مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine

دین و شریعت

ایک سوال
جناب ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب مدظلہ العالی، السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید ہے مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔ ایک سوال ہے، براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں: دین، اسلام، اور شریعت مین کیا فرق ہے؟ نیز اقامت دین سے کیا مراد ہے؟
والسلام، سالم سولنکی ندوی۔
جواب
دین نام ہے عبادت و اطاعت کے راستہ کا، اس کی دو قسمیں ہیں:
١- خدا کا نازل کردہ دین۔
٢- انسانوں کا خود ساختہ دین۔
اس تقسیم کی دلیل خود قرآن کریم میں ہے: لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (سورۃ الکافرون، آیت ٦)
خدا کے دین کا مطلب ہے اس کی عبادت اور اطاعت کا راستہ۔ اس کے دو بنیادی اجزاء ہیں: ایمان اور اسلام۔ ایمان کا تعلق عقل سے ہے اور اسلام کا قلب سے۔ ایمان باللہ کا مطلب ہے فطرت و عقل کی روشنی میں اللہ تعالی کی ربوبیت کو اچھی طرح سمجھنا، اس میں انفس و آفاق کے دلائل پر غور کرنا بھی داخل ہے۔ ربوبیت کی حقیقت عیاں ہو جانے کے بعد فطرت و عقل کا لازمی تقاضا ہوتا ہے کہ خدا کی عبادت کی جائے، اور یہ ہے الوہیت کا اقرار۔ جب انسان اللہ تعالی کی ربوبیت و الوہیت کو مان لیتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی ابتدا ہوتی ہے۔
ایمان کے بعد مرحلہ اسلام کا آتا ہے، یعنی جب عقل میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالی ہی معبود ہے تو عقل اپنے اس ایمان کا ابلاغ قلب کو کرتی ہے۔ اگر قلب سلیم ہوتا ہے تو وہ اللہ کی الوہیت کے سامنے سر خم کر لیتا ہے، اور سارے اعضاء کو خدا کی عبادت و اطاعت کا حکم دیتا ہے۔ اس قلبی خود سپردگی کا نام اسلام ہے۔ شہادتیں، نماز، زکاۃ وغیرہ اسلام کا اظہار ہیں۔ بعض لوگ شہادتوں کو ایمان سے تعبیر کرتے ہیں، یہ ایک غلط تعبیر ہے۔ شہادتیں اسلام کا جزو ہیں، نہ کہ ایمان کا۔ حدیث جبریل اور حدیث ارکان خمسہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔ ایمان و اسلام کی یہ ترتیب دنیا کے ہر تعاقد میں موجود ہے۔ آپ کسی سے شادی کرتے ہیں تو پہلے اسے اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جب آپ اسے اپنے لئے مناسب سمجھتے ہیں تو اس سے نکاح کرتے ہیں۔ نکاح کے بعد آپ پر لازم ہو جاتا ہے کہ آپ اس کا ہر طرح سے خیال رکھیں۔
چونکہ اصل مقصود یہی خود سپردگی ہے اسی لئے پورے دین کو اسلام کہہ دیا جاتا ہے۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ (سورۃ آل عمران، آیت ١٩) وغیرہ میں اسی معنی کا بیان ہے۔ ایمان کی حقیقت اگر نصیب ہو جائے تو اسلام لازماً حاصل ہوگا، اسی تلازم کی بنا پر کہیں کہیں ایمان بول کر اسلام بھی مراد لیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو ایمان اور اسلام دونوں کی حقیقتیں حاصل ہوتی ہیں، ان کے لئے ان میں سے کسی لفظ کا استعمال درست ہوگا۔ لوط علیہ السلام کے قصہ میں ہے: فَأَخْرَجْنَا مَن كَانَ فِيهَا مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ. فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍۢ مِّنَ ٱلْمُسْلِمِينَ (سورۃ الذاریات، آیات ٣٦-٣٥)۔ بعض لوگوں نے اس سے یہ گمان کر لیا کہ ایمان و اسلام مترادف ہیں، جو صحیح نہیں۔ جن لوگوں کا یہاں ذکر ہے وہ دونوں مقامات پر فائز تھے۔ یہ سوال کہ دونوں الفاظ ایک ہی جگہ استعمال کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب میں نے کہیں اور دے دیا ہے، یہاں اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الجامع الصحیح کی کتاب الایمان میں ایمان، اسلام، اور دین کے باہمی رشتہ کو اچھی طرح واضح کیا ہے۔ میں نے صحیح مسلم کی شرح میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ مزید اطمینان کے لئے ان دونوں کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
اصل ترتیب یہی ہے کہ پہلے ایمان تک رسائی ہو، پھر اسلام کا حصول ہو، یہ حقیقی اسلام ہے۔ چونکہ اسلام اس دین کا نام ہے، اس لئے صرف شناخت کے معنی میں بھی اس کا استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً جو لوگ پیدائشی مسلمان ہوں، خواہ ایمان نصیب نہ ہو انہیں بھی مسلم کہا جاتا ہے، اس میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو دوسروں کی دیکھا دیکھی یا کسی اور غرض سے اسلام قبول کرتے ہیں۔ قرآن کی آیت قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاؕ، قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰـكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْؕ۔ (سورۃ الحجرات، آیت ١٤) میں اسی غیر حقیقی اسلام کا ذکر ہے۔ اس آیت میں ایمان کے ساتھ قلب کا ذکر ہے، اس سے شاید یہ شبہہ ہو کہ ایمان کا محل قلب ہے، مگر یہ شبہہ بہت کمزور ہے۔ ایمان کے ساتھ قلب کے ذکر کرنے کی دو وجہیں ہیں۔ ایک، قرآن کریم میں قلب عقل کے معنی میں بھی مستعمل ہےاور دوسرے عقل اپنے ایمان کا ابلاغ قلب کو کرتی ہے، یہاں اسی ابلاغ کا ذکر ہے، اس کے نتیجہ میں اسلام وجود میں آتا ہے۔
ایمان و اسلام کے درجات متفاوت ہوتے ہیں۔ اعلی درجات کا حصول قرآن و حدیث کی اصطلاح میں احسان ہے۔ احسان کے معنی ہیں کسی چیز کو خوب سے خوب تر بنانے کے۔ ایمان و اسلام کو خوب سے خوب تر کرنے کا راستہ تقوی اور صبر ہے۔ إِنَّهُۥ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ (سورۃ یوسف، آیت ٩٠). قرآن کریم میں کہیں صرف تقوی کو احسان کہا گیا ہے اور کہیں صرف صبر کو احسان کہا گیا ہے۔ وجہ اس کی تقوی اور صبر کا تلازم ہے۔ تقوی کی حقیقت چونکہ خدا کے خوف کا استحضار ہے اسی لئے حدیث جبریل میں احسان کی تشریح یوں کی گئی ہے أن تعبد الله كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك۔ یہ ہے اصل احسان۔ رسمی صوفیہ نے اس کا مفہوم سمجھنے میں سخت ٹھوکر کھائی ہے۔ انہوں نے احسان کو مسلک و مشرب سمجھ لیا، جب کہ احسان ایک قدر و معنی ہے، رسوم و دعاوی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
شریعت بھی ایک ایسا لفظ ہے جس کی غلط ترجمانی مشہور ہو گئی ہے۔ متاخرین اور معاصرین فقہاء نے اس کا ترجمہ قانون یا مقدس قانون کیا ہے جو درست نہیں۔ شریعت کے معنی ہیں وہ راستہ جس کی سند اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی ہو۔ چونکہ دین الہی کی تفصیلات منجانب اللہ ہیں اس لئے پورا دین شریعت ہے، شَرَعَ لَكُم مِّنَ ٱلدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِۦ نُوحًۭا (سورۃ الشوری، آیت ١٣)۔ دین کی وہ مزید تشریحات جو متقی علماء نے کی ہیں انہیں منہاج کہا جاتا ہے، لِكُلٍّۢ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةًۭ وَمِنْهَاجًۭا (سورۃ المائدۃ، آیت ٤٨)۔ شریعت کے تین اجزاء ہیں:
