شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس اچھا یا بڑا فن کار ضرور ہوتا ہے۔ اردو شاعری کی جب بات کی جائے تو ہمیشہ غالب، اقبال اور فیض وغیرہ کے ساتھ میؔر کا ذکر ضرور ہوگا۔ میر تقی میؔر، اردو غزل کی پہچان، وہ میؔر جس نے مجھ جیسے کم فہم کے لئے بھی اردو شاعری میں اپنائیت کا احساس پیدا کیا ورنہ بڑے بڑے شاعروں کے مشکل مشکل الفاظ اور تشبیہوں اور استعاروں سے مجھ جیسے کم علم دور بھاگتے ہیں۔ میرؔ کا شعر چاہے سمجھ نہ آئے لیکن اجنبی نہیں لگتا۔
میؔر اگر اردو کے چار بڑے شاعروں میں شامل ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کے ہم عصر یا ان کے آس پاس کے زمانے کے استاد ذوقؔ، حکیم مومن خان مومنؔ یا شیخ امام بخش ناسؔخ کسی درجہ کم تر تھے یا ہمارے دور کے ناصؔر کاظمی، منیؔر نیازی یا احمد فرازؔ بڑے شاعر نہیں۔ میؔر جس کے بارے میں سب سے بڑی گواہی تو اس نے دی جس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا ہے انداز بیاں اور۔ جی ہاں غالبؔ جیسا شاعر بھی کہتا ہے کہ:
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسؔخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میؔر نہیں
اور استاد ذوق جیسا بد دماغ بھی مان جاتا ہے کہ:
نہ ہوا پر نہ ہوا میؔر کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
بہرحال میؔر کو غالبؔ، ذوقؔ، ناسؔخ یا حسؔرت کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ نہ میں نے اسے اس لئے چاہا کہ دوسرے بڑے شاعروں نے اسے بڑا شاعر مانا ہے۔ میرا اور میرؔ کا تعلق اس سے کہیں ہٹ کر ہے۔ جس طرح زندگی میں آپ کے بے شمار دوست ہوتے ہیں لیکن جن سے پہلا تعارف اور پہلا تعلق ہوتا ہے ان کے لئے آپ کے دل میں ایک الگ ہی جگہ ہوتی ہے۔
میؔر، اردو شاعری سے میرا پہلا تعارف ہے۔ آٹھویں جماعت تک اردو کی کتاب میں نثری مضامین کے بیچ بیچ کہیں کوئی نظم ہوتی تھی۔ پہلی جماعت سے جو نظمیں پڑھیں ان میں مولوی محمد اسماعیل میرٹھی سرفہرست تھے۔
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
علامہ اقبال یہاں (درسی کتب میں) دوسرے نمبر پر تھے۔
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
یا پھر صوفی تبسم تھے (اک تھا گیٹو گرے، اس کے دو مور تھے)۔ مولانا غلام رسول مہؔر کی نظمیں بھی تھیں اور انشاء جی کی “چھوٹی سی بلو چھوٹا سا بستہ، ٹھونسا ہے جس میں کاغذ کا دستہ” وغیرہ کل شاعری تھی جس سے ہم آشنا تھے۔
نویں جماعت میں پہلی بار نثری حصہ اور شاعری الگ کئے گئے اور غیر نثری حصہ (شاید اسے حصۂ نظم کہتے تھے، لیکن پہلا کلام غزل تھا) میں سب سے پہلا کلام میر تقی میؔر کا تھا اور غزل تھی:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
ناز کی اس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
اردو کی استانی نے بتایا کہ غزل کیا ہوتی ہے اور نظم کسے کہتے ہیں۔ پھر انہوں نے میؔر کے بارے میں بتایا۔ یہ بھی بتایا کہ کس قدر بد دماغ تھے کہ دلی سے لکھنؤ تک سفر میں گاڑی بان سے ایک لفظ نہ بولے کہ اپنے معیار سے کم زبان سننے کے روادار نہ تھے۔ یہ بھی بتایا کہ میؔر کی شاعری میں دلی کی پوری تاریخ درج ہے:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
یا پھر میؔر سے منسوب وہ مشہور اشعار جس میں لکھنؤ والوں کو دلی کی حالت زار بتاتے ہیں:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
میؔر کی شاید ایک یا دو غزلیں اس کتاب میں تھیں لیکن میؔر کے بارے میں بڑی آپا (ہماری استانی) نے اتنا کچھ بتا دیا جو شاید بعد میں کبھی ہم نہ جان پائے۔ میؔر اردو شاعری میں میری پہلی محبت بن گیا۔ اس سے پہلے اقبال کو پڑھتے آئے تھے۔ شاعر مشرق، حکیم الامت، بانئ تخیل پاکستان اور کیا کیا ہم انہیں پکارتے تھے۔ ان کی عظمت کا نقش تب سے قائم تھا اور اب تک ہے۔ لیکن اقبال کے ساتھ رشتہ ایک ادب و احترام کا رشتہ ہے۔ ان کا ایک بھاری بھرکم شاعر کا تصور ابھرتا ہے۔
لیکن جب میؔر کو پڑھا تو یہ شاعری بہت اپنی اپنی سی لگی۔ بڑی آپا نے میرؔ کے ساتھ ہی دلی اور لکھنؤ کے دبستانوں کا فرق بتایا۔ سؔودا اور میؔر کا تقابل سمجھایا۔ “سودا کی جو بالیں پہ گیا شور قیامت / خدام ادب بولے ابھی آنکھ لگی ہے” جیسے اشعار کی مبالغہ آرائی اور تصنع سے آگاہ کیا اور “سرہانے میؔر کے کوئی نہ بولو / ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے” جیسے اشعار کی سادگی سمجھائی۔ ہم غریب سے سادہ سے لوگ تھے۔ میؔر کی شاعری میں ہمیں اپنا آپ نظر آیا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن، نہ صرف شاعری بلکہ نثر بھی صرف وہی اچھی لگی جو سادگی سے کہی گئی ہو۔ یہ بات سمجھ آئی کہ الفاظ نہیں، بات بڑی ہوتی ہے۔ بھاری بھرکم الفاظ اور خیالات نہیں، دل سے کہی اور سادہ سی بات اثر کرتے ہیں۔ اور آج جب میں خود ٹوٹا پھوٹا لکھنے لگا ہوں تو میرے اندر وہی میرؔ کہیں چھپا ہوتا ہے جو بات کو آسان ترین الفاظ میں کہنے کے لئے اکساتا ہے۔ اسی میرؔ کی وجہ سے میں نے منشی پریم چند جیسوں کو پڑھنا شروع کیا۔
بڑی آپا نے میرؔ کے بہتر نشتروں کے بارے میں بتایا۔ ہم موٹی عقل والوں کی سمجھ میں بھلا کیا آتا۔ اب اگر ایک آدھ شعر سمجھ آیا تو یہ بات بھی سمجھ آئی کہ ہم تو ایک نشتر کی بھی مار نہیں۔ انہوں نے اس وقت حباب اور سراب کے معنی سمجھائے۔ شعر جیسا تیسا سمجھ میں آیا۔ لیکن آج جب عمر کی الٹی گنتی (countdown) شروع ہوگئی ہے تو میؔر کے اس شعر کے معنی سمجھ میں آئے کہ زندگی کی کل حقیقت اور کل فلسفہ یہی ہے۔ زندگی کے سارے اتار چڑھاؤ، بلندیاں، پستیاں دیکھ لیں، عروج دیکھ لئے، زوال دیکھ لئے تو میرؔ کی بات ہی سچ نکلی کہ یہ نمائش سراب کی سی ہے۔
اور جیسا میں نے عرض کیا کہ میرؔ کے بارے میں استانی جی نے اتنا کچھ بتایا کہ پھر کبھی اتنا نہیں پڑھا۔ میؔر کو تھوڑا بہت اور جاننے کی کوشش کی جب ناصر کاظمی کا انتخاب میرؔ دیکھا۔ جہاں اس میں میرؔ کا بہترین کلام منتخب کیا گیا ہے وہیں ناصر اور انتظار حسین کی میرؔ کے بارے میں گفتگو یقیناً بے حد کار آمد ہے، اگر مجھ جیسے اسے سمجھ پائیں۔ میرؔ کے بارے میں خوشونت سنگھ نے اپنی کتاب ڈلہی میں جو کچھ لکھا اس کا میؔر کی شاعری سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ نہ ہی خوشونت نے میرؔ کا کوئی شعر درج کیا ہے۔ اب باقی کی جو باتیں میؔر کے متعلق کہی ہیں وہ اس قابل نہیں کہ یہاں دہرائی جائیں۔ ہاں اس سے میر کے حالات اور ان حالات کا ان کی شاعری پر اثر ضرور سمجھ میں آتا ہے۔
