق خوف ہوگا کہ کہیں وہ منافق تو نہیں۔ اس طرح کا خوف خلفائے راشدین، ازواج مطہرات اور عام صالحین کو رہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الجامع الصحیح کے کتاب الایمان میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ما خافه إلا مؤمن، وما أمنه إلا منافق یعنی نفاق سے صرف مومن ڈرتا ہے، اور نفاق سے بے خوفی صرف منافق کو ہوتی ہے۔
اہل ایمان دوسروں کے متعلق کچھ فیصلہ کرنے کے بجائے خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، اور ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کا رب ان سے ناراض تو نہیں ہے۔
دوسروں کے متعلق حسن ظن
اگر کسی مسلمان کے اندر اسلام کی بعض ظاہری علامتیں پائی جا رہی ہیں تو ہمیں قرآن کریم اور حدیث شریف میں اس کے ساتھ اچھا گمان رکھنے کی ہدایت ہے۔ یہ سوچیں کہ ہو سکتا ہے اس کا دل ہم سے زیادہ پاک صاف ہو، وہ ہم سے زیادہ خدا کا مقرب ہو۔ یہ حسن ظن کسی خاص مسلک و جماعت کے متبعین کے ساتھ نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان کے ساتھ ہے خواہ اس کا تعلق کسی مسلک اور جماعت سے ہو۔
انتقال کے بعد مسلمان کا احترام
جب کسی کا انتقال ہو گیا تو وہ اپنے رب کے پاس حاضر ہو گیا، اللہ تعالی اپنے علم کے حساب سے اس کا معاملہ فرمائے گا۔ اس دنیا سے اس کا تعلق ختم ہو گیا اس لئے اس کے متعلق بلا وجہ کسی قسم کی تحقیق کا ہمیں کوئی حق نہیں، بلکہ ہم پر فرض ہے کہ ہم مرنے والے کا احترام کریں، اس کی خوبیوں کا تذکرہ کریں، اس کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا کریں، اور کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے اس کے پسماندگان یا متعلقین کو کوئی تکلیف ہو۔
شرافت کی دلیل
موت کے بعد دنیاوی شناختوں کو نظر انداز کر کے کسی مسلمان کا احترام کرنا شرافت کی دلیل ہے، اور اللہ تعالی شریف النفس لوگوں سے محبت کرتا ہے۔ یہ دیکھ کر سخت رنج ہوتا ہے کہ ہم اس معمولی شرافت کا مظاہرہ بھی نہیں کر سکتے، اور مرنے والے کے عقیدہ وغیرہ کے متعلق گفتگو کر کے اپنے کمینہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں، اور یوں خدا کی رحمت سے دور ہو جاتے ہیں۔
شرافت ایک اہم انسانی اور اسلامی قدر ہے، اسے ہمیں اچھی طرح سیکھنا اور برتنا چاہئے۔ وفات یافتگان کے متعلق شرافت کا برتاؤ کرنے والون میں عصر حاضر کے بر صغیر کے مسلمانوں میں چند حضرات قابل اتباع ہیں: سر سید احمد خان، خواجہ الطاف حسین حالیؔ، علامہ سید عبدالحی حسنی، علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہم۔ ان حضرات نے وفات پانے والے ہم عصروں کے متعلق جب بھی کچھ لکھا ہے، اس کی کوشش کی ہے کہ ان کی خوبیاں سامنے آئیں، اور کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے ان وفات پانے والون یا ان کے متعلقین کو کوئی تکلیف ہو۔
اللہ تعالی ہمیں شریف النفس انسان اور شریف النفس مسلمان بنائے، آمین۔