١- سنن و نوامیس: دین کا اکثر حصہ سنن و نوامیس پر مشتمل ہے۔ یعنی وہ تعلیمات جن کی بنیاد فطرت و عقل پر ہے، جیسے ایمان، اسلام، تقوی، صبر، شکر، صدق، رحم دلی وغیرہ کا اچھا ہونا۔ شرک، زنا، چوری، قتل، جھوٹ وغیرہ کا برا ہونا۔
٢- احکام: یعنی مختلف سنن و نوامیس کے درمیان ترجیحات جنہیں فرض، واجب، مستحب، حرام، مکروہ و مباح وغیرہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
٣- قوانین: جنہیں حدود کہا جاتا ہے۔ قوانین اس دین کا ایک فی صد حصہ بھی نہیں۔
اقامت دین کا مفہوم سمجھنے سے پہلے اقامت کا معنی سمجھ لیں۔ اقامت کہتے ہیں کسی چیز کو سیدھا کھڑا کرنا، اس میں کوئی انحراف و میلان نہ ہو، اور نہ ہی کوئی کوتاہی و زیادتی ہو۔ زیادتی بھی کوتاہی کی ایک شکل ہے، مثلاً قرآن میں اقامت صلاۃ کا حکم ہے جس کا مطلب ہے نماز کو خشوع و قنوت سے ادا کرنا، اس کے شرائط، ارکان اور آداب کی مکمل رعایت کرنا، اقامت دین، أَنْ أَقِيمُوا۟ ٱلدِّينَ (سورۃ الشوری، آیت ١٣)، کا مطلب ہے دین کے تمام اجزاء کو بحسن و خوبی محض خدا کی رضا کے لئے بجا لانا۔ ان اجزاء میں اہم ترین عبادات ہیں، نماز اچھی طرح اخلاص سے پڑھنا، زکاۃ کو خوش دلی سے اللہ کے لئے وقت پر اور درست مقدار کے مطابق نکالنا، وغیرہ۔ یعنی انسان دین کے جس حصہ کا مخاطب ہو اسے اچھی طرح صرف خدا کی رضا کے حصول کے لئے بجا لائے۔
اقامت دین کی تشریح میں اسلامی سیاسی تحریکوں نے اسی طرح غلطی کی ہے جس طرح صوفیہ نے احسان کی تشریح میں، اور متاخرین و معاصرین فقہاء نے شریعت کی تشریح میں کی ہے۔ غلطی کی اصل جڑ یہ ہے کہ جب دین میں مسلک و مشرب بنائے جائیں گے تو بعض باتوں پر مبالغہ کی حد تک زور ہوگا۔ یہ مبالغہ دین کی معتدل شکل کو بگاڑ دیتا ہے، اور جب مبالغہ آتا ہے تو جھوٹ بھی آتا ہے۔ چنانچہ وہ تمام حدیثیں جنہیں محدثین نے شواذ، مناکیر اور موضوعات شمار کیا ہے وہ مسالک و مشارب والوں کے درمیان متداول و مقبول ہیں۔ ہر مسلک و مشرب نے اپنی اپنی پسند کی ‘واہی’ حدیثین لے لی ہیں، اور یوں دین صحیح کی بنیادیں کمزور کر دی ہیں اور اس کا توازن خراب کر دیا ہے۔
اس مختصر مضمون میں مزید وضاحت کی گنجائش نہیں۔ میں نے یہ باتیں نہایت تفصیل سے اپنی کتاب الدین میں بیان کی ہیں۔
المادة السابقة
المقالة القادمة
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی، آکسفورڈ
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی عالمی شہرت یافتہ عالم ہیں جو گزشتہ تیس سالوں سے انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر ندوی دو دہائیوں تک آکسفورڈ یونیورسٹی میں تحقیق و تدریس سے منسلک رہے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی میں کئی درجن کتابوں کے مصنف ہیں۔ فن حدیث میں خواتین کی خدمات پر آپ کی کتاب الوفاء بأسماء النساءتینتالیس جلدوں میں شائع ہوئی ہے اور پچیس جلدوں میں شرح مسلم زیر اشاعت ہے۔
مصنف کی دیگر تحریریں