
اس کا قلم مخصوص طور پر تحلیل نفسی یا ذہنی ہیجان اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے اسے شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے ہمکنار کیا۔ معاشرے کو اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے، لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کا سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر، اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا، جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے۔ ڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصور کیے جاتے تھے۔ اس کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زر کی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا۔ اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم کھولتا رہا جن پر کئی بار اسے عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا۔ مگر قانون اسے کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔ اس کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پسِ پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں۔ اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اسی پردہ پوش معاشرے کی عکاس ہیں۔ منٹو کی کہانیاں اکثر مزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں۔
منٹو ١٩٤٨ کے اوائل میں ہجرت کر کے لاہور آ گئے تھے۔ ان کے دوستوں نے انہیں ہندوستان میں روکنے کی بہت کوشش کی، اس لئے کہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بحیثیت کہانی نویس ان کا ایک مقام بن چکا تھا۔ جب کہ پاکستان کی فلم انڈسٹری اس وقت تقسیم ہند کے سبب اجڑی پڑی تھی اور وہاں روزی روٹی کمانے کے مواقع خاصے تاریک تھے۔ لیکن برٹش انڈیا دور کی لا قانونیت کے حالات ایک حساس مصنف کے دماغ پر ایسے انمٹ نقوش تھے جس نے اسے ایک نئی دنیا، ایک نئے ملک اور ایک نئے مکان میں منتقلی پر اکسایا۔ اور اس نے فوری طور پر اپنی فیملی کو اپنے کزن حامد جلال کی معیت میں پاکستان روانہ کر دیا۔ جہاں شہر کے وسط میں لکشمی مینشن نامی بلڈنگ میں حامد جلال کے فلیٹ کے برابر والے فلیٹ میں منٹو کی فیملی سکونت پذیر ہوئی۔ اس خبر کے فوراً بعد منٹو پاکستان آگئے۔ یہ محض ایک اتفاق تھا کہ اس بلڈنگ میں جس میں منٹو کا فلیٹ تھا اہل علم و ادب کا ایک ایسا مرکز ثابت ہوا جہاں پر مقیم منٹو کے کزن حامد جلال ایک معروف میڈیا پرسن یا صحافی بنے۔ ایک اور فلیٹ میں پروفیسر جی ایم اثر رہتے تھے جو گورنمنٹ کالج لاہور میں اردو کے پروفیسر تھے۔ ان کا تعلق مدراس سے تھا اور وہ انگریزی میں بھی ماہر مانے جاتے تھے۔ ایک اور فلیٹ میں معراج خالد رہتے تھے جو بعد میں کچھ عرصہ پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے۔ ایک دوسرے فلیٹ میں گوالمنڈی سے منتقل ہو کر مستنصر حسین تارڑ کی فیملی بھی آ بسی تھی گو کہ اس وقت مستنصر حسین تارڑ نو عمر تھے اور انہوں نے تصنیف کی دینا میں قدم نہیں رکھا تھا۔ اس طرح جب منٹو اہل ادب کی سوسائٹی یا ساتھ چھوڑ کر بمبئی سے لاہور آئے تو انہیں ایک ادبی ماحول اور ساتھ ملا جس کے سبب وہ جلد ہی رسائل میں چھپنے لگے۔
منٹو نے ابتداً ادبی رسائل میں لکھنا شروع کیا، لیکن اس دور میں تقسیم ملک کے دوران ہونے والے مظالم نے ایک حساس مصنف کے قلم سے کھول دو جیسے افسانے کو جنم دیا جس نے منٹو پر مشکلات کے دروازے کھول دیے۔ پھر ٹھنڈا گوشت جیسے افسانوں نے چودھری محمد حسین کی سربراہی میں ایک بھر پور محاذ کھول دیا، جس نے رسائل کے دروازے منٹو پر بند کر دیے۔
اس دور کے رسائل کے مدیران احمد ندیم قاسمی، ہاجرہ مسرور، اور عارف عبدالمتین منٹو کے خلاف اس تحریک پر نالاں مگر مجبور نظر آئے۔ پھر منٹو نے مسعود اشعر کی ادارت میں نکلنے والے ایک روزنامہ احسان کے لئے چند کہانیاں لکھیں، لیکن یہ سلسلہ بھی جلد ختم ہو گیا۔ اس کے بعد منٹو نے اپنے بمبئی کے دوست احسان بی اے اور مرتضیٰ جیلانی کے اخبار مشرقی پاکستان کے لئے چشم روزن کے نام سے کالم نویسی شروع کی۔ لیکن چند روز بعد منٹو والا کالم بغیر عنوان کے خالی پایا گیا۔
اس کے بعد روزنامہ آفاق میں منٹو نے مخصوص افراد کے شخصی خاکے لکھنا شروع کیے جس میں اشوک کمار، نرگس، نورجہاں، اور نسیم بیگم کے علاوہ ادبی شخصیات میرا جی، آغا حشر کاشمیری، اور عصمت چغتائی کے خاکے لکھے جو بعد میں گنجے فرشتے نامی کتاب میں شائع ہوئے۔ انہی خاکوں میں میرا صاحب کے عنوان سے قائد اعظم کا خاکہ بھی تھا، جو منٹو نے قائد اعظم کے بمبئی کے زمانے کے ڈرائیور حنیف آزاد کا انٹرویو کر کے لکھا تھا۔ یہی آزاد بعد میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف اداکار بنے۔ اس خاکے میں چند سطور دینا جناح سے متعلق بھی تھیں جنہوں نے واڈیا سے شادی کرلی تھی۔ ان سطور کو بعد میں سنسر کر دیا گیا۔
وائی ایم سی اے ہال لاہور کی ایک ادبی محفل میں منٹو نے چراغ حسن حسرت کی ہارٹ اٹیک سے رو بہ صحت ہونے والی محفل میں حسرت صاحب پر ایک خاکہ پڑھا جس کا عنوان بیل اور کتا تھا۔ اس خاکے میں مولانا کی شخصیت کے چند پہلوؤں کی عکاسی منٹو نے اپنے مزاح کے اور تنقیدی انداز میں کچھ اس طرح کی کہ انتظامیہ نے منٹو کو درمیان میں روک کر اسٹیج سے اتر جانے پر مجبور کیا۔ مگر منٹو نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور محفل میں کافی بدمزگی ہوئی۔ بالآخر منٹو کی بیوی صفیہ انہیں اسٹیج سے اتارنے میں کامیاب ہوئیں۔ جس پر منٹو نے کہا کہ میرے پاس ایسا کوئی کیمرہ نہیں ہے جو مثلاً آغا حشر کاشمیری کی تصویر سے ان کے چہرے کے نشانات کو غائب کرسکے۔
یہاں سے منٹو کے زوال اور پریشانیوں کے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب وہ ١٩٥٠ میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ایک ادبی محفل میں اپنا آرٹیکل میں افسانہ کیسے لکھتا ہوں پڑھنے آیا تھا، خوبصورت کشمیری رنگ کا چہرہ مہرہ، گھنے سرخی مائل بال، گبرڈین کی براؤن شیروانی، سلک کی پتلون، سلیم شاہی جوتا زیب تن کرنے والا خوبرو نوجوان۔ کچھ عرصے بعد جب وائی ایم سی اے ہال میں حلقۂ اربابِ ذوق کی محفل میں شرکت کے لئے آیا تو اس کا چہرہ کملا چکا تھا۔ چہرے پر زردی کے آثار نمایاں تھے، بالوں پر سفیدی گھر کر چکی تھی، اور وہ اپنی عمر سے بوڑھا لگ رہا تھا۔ ایک پرانا اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کا کالر اوپر کو اٹھا ہوا تھا اور اس کے گہرے فریم کے چشمے سے اس کی بڑی بڑی آنکھیں زرد نظر آرہی تھیں۔ پھر جب اس نے اپنے مخصوص ڈرامائی انداز اور آواز کے زیر و بم سے اپنا افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ سنایا تو افسانے کے اختتام پر تمام آنکھیں پر نم تھیں اور ہال میں مکمل سکوت طاری تھا۔
ایک وقت تھا جب شہر کے دانشوروں کی شاموں میں پاک ٹی ہاؤس واقع انار کلی نزد نیلا گنبد، فیض احمد فیض، احمد فراز، منیر نیازی، کمال احمد رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، اور انتظار حسین کے ساتھ منٹو کی موجودگی جان محفل سمجھی جاتی تھی۔ وہ اپنے برجستہ جملوں اور سنس آف ہیومر کے لئے مشہور تھا۔ پھر اہل لاہور نے اس منٹو کو بھی دیکھا جو دیوانوں اور مدہوشوں میں گنا جاتا تھا۔ دوست اس سے کترا کر گزر جاتے تھے، اس لئے کہ وہ ان سے ادھار مانگنے میں دیر نہ کرتا تھا۔ شام کسی رسالے، مخصوص طور پر ڈائریکٹر، کے دفتر جا بیٹھتا اور وہیں ایک افسانہ لکھ کر دس روپے وصول کرتا۔ اپنی مخصوص شراب کی دکان ایڈلجی کے لِکر اسٹور سے ساڑھے پانچ روپے کی بوتل خریدتا۔ آٹھ آنے تانگے والے کو دے کر گھر جاتا اور باقی چار روپے صفیہ کے ہاتھ آتے تھے۔
یہاں بر سبیل تذکرہ ایک بات کا ذکر ضروری ہے کہ غیر منقسم ہند کے زمانے میں جب بہت سے اہل ادب و سخن کے ساتھ منٹو بھی آل انڈیا ریڈیو میں ملازم تھے، وہاں ان کا باقاعدہ دفتر تھا جہاں وہ اپنا افسانہ ڈائریکٹ ٹائپ رائٹر پر لکھتے تھے اور افسانے کی تکمیل پر اپنے مخصوص انداز میں ٹائپ رائٹر سے کھر سے آخری کاغذ کھینچ کر نکالتے اور اسے اچھال دیتے ہوئے نعرہ لگاتے: لو یاروں کا افسانہ ہو گیا۔ اپنے بیشتر افسانے انہوں نے اسی ٹائپ رائٹر سے لکھے جو آخری وقت تک ان کے ساتھ رہا۔ منٹو کے انتقال کے بعد ن م راشد نے وہ ٹائپ رائٹر ان کی فیملی سے خرید لیا تھا۔ راشد صاحب کے انتقال کے بعد شیلا راشد سے ساقی فاروقی نے لے لیا جو انہوں نے گورمنٹ کالج لاہور کو تحفتاً دے دیا۔ کافی عرصہ وہاں ایک شو کیس میں سجا رہا۔ اب مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
اپنی عمر کے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دور منٹو نے انتہائی افسوسناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے حد استعمال سے اس کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا۔ اور آخر ١٨ جنوری ١٩٥٥ کی ایک سرد صبح اہل لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہل ادب نے یہ خبر سنی کہ اردو ادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اسی مجبور و نادار فاقہ کش اور قرض خواہ ادیب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اس کی پچاسویں برسی کے موقع پر پاکستان پوسٹل آفس نے منٹو کی تصویر کا پانچ روپے پوسٹل اسٹیمپ جاری کیا۔
زندگی کے آخری افسانوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، اس منجدھار میں، موزیل اور بابو گوپی ناتھ نامی افسانوں نے شہرت پائی۔ منٹو کی تحریر اور ان کی کتب کی فہرست طویل ہے۔ ١٩٤٠ میں افسانوں کا مجموعہ منٹو کے افسانے چھپا۔ ١٩٤١ میں دھواں، ١٩٤٢ میں افسانے اور ڈرامے، ١٩٤٨ میں لذت سنگ، ١٩٤٩ میں سیاہ حاشیے، ١٩٥٠ میں بادشاہت کا خاتمہ، خالی بوتلیں خالی ڈبے، نمرود کی خدائی اور ٹھنڈا گوشت، ١٩٥١ میں یزید، ١٩٥٣ میں پردے کے پیچھے اور سڑک کے کنارے، ١٩٥٤ میں بغیر عنوان کے۔ اور منٹو کے مرنے کے بعد ١٩٥٥ میں بغیر اجازت، برقعے، پھندنے، سرکنڈوں کے پیچھے، شیطان، شکاری عورتیں اور ١٩٥٦ میں رتی ماشہ تولہ، ١٩٦١ میں کالی شلوار، اور ١٩٧١ میں طاہرہ سے طاہر طبع ہوئی۔