میؔر کو اس کے بعد اگر کچھ جانا تو مہدی حسن کے ذریعے جانا۔
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
یوں لگتا ہے کہ اپنی زندگی کی تصویر میرؔ کی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں۔ میؔر کی شاعری کی ایسی کون سی خصوصیات ہیں جو آپ نہیں جانتے اور مجھے معلوم ہیں۔ میں ہرگز اس کی شاعری کے محاسن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دے رہا کہ مجھے خود علم نہیں۔ مجھے تو میؔر کی سادگی و پرکاری اور اس کی شاعری کی غنائیت اپنی جانب کھینچتی ہے۔
عالم عالم عشق و جنوں ہے، دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
میؔر نہ ہوتا تو مجھ جیسا کم علم اردو شاعری کے قریب بھی نہ پھٹکتا کہ مشکل ترین الفاظ، تشبیہ اور استعاروں کو دیکھ کر ہی جان نکل جاتی ہے اور شاعری صرف شاعروں کا شوق ہی رہتی ہے۔ میؔر کا شعر ایسا سادہ اور عام فہم ہوتا ہے کہ شعر نہیں آپ بیتی لگتا ہے۔ بڑی بڑی باتیں کہنا، مشکل ترین تراکیب استعمال کرنا، عظیم الشان الفاظ سے شعر کو سجانا، یہ بڑے آسان کام ہیں۔ بات تو جب ہے کہ سادہ ترین الفاظ میں بڑی بات کہہ کر دکھاؤ۔
اک بات کہیں گے انشاؔ جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم ایک جہاں کا علم پڑھے کوئی میرؔ سا شعر کہا تم نے
٭٭٭
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
٭٭٭
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لوہو آتا ہے جب نہیں آتا
درد و غم، آنسو، رنج و الم کا ترجمان، اس کا اپنا غم حقیقت سے نکل کر غزل میں ڈھل گیا۔ لیکن یہ دکھ جو بظاہر ذاتی ہے، ساری دنیا کو اپنا دکھ نظر آتا ہے۔ یہی منفرد لہجہ میرؔ کو خدائے سخن بنادیتا ہے۔
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
غزل کا ہر دور میں کوئی استاد ہے تو وہ میؔر ہے۔ جس شاعر کی زبان سادہ لیکن موسیقیت سے پر ہوتی ہے وہ عوام کی توجہ پاتا ہے۔ سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے ناصر کاظمی کی ہے جنہیں میر ثانی بھی کہا جاتا ہے۔ آلام غم روزگار، شدت احساس، غم عشق، روز مرہ کا تجربہ اور مشاہدہ، میرؔ کے اشعار میں ان سب کی یکجائی بے اختیار میرؔ کی جانب کھینچے لئے چلی جاتی ہے۔
میؔر کی زندگی، میر کا شاعرانہ مقام و عظمت، میؔر کے بہتر نشتر، میر کے بارے میں صفحات کالے کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں تو صرف اس رشتے کا ذکر ہے جو میرے اور میرؔ کے درمیان ہے۔ خواجہ میر درؔد، ذوؔق، غالبؔ، سوؔدا وغیرہ معتقد میرؔ جس کی وجہ سے ہوئے۔ شاعری جس کی وجہ سے معتبر ہوئی۔ جون ایلیا نے معتقدین میرؔ کے دل کی بات کہہ دی کہ “اردو کا ہر اچھا شعر میؔر کا ہے۔”
میں معتقد میؔر صرف اس لئے ہوں کہ اس کی شاعری میں اپنے آپ کو پاتا ہوں کہ زندگی کے نشیب و فراز کو اگر شعر کی زبان میں پاتا ہوں تو وہ میرؔ کے اشعار ہیں۔
ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میؔر
کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو