مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةشخصیاتعلامہ سید سلیمان ندوی

علامہ سید سلیمان ندوی

۲۲؍ نومبر کو ہر سال دنیائے اسلام کے ممتاز مؤرخ، محقق اور سوانح نگار علامہ سید سلیمان ندوی کا یوم ولادت منایا جاتا ہے۔
عجیب اتفاق ہے کہ ۲۲؍ نومبر علامہ کی یوم پیدائش بھی ہے اور انتقال بھی۔ چنانچہ ایسے موقع پر ہندوستان و پاکستان میں متعدد تنظیموں، یونیورسٹیوں اور مختلف اداروں کی جانب سے جلسوں اور مذاکروں کے انعقاد اور یادگاری مجلوں کی اشاعت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یوں تو دنیا کی تمام اہم شخصیتیں اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعہ ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔ پھر بھی یہ دستور ہے کہ یوم پیدائش کے موقع پر ان کی یاد منائی جائے۔ در اصل اس کا مقصد اس شخصیت سے اپنی عقیدت اور ممنونیت کے اظہار کے ساتھ ساتھ خود اپنے اندر تجزیہ، تحقیق اور جستجو کے ذوق کی تربیت دینا بھی ہوتا ہے۔
علامہ سید سلیمان ندوی ۲۲؍ نومبر ۱۸۸۴ء میں صوبہ بہار کے دسنہ نام کے گا ؤں میں پیدا ہوئے۔ دسنہ پٹنہ کے نزدیک بہار شریف سے تقریباً ۸؍ کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ گاؤں شروع سے ہی بڑا مردم خیز رہا ہے۔ یہاں بڑے بڑے صوفیہ، بزرگانِ دین، شاعر و ادیب اور دوسرے علوم و فنون کے ماہرین پیدا ہو چکے ہیں۔ چنانچہ علامہ سید سلیمان ندوی کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ جو قدرت کی طرف سے غیر معمولی ذہن لے کر آئے تھے۔
علامہ سید سلیمان ندوی کو اللہ تعال نے جو جامعیت عطا فرمائی تھی وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔ تفسیر قرآن کے ماہر، دریائے حدیث کے شناور، دربار فقہ و قضاء کے صدر نشیں، تاریخ و سیرت و سوانح کے چیمپئن، اردو، فارسی و عربی کے استاد، شاعر و ادیب، زبان داں اور خطیب، وقت کی سیاست کے رمز شناس، ملت اسلامیہ کے غم گسار، تقویٰ و طہارت، حلم و مروت اور شرافت کے پیکر کیا نہ تھے سید سلیمان ندوی۔
علم و دین و حکمت و دانش کا ایسا اجتماع
جلوہ گر ہوتا ہے اک پیکر میں صدیوں میں کہیں
وسعت معلومات کا یہ عالم تھا کہ مستشرقین بھی آپ کا لوہا مانتے تھے۔ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے علماء و فضلاء اور محققین آپ کے معتقد تھے۔ شروع شروع میں سید صاحبؒ کے علمی تبحُّر، ان کے حقیقی خد و خال اور ان کے فکر کے دور رس اثرات معاصرین کی نگاہوں سے اوجھل تھے لیکن اس کا احساس سب سے پہلے علامہ اقبال کو ہوا۔ جس طرح حضرت شاہ ولی اللہ کی عظمت کا احساس سب سے پہلے مظہر جان جاناں کو ہوا تھا اسی طرح علامہ سید سلیمان ندویؒ کے علمی تبحُّر اور ان کے کارناموں کے عظیم الشان اثرات کا مشاہدہ سب سے پہلے علامہ اقبال کے چشم جہاں بین نے کیا اور وہ بے اختیار پکار اٹھے:
“علوم اسلام کے جوئے شیر کا فرہاد آج ہندوستان میں سوائے سید سلیمان ندوی کے اور کون ہے۔”
علامہ اقبال سے پہلے نہ تو کسی نے ان کی صدائے تیشہ سنی تھی نہ ان کی جوئے شیر کو کسی نے دیکھا تھا۔ علامہ اقبال کی آواز نے اک دم سے چونکا دیا اور معاصرت کے حجاب گرنے شروع ہوگئے اور ایسا محسوس ہوا کہ:
یک چراغیست دریں خانہ کہ از پر تو آں
ہر کجا می نگری انجمنے ساختہ اند
سید صاحب سنہ ۱۸۸۴ ء میں پیدا ہوئے تھے اور ۱۹۵۳ء میں انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اس مدت میں ہندوستان کے سیاسی حالات نے کیا کیا رنگ بدلے اور وقت کا قافلہ کن کن نازک مرحلوں سے گزرا لیکن تیشۂ فرہاد کبھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تحقیقات و تصنیفات کی ادبی قدر و قیمت بڑھتی گئی۔ سید صاحب نے صرف اسلامیات ہی کو نہیