قرۃالعین حیدر کا نام ان کے والد سجاد حیدر یلدؔرم نے ایک ایرانی شاعرہ قرۃالعین طاہرہ کے نام پر رکھا تھا، جو ایک بڑا اچھوتا سا نام تھا۔ قرۃالعین حیدر سے پہلے آپ نے کسی کا یہ نام شاید ہی سنا ہو۔ سجاد حیدر یلدؔرم (پیدائش سنہ ۱۸۸٠ء، وفات سنہ ۱٩۴٣ء) اردو ادب کا ایک نمایاں نام۔ آپ اردو کے سب سے پہلے افسانہ نگار تھے۔ آپ اردو ادب میں وہ پہلے مصنف تھے جنہوں نے ترکی ادب سے اردو میں بہت سے تراجم کئے۔
اپنے والد سے قرۃالعین عرف عینی کا تعلق وہی تھا جو عام طور پر بیٹی کا باپ سے ہوتا ہے۔ لڑکی کا پہلا ہیرو اس کا باپ ہی ہوتا ہے۔ عینی کے لئے یلدؔرم کی حیثیت باپ، معلم، ساتھی، رہبر، دوست، بہی خواہ اور ناصح و نقاد کی بھی تھی۔ اتنے بہت سارے رشتے ایک انسان میں جمع ہوں تو وہ انسان ایک فرد ہی نہیں ایک عقیدہ یا نظریہ بھی بن جاتا ہے اور ایسے ہی عقیدوں سے زندگی اور اس کی بڑائیوں پر ایمان مستحکم ہوتا ہے۔
ایک طرف عینی انگریزی اسکولوں میں انگریزی کی تک بندیاں حفظ کر رہی ہیں اور دوسری طرف خالدہ ادیب خانم کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا ذکر سنتی ہیں۔ ایک طرف جَیک اینڈ جِل پہاڑی پر چڑھتے اور گرتے ہیں اور دوسری طرف خوارزم شاہ کا مسودہ پھیلا ہوتا ہے۔ ایک طرف یونین جیک لہراتا ہے تو دوسری طرف ایران کی نڈر، بے باک، جانباز، اور سرفروش مجاہدہ قرۃالعین طاہرہ کی وہ فریاد سنتی ہیں جو کسی لے کی پابند نہیں تھی۔ ایک طرف نہنسور، مراد آباد اور جونپور کی حویلیوں میں مجلسوں میں شرکت کرتی ہیں اور دوسری طرف ازابیلا تھوبرن کالج کے ایوانوں اور کافی ہاؤسز کی ادبی مجلسوں میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف انگریز عہدیداروں اور دیسی جاگیرداروں کا طرزِ بود و باش ملاحظہ کرتی ہیں اور دوسری طرف ایک ابھرتی ہوئی فرقہ واریت اور زوال پذیر انسانیت سے دوچار ہوتیں ہیں۔
عینی کے خوبصورت کانچ کے گلدان میں پھولوں کی طرح کھلتی ہوئی زندگی کو پہلی گہری ضرب یلدؔرم کی موت سے پہنچی۔ موت کو محاورے کے طور پر استعمال کرنا بہت آسان اور بے ضرر ہوتا ہے، مگر جب موت کا نشانہ سیدھے سیدھے اپنے دل کا شیشہ چکنا چور کر جاتا ہے تو زندگی اپنی تمام تر اہمیت کے باوجود بے معنی و بے ثبات اور بے رحم محسوس ہوتی ہے۔ عینی جیسی ذہن و دل کی لڑکی اس پہلی چوٹ کی شدت سے جس طرح دوچار ہوئی اس کا صحیح تجزیہ کرنا ہو تو جہاں پھول کھلتے ہیں کا مطالعہ ضروری ہے۔
یلدؔرم کی موت پر بہتوں نے لکھا لیکن عینی کے اس نوحے نے جو غم و اندوہ کے روایتی فریم سے بار بار باہر نکل آتا ہے “اپریل کے سرسراتے ہوئے لمحوں” کو اپنا غم گسار مان کر آرزوؤں کے چلمن کے پردے پر وہ سب کچھ دیکھ لیا اور دکھا دیا جو صرف موت کے روزن میں جھانکنے سے ہی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ احساس کی یہ شدت، جذبے کی تمازت اور غم کی یہی وہ بڑی حقیقت ہے جو عینی کی تحریروں میں کبھی یادوں کا کارواں اور کبھی شعور کی لہر بن جاتی ہے، جسے قرۃالعین حیدر کا قاری کبھی ورجینیا وولف اور کبھی جیمس جوائس کے حوالے سے پڑھنا اور سمجھنا چاہتا ہے۔ عینی کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنے مطالعے کی وسعتوں کو اپنی تحریر میں اس طرح سموتی ہیں اور انہیں اپنے قاری کی سوجھ بوجھ پر اتنا اعتماد ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ جو کچھ وہ لکھتی ہیں صرف وہی نہیں بلکہ جو کچھ وہ محسوس کرتی ہیں وہ سب کچھ ان کا قاری اور نقاد بھی محسوس کرے گا۔
قرۃالعین ٢٠ جنوری سنہ ۱٩٢٧ء کو علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ عینی نے لکھنؤ یونیورسٹی کے کالج ایزابیلا تھوبرن سے گریجویشن کیا اور لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی ادبیات میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔عینی کی والدہ نذر زہرا بھی ناول نگار تھیں۔ ایسے پڑھے لکھے ماحول نے عینی کو وہ کچھ عطا کیا جس کے سبب آج تک ان کا نام زندہ ہے اور شاید کئی صدیوں تک زندہ رہے۔ انہوں نے اپنے ادیب ماں باپ کے زیر اثر گیارہ سال کی عمر میں افسانہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کے والد کا انتقال قیامِ پاکستان سے تین سال قبل ہو گیا تھا۔ عینی سنہ ١٩٤٧ء میں بیس سال کی عمر میں ہجرت کر کے پاکستان آگئیں جہاں وہ حکومت پاکستان کے شعبۂ اطلاعات میں ملازم ہوئیں۔ لیکن کچھ عرصے بعد ہی انگلستان منتقل ہو گئیں جہاں وہ بارہ سال مقیم رہیں۔ انگلستان کے قیام کے دوران سنہ ١٩٥٩ء میں عینی کی معروف کتاب آگ کا دریا منظر عام پر آئی جس نے قرۃالعین کو اردو ادب کی دنیا میں نمایاں نام بخشا۔ اس کتاب کے متعدد ایڈیشن چھپے اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوا۔
سنہ ١٩٦٢ء میں آپ دوبارہ ہندوستان جا کر بس گئیں۔ ہندوستان منتقلی کے بعد ابتداء میں آپ جوہو بستی میں مقیم ہوئیں، بعد میں دہلی کے مضافات میں نوئیڈا نامی بستی میں بس گئیں اور پھر تمام عمر وہیں رہیں۔
سنہ ١٩٦٥ء میں ہندوستان میں آپ کی پہلی ناول پت جھڑ کی آواز کے نام سے شائع ہوئی اور پھر اسی سال چائے کے باغ منظر عام پر آئی۔ آپ نے کوئی بارہ ناول لکھے جس میں روشنی کی رفتار، کار جہاں دراز ہے، آخر شب کے ہمسفر، گردشِ رنگِ چمن شامل ہیں۔ چار ناولٹ چار مختصر ناولوں کا مجموعہ ہے۔ ستاروں سے آگے، پکچر گیلری ، فصل گل آئی یا اجل آئی اور سفینۂ غم دل آپ کی دیگر تصانیف ہیں۔ آپ کا آخری ناول چاندنی بیگم ہے۔ دراصل چمنستان اردو ادب کے ناول نگاری کے تن آور درخت کی آبیاری اور اس کی ابتدائی جڑوں کو پروان چڑھانے کا سہرا عینی کے سر ہے۔
آپ نے سنہ ١٩٦٤ سے ١٩٦٨ تک کئی ادبی رسائل کی ادارت بھی کی۔ ١٩٦٨ سے ١٩٧٥ تک انڈین ویکلی کی مدیرہ رہیں جس کے سبب آپ کا نام صحافت میں بھی پہچانا جانے لگا۔
عینی کی ایک اور خاص بات جس سے کم لوگ واقف ہیں کہ شہنشاہ ایران نے ملکہ فرح دیبا کی زندگی پر ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا جس کے لئے قرۃ العین حیدر کا انتخاب کیا گیا۔ عینی ایک ماہ سے زیادہ فرح دیبا کے ساتھ مستقل رہیں اور ان کی زندگی پر ایک چھوٹے سائز کی کتاب کوہِ دماوَند لکھی جس کے سبب اس تمام عرصے وہ ملکہ کے ساتھ ہر محفل و ہر سفر حضر میں ساتھ رہیں۔ میں نے وہ کتاب پڑھی اور ملکہ کے بارے میں بہت کچھ جانا۔
آپ کو ہندوستان کے کئی اعلیٰ انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔ آپ کو فروغ اردو کے سلسلے میں پدم شری ایوارڈ حاصل ہوا۔ اس کے علاوہ ماہر اردو ادب و ماہر تعلیم کی حیثیت سے پدم بھوشن کا اعزاز حاصل ہوا۔ پدم بھوشن سرکار ہند کا تیسرا بڑا ایوارڈ ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو سنہ ١٩٦٧ میں ساہتیہ ایوارڈ، ١٩٦٩ میں نہرو ایوارڈ، ١٩٨٥ میں غالب ایوارڈ، اور ١٩٨٩ میں آپ کی کتاب آخر شب کے ہمسفر پر گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں خان عبدالغفار خان چیئر پر آپ کو پروفیسر آف دی ایئر کا اعزاز ملا۔ اس کے علاوہ آپ نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، یونیورسٹی آف شکاگو، یونیورسٹی آف وسکانسن اور یونیورسٹی آف ایریزونا میں بھی بحیثیت مہمان لیکچرر خطاب کیا۔
٢١ اگست سنہ ٢٠٠٧ کو اسّی سال کی عمر میں دہلی کے قریب نوئیڈا ہسپتال میں یہ منارۂ ادب ڈھے گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اسی دن جامعہ ملیہ کے احاطے میں آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ کے انتقال پر جہاں تمام دنیا کے ادباء نے انتہائی غم کا اظہار کیا وہیں ہندوستان کے صدر، ہندوستان کے وزیر اعظم، اور قرۃالعین کی آبائی ریاست یوپی کے چیف منسٹر نے بھی پیغام تعزیت بھیجے۔ اور اس طرح اردو ادب ایک بہت بڑے قلم کار سے محروم ہو گیا۔
آگ کا دریا سے ایک اقتباس
لوگو! خوش ہو لو کہ دنیا فانی ہے۔ جانے کتنے دن کا چین تمہارے نصیبوں میں لکھا ہے۔ آپس میں ہنس بول لو۔ غنیمت جان لو کہ یہاں دو چار ہم جنس مل بیٹھے ہیں۔ کل کیا جانے کیا ہو۔ کوچ نگارا سانس کا باجت ہے دن رین۔ باقی صرف خدا رہے گا جو کہیں بہت دور بیٹھا اس لیلا کا تماشا کرتا ہے۔ وہ خدا جو صوفیوں کا ہے اور فرنگی محل کے مولویوں کا اور بالا ناتھ کے جوگیوں کا۔ اور وہ کسی سمے بھی اپنی انگلی اٹھا کر کہہ سکتا ہے، بس اب ختم کیا جائے۔
اے حقیر اور بے بس اور مضحکہ خیز انسانو! تم ایک مکڑی کے غیر مرئی جال میں گرفتار ہوچکے ہو، مکڑی کو تم پہچانتے نہیں ہو کیوں کہ تمہارا جال غیر مرئی ہے۔ کب تک تمہاری یہ مسرت رہے گی۔ بے چارے لوگو! مسرت بڑی عظیم چیز ہے۔ دوسروں سے ان کی مسرت نہ چھیننا۔