بہت سے دیگر فنون کی طرح جہازرانی اور ملاحی کے فن کو بھی عربوں نے بہت عروج تک پہنچایا۔ ایک زمانہ تھا جب بحیرۂ روم سے بحر ہند تک سمندر پر عربوں کی ہی حکمرانی تھی۔ دنیا میں آدھے سے زیادہ بحری تجارت پر ان کا قبضہ تھا۔ نئی نئی ترکیبیں ایجاد کیں۔ ٹالمی کے جغرافیائی نقشے کی تصحیح کی اور نئے نقشے بنائے، بہتر مقناطیسی قطب نما بنائے، علوم فلکیات و نجوم کا استعمال بھی اس دور میں ہوا۔ بعض کہتے ہیں کہ بحر ہند میں سب سے پہلے عرب ہی جہاز لے کر آئے۔ عربوں سے ہندوستانیوں کے کاروباری تعلقات عہد قدیم سے تھے لیکن وہ اس طرح تھے کہ عرب تاجر ہی ہند آتے، لین دین کرتے اور چلے جاتے۔ ہندوستان والے باہر نہ جاتے۔ باہر جانا، سمندر کا سفر کرنا برہمن عقائد کے خلاف تھا۔ اس لئے یہاں میگستھنیز یا مارکو پولو، ہوین سانگ یا فاہیان، البرونی، ابن بطوطہ یا المسعودی جیسا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ خیر اس کا ذکر پھر کبھی۔
عرب میں اسلام پھیلنے، اسلامی فتوحات، اور عربوں کی ترقی کے نتیجے میں بحری سفر اور تجارت میں مزید اضافہ ہوا۔ جہازرانی پر اب عرب مسلمانوں کا اس قدر دخل ہو گیا کہ کچھ لوگ اس فن کو اسلام کے مترادف بھی سمجھنے لگے تھے۔ جنوبی ہند میں ایک ساحلی ریاست کے والی کو یہ خیال گزرا کہ اس کی ریاست میں اس فن کو جاننے والے ہوں تو اس نے حکم دیا کہ ماہی گیروں کے ہر گھر میں ایک بچے کی پرورش بطور مسلمان کی جائے جس سے وہ جہازرانی کا ماہر ہو سکے۔
جس قوم کے پاس علم و فن ہوتا ہے، بازار میں اس کی حصہ داری تو زیادہ ہوتی ہی ہے، اس کی زبان و ثقافت کا اثر بھی دوسروں پر مرتب ہوتا ہے۔ جیسے آج تمام زبانوں میں انگریزی کے الفاظ شامل ہوتے جا رہے ہیں، اس دور میں ہندوستان سے یورپ تک تمام زبانیں عربی کے کلمات و اصطلاحات اپنا رہی تھیں۔ بحری سفر اور تجارت کے حوالے سے بھی کئی الفاظ آئے۔ ایڈمیرل تو بہت مشہور ہے اس لئے اس کی تفصیل میں نہیں جاتا۔ آج دو دوسرے الفاظ لیتا ہوں۔ ایک اپنی مادری زبان ہندی اردو میں رائج ہے اور دوسرا آقائی زبان انگریزی میں۔
جہاز کا سفر کبھی خطرے سے خالی نہیں ہوتا تھا۔ بارش، طوفان، ڈکیتی وغیرہ کے نتیجہ میں اکثر بڑے نقصانات کا خطرہ رہتا تھا۔ اس طرح کے نقصان اور خسارہ کو عربی میں عواريہ کہتے تھے۔ اس زمانے میں جدید بیمہ کمپنیوں کا تصور تو نہ تھا لیکن نقصان کی تلافی کے مختلف طریقے موجود تھے۔ ورنہ اگر کوئی بیڑا غرق ہو جاتا تو جس کا جہاز ہوتا اور جن تاجروں کا مال ہوتا ان کا بیڑا ہی غرق ہوجاتا تھا۔ عربوں نے رومیوں سے مستعار یہ طریقہ اپنایا کہ دوران سفر اگر کسی حادثہ یا طوفان یا کسی اور وجہ سے نقصان ہو تو یہ نہ ہو کہ جس کا مال گیا نقصان صرف وہی برداشت کرے، بلکہ اس خسارے کو جہاز کے مالک اور تمام تاجران جن کا مال جہاز پر ہوتا، متناسب طور پر برداشت کرتے۔ یعنی عواریۃ العامہ کے اصول پر اوسط نکال لیا جاتا۔
انسانوں کے ساتھ ان کی زبانوں کے الفاظ بھی سفر کرتے ہیں۔ عرب تاجروں کے ساتھ لفظ عواریہ بھی بحیرۂ روم پار کر اٹلی پہنچ گیا۔ اٹلی والے avaria لکھنے بولنے لگے۔ فرانسیسی میں جاکر یہ avarie ہو گیا۔ یورپ کی دیگر زبانوں میں بھی حروف اور تلفظ کے فرق کے ساتھ مختلف شکلوں میں رائج ہوتا گیا۔ پندرہویں صدی کے اواخر تک لفظ عواری برطانیہ شریف تک پہنچ گیا۔ انگریزی میں اس کا مترادف ڈیمج (damage) مستعمل تھا۔ اسی طرز پر avarie انگریزی لاحقہ age- کے ساتھ مل کر average بن گیا۔ لیکن پندرہویں سولہویں صدی تک لفظ ایورج کا استعمال ان نقصانات کے لئے ہوتا تھا جو بحری سفر کے دوران کوئی حادثہ پیش آنے کی وجہ سے ہوتے تھے۔ مثلا برہم ہواؤں کے خلاف جہاز چلانا مشکل ہوا تو ہلکا کرنے کے لئے کچھ مال سمندر میں پھینک دینا پڑتا۔ اب پھینکا گیا مال کسی تاجر کا ہو خسارہ سارے تاجر برداشت کرتے۔ جس کا جتنا مال ہوتا اسی تناسب میں نقصان اٹھاتا۔ جہاز کے بھاڑے کے علاوہ ملاحوں کو الگ سے جو بھی دیا جاتا اس کے لئے سارے سوداگر متناسب طور پر اپنا اپنا حصہ ادا کرتے۔ اس کو بھی ایورج کہا جاتا۔
دھیرے دھیرے لفظ ایورج کسی بھی ایسے خسارے یا اخراجات کے لئے استعمال ہونے لگا جو اوسط نکال کر سارے شرکاء برداشت کرتے۔ اٹھارہویں صدی آتے آتے معنی میں مزید وسعت پیدا ہوئی اور تب سے کسی بھی چیز کے اوسط کے معنی میں کثیرالاستعمال ہے۔ اس طرح عواریۃ بمعنی خسارہ سے ایورج بمعنی اوسط بن گیا۔
عرب کے تاجر جب ہندوستان آتے تو راستہ دکھانے، ترجمانی وغیرہ کرنے کے لئے کسی مقامی شخص کو بطور گائیڈ رکھ لیتے۔ عربی میں دلّ کے معنی راستہ دکھانے، رہنمائی کرنے، اشارہ کرنے کے آتے ہیں۔ کچھ سمجھنے میں، کسی نتیجہ تک پہنچنے میں، کچھ ثابت کرنے میں جن باتوں سے رہنمائی ہوتی ہے اسے ہی دلیل کہتے ہیں، اور اس کی جمع دلائل ہے۔ دلیل سے ہی ہم دَلالۃ (دلالت) کرتے ہیں اور اپنا موقف صحیح ثابت کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ عقل کے دشمن اور اندھی تقلید کرنے والے کوئی دلیل قبول نہ کریں۔
اسے جب ماننا کچھ بھی نہیں ہے
دلالت بھی مری بیکار ہوگی
عربوں کا طریقہ تھا کہ جب قافلے کو انجان راستوں پر سفر کرنا ہوتا تو کسی راستہ جاننے والے راہبر یعنی دَلّال کو ساتھ رکھ لیتے۔ معاوضہ کے طور پر اس کو جو دیتے وہ دِلالة (بکسر الدال) کہلاتا۔ اب جب عرب تاجر ہندوستانی ساحلوں پر دَلّال کو ساتھ لیتے تو وہی ان کو مقامی تاجروں تک لے جاتا۔ بائع کو مشتری سے ملوانا، بھاؤ تاؤ کرانا، اور سودا طے کرانا بھی اس کے کام میں شامل ہو گیا۔ اس طرح دَلّال میں ایجنٹ، ثالث، بچولیا کے معنی بھی آ گئے۔ یہ سارے مطالب عربی و فارسی میں بھی لئے جاتے ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں لفظ اور معنی دونوں تبدیل ہوئے ہیں۔ ہندی میں دَلّال کے بجائے دَلال، یعنی بغیر تشدید، بولا جاتا ہے۔ مزدور سے مزدوری کی طرح دلال سے دلالی ہم نے خود بنا لیا۔
ہر قوم کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو اس کو دوسروں سے الگ کرتی ہیں۔ کسی قوم کے بارے میں عمومی رائے قائم کرنا ہمیشہ درست نہیں ہوتا لیکن غلط یا صحیح، لوگ عمومی تصورات سے متاثر ہوتے ہی ہیں۔ جیسے حجازی عربوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سادگی و برجستگی، صدق بیانی، عہد و پیمان کی پاسداری، ایمانداری، شہوت سے کچھ زیادہ رغبت، علم سے بُعد، قبیلائی اکھڑپن وغیرہ روایتی خصوصیات ہیں۔ انگریزوں میں ‘جوش مندی’ سے زیادہ ہوش مندی، اشتعال سے زیادہ غور و فکر، جذباتیت سے زیادہ تدبیر ہوتی ہے۔ اچانک کوئی ناگہانی حادثہ پیش آ جائے تو آہ و بکا کے بجائے پہلے اس سے نکلنے کی تدبیر کرتے ہیں، بعد میں بیٹھ کر شاید آنسو بھی بہا لیں[١]۔ مصریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جو غالب آ جاتا ہے اس کے ساتھ ہو لیتے ہیں، وَ هُم مَع مَن غَلَبٌ۔ (أرضها ذهب ونيلها عجب وخيرها جلب ونساؤها لعب ومالها رغب وفي أهلها صخب وطاعتهم رهب وسلامهم شغب وحروبهم حرب وهم مع من غلب)۔ اسی طرح زمانۂ قدیم سے ہندوستانیوں کو تنگ نظر، جلدی مشتعل ہونے والے، جذباتی، محبت کرنے والے، علم دوست، بدعہد، مکار، جھوٹے اور بے ایمان سمجھا جاتا رہا ہے۔ خلیفۂ ثالِث حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ نے حاکم عراق کو ہندوستان کے حالات معلوم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس نے حکیم ابن جبلۃ العبدی کو اس کام کے لئے معین کیا۔ حکیم نے حالات مستفسرہ دریافت کرنے کے بعد بیان کیا تھا کہ لوگ وہاں کے غدار، سارق و کاذب و بدعہد ہیں[٢]۔
اب جہاں مکر و فریب روز و شب کا معمول ہو یہ سمجھنا غلط نہ ہوگا کہ جب عرب تاجروں کے دلّال انھیں مقامی کاروباریوں تک لے جاتے ہوں گے تو وہ ان سے الگ سے وصولی کرنے لگے ہوں گے کہ بھائی مجھے اتنی دلالی دینی ہوگی ورنہ گاہک تمہارے یہاں نہ لا کر کہیں اور لے کر چلے جائیں گے۔ جب کہ دلّالوں کو اپنے کام کے لئے عرب تاجروں سے معاوضہ ملتا ہی تھا اور اس کے علاوہ کے وہ مجاز نہ تھے۔ پھر بائع کو کچھ قیمت خرید بتانا اور مشتری کو جھوٹ بول کر کچھ اور قیمت فروخت بتانا اور اس طرح بغیر ہینگ پھٹکری لگائے اپنا رنگ چوکھا کرنا کون سا مشکل کام تھا۔ یہ اور ایسی ہی چیزوں سے اس لفظ کے معنی میں کئی منفی پہلو بھی شامل ہو گئے۔ پہلے لائسنس یافتہ دلال بھی ہوتے تھے اور اپنے نام کے ساتھ دلال لکھتے بھی تھے۔ اب بھی رسمی طور پر بچولیا کے معنی میں دلال لکھا جاتا ہے۔ میں نے خود ایک زمانے میں بازار حصص میں کام کرنے کے لئے امتحان دے کر سند حاصل کی تو اس پر ہندی میں نائب دلال ہی لکھا تھا۔ لیکن عام طور سے دلالوں کی شبیہ اس قدر منفی ہو گئی ہے کہ دلال کہنے سے لوگ جھوٹا، مکّار، بے ایمان، چال باز ہی سمجھتے ہیں اور ہندی اردو میں اب پیشہ ور دلال خود کو دلال کی جگہ بروکر، ایجنٹ وغیرہ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ اگر کسی کو اس کے سامنے ہی دلال کہا جائے تو برا معلوم ہوتا ہے۔ ہندی میں ایک لام حذف کر کے دَلّال سے بغیر تشدید دلال بنا تھا، لیکن اگر آخری لام حذف کر کے دلّا کہا جائے تو مراد وہ لیا جاتا ہے جو جسم فروشوں اور ان کے گاہکوں کے بیچ دلالی کرتا ہے، یعنی بھڑوا اور دیوث۔ فارسی میں صرف اس قدر منفی معنی ہیں کہ دو لوگوں کے درمیان بلا وجہ دخل دینے والے کو بھی دَلّال کہا جاتا ہے۔
برسبیل تذکرہ فارسی میں اسی قبیل کا ایک لفظ ہے دِلال، بکسر الدال۔ معنی اسی دلّ سے وابستہ ہے یعنی اشارہ کرنا لیکن یہ ذرا نازک سا اشارہ ہے، چشمِ یار کا اشارہ جو تیر نیم کش کی طرح خلش میں مبتلا رکھے۔ تلمیحاً ناز و ادا کے معنی میں لکھا جاتا ہے۔ دلال کا یہ مفہوم عربی میں بھی موجود ہے، بلکہ عربی سے ہی فارسی میں آیا ہے۔ اشارہ، غمزہ، عشوہ، ناز و ادا اور اس سے مائل کرنا، رغبت دلانا، اور نسائی خوبصورتی اور نزاکت کے سارے پہلو شامل ہو جاتے ہیں۔ اسی مناسبت سے عربوں میں لڑکیوں کے نام دلال رکھے جاتے ہیں۔اردو میں قلیل الاستعمال ہے۔ اس معنی میں فارسی میں دلال زیر و زبر دونوں سے درست ہے لیکن اردو میں جو محدود استعمال ہے وہ زیر کے ساتھ ہوا ہے۔
حسن و جمال تیرا غنج و دِلال تیرا
ہر خط و خال تیرا طُغرائے دلبری ہے
[١] E. M. Forster: Notes on the English Character
[٢] تاریخ آئینۂ اودھ