﷽
اخباروں سے پتا چلا کہ امریکہ، سابق سوویت یونین، چین اور ہندوستان یہ چاروں ممالک وہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے چاند پر قدم رکھا، اور آئندہ چاند کو بنیاد بنا کر خلاؤں پر حکمرانى کى راہ ہموار کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبہ کى تکمیل کى شکل میں کتنى تعمیر ہوگى اور کتنى تخریب، اس کا اندازہ زمین پر قیاس کر کے بآسانى لگایا جا سکتا ہے۔
چاند کے تمنائیوں کے دعوے سن کر میرے گاؤں کے بڑے بوڑھے اپنى ہنسى نہ روک سکے، اور نوجوانوں پر تو گویا قہقہوں کا طوفان ٹوٹ پڑا۔ ہم وہاں نہیں تھے پر جب یہ خبر ہم تک پہنچى تو ہمیں حیرت اس پر ہوئى کہ چاند پر جانے والوں نے کوئى ایسى نئى بات نہیں بتائى جو چاند پر نہ جانے والوں کے لئے راز سر بستہ ہو، بلکہ ہمارے قدیم شعراء کے یہاں چاند کے متعلق جو انوکھى تحقیقات ملتى ہیں ان سے سارے سائنسداں اب تک نابلد ہیں۔ یعنى فلک پیما ابھى تک شاعروں سے بمدارج پیچھے ہیں۔ یہ پسماندگى اور اوپر سے یہ غرور!
ایک زمانہ میں برکات حکومت انگلشیہ گنائى جاتى تھیں، اب حکومتوں کے پاس گنانے کو برکتیں نہیں بچیں تو چاند پر نشیمن بنانے کو سب سے بڑى برکت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ چاند پر پلاٹ بیچے جا رہے ہیں، اور فقہاء کے اس قول کى دھجیاں اڑائى جا رہى ہیں کہ انسان جس چیز کا مالک نہ ہو اسے بیچ نہیں سکتا، الغرض ہر طرف چاند ہى کى باتیں ہو رہى ہیں، اور چاند ہى کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
ہمارے گاؤں کے لوگوں کے خیال میں چاند پر سب سے پہلے پہنچنے کى بات ایسى ہى ہے جیسے ایک زمانہ میں کہا جاتا تھا کہ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا۔ یہ جھوٹ کئى سو سال تک چلا، مگر اب سارى دنیا پر یہ حقیقت عیاں ہو چکى ہے کہ امریکہ نئى دنیا نہیں بلکہ پرانى دنیا کا ایک حصہ ہے۔ کولمبس سے بہت پہلے مسلمان وہاں پہنچ گئے تھے اور ان کے اثرات آج تک موجود ہیں۔
میرے بچپن میں گاؤں کا بچہ بچہ اس حقیقت سے بخوبى واقف تھا کہ چاند میں ایک بڑھیا ہے جو بیٹھى ہوئى چرخہ پر سوت کاتتى رہتى ہے۔ چاندنى راتوں میں بڑھیا کے بیٹھنے اور سوت کاتنے کا خوبصورت منظر ہم اپنى آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ ظاہر ہے کہ کھلى آنکھوں سے دیکھنا سب سے بڑا ذریعۂ علم ہے۔ دنیا کے پاس اس سے بڑھ کر کوئى سچى دلیل نہیں ہو سکتى۔
جو حقیقت کا چشم بینا سے مشاہدہ کرتا ہو اس کے سامنے اگر اس طرح کے جاہلانہ دعوے کئے جائیں کہ سب سے پہلے امریکہ نے چاند پر قدم رکھا تو وہ زور زور سے قہقہہ لگانے یا کسی پتھر پر اپنا سر پھوڑنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہے۔
رہا یہ سوال کہ وہ بڑھیا چاند پر کب پہنچى؟ تو اس سوال کا جواب میرے گاؤں میں کسى کے پاس نہیں تھا، کیونکہ ہمارے گاؤں میں لوگ صرف وہى بات کہتے ہیں جس کى دلیل ان کے پاس ہو، ہمارے باپ دادا نے بھى اپنے بچپن میں اس بڑھیا کو چاند میں دیکھا تھا، اور ہمارے پرکھوں اور پرکھوں کے پرکھوں میں سے کسى نے کبھى یہ نہیں کہا کہ وہ بڑھیا جوان تھى، پھر بوڑھى ہوگئى، یا وہ وہاں نہیں تھى پھر اچانک ایک روز نمودار ہوگئى۔ اس کا مطلب ہے کہ گاؤں کى طویل تاریخ میں چاند میں بسنے والى وہ بڑھیا ہمیشہ بڑھیا ہى رہى ہے۔
بڑھیا کے اس دائمى بڑھاپے کى ایک توجیہ یہ ہو سکتى ہے کہ چاند پر عمریں نہیں بدلتیں۔ وہاں ماہ و سال کى آمد و رفت سے کوئى فرق نہیں پڑتا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بڑھیا بڑھاپے کى حالت میں ہى چاند پر پہنچى، اور پھر اس وقت سے اب تک اسى عمر پر باصرار قائم ہے۔
یہاں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بڑھیا چاند پر کیوں گئى؟ اس کا جواب جو کچھ بھى ہو، لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں ہو سکتا کہ چاند پر کمند کسى مرد نے نہیں بلکہ ایک عورت نے ڈالا اور وہ بھى بڑھاپے کى حالت میں۔
عین ممکن ہے کہ زمین پر مردوں کے شر و فساد سے تنگ آکر اُس نے اِس سیارہ سے نکل کر کہیں اور بسنا چاہا ہو، اور خلائى سفر کے دوران اس کى پہلى منزل چاند رہى ہو۔ چاند اسے اتنا پسند آیا کہ اس نے یہیں بس جانے کا عزم کر لیا۔ چاند سے اس کى مناسبت کى ایک وجہ یہ ہو سکتى ہے کہ ایام جوانى میں وہ بڑھیا بڑى خوبصورت رہى ہو، اور اس کے حسن کى تشبیہ چاند سے دى جاتى رہى ہو، اسى لئے جب اس نے چاند پر قدم رکھا ہو اسے انسیت کى بو محسوس ہوئى ہو اور یہیں رک جانے کا فیصلہ کر لیا ہو۔
اب ایک سوال اور ہے کہ کیا وہ بڑھیا ہر وقت سوت کاتتى رہتى ہے؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے، وہ صرف چاندنى راتوں میں یہ کام کرتى ہے، دوسرى راتوں میں وہ کچھ اور کرتى ہے، اور دن کى روشنى میں اس کے مشاغل متنوع ہوتے ہوں گے جن کى ہمیں خبر نہیں ہوتى۔
پھر بھى یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چاندنى راتوں میں ہى سہى وہ اتنا سوت کیوں کاتتى ہے؟ شاید اس کى وجہ یہ ہو کہ چاند پر کپڑے بہت جلد بوسیدہ ہو جاتے ہوں، اور اسے ہر وقت نئے کپڑوں کى ضرورت پڑتى ہو، اسى لئے وہ سارا وقت سوت کاتنے میں گزار دیتى ہو۔ اور یہ بھى ممکن ہے کہ گلوں کى قبائیں چاند سے اترتى ہوں جنہیں یہ بڑھیا محنت سے تیار کرکے بھیجتى ہو۔ ہمیں یقین کے ساتھ صرف اتنا معلوم ہے کہ ہمارے گاؤں کى کئى نسلیں چاند پر بڑھیا کو سوت کاتتے دیکھتى آئى ہیں، اس کے بعد اور دوسرے پیدا ہونے والے سوالات میں پڑ کر وہ اپنى الجھنیں بڑھانے کے قائل نہ تھے:
گرہ ہوں گتھیاں ہوں، پیچ و خم سے جس کے الجھن ہو
یہى مضمون جو بٹنا ہے تو زلفیں کیوں ہوں پھر سن ہو
تا ہم ایک بات غور کرنے کى ہے کہ اگر چاند پر کوئى مرد گیا ہوتا تو خلاؤں میں کس قدر فتنہ و فساد پیدا ہو چکا ہوتا، وہ چاند کى خوبصورتى سے لطف اندوز نہ ہوتا، بلکہ اس کا جائزہ لیتا کہ چاند میں کہاں کوہ ہے اور کہاں غار۔ اور کہاں بم داغے جائیں اور کہاں کیمیائى ہتھیاروں کا استعمال ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو پورى دنیا اس وقت خلائى جنگ کى زد میں ہوتى۔ یہ عورتوں کى پر سکون اور جمال پسند طبیعت کا اثر ہے کہ چاند پر پہنچنے والى پہلى خاتون صرف تعمیرى کاموں میں رات دن مصروف ہے، اور ہمارى دعا ہے کہ وہ بڑھیا چاند میں ہمیشہ آباد رہے، اور کوئى مرد چاند پر پہنچنے میں کبھى کامیاب نہ ہو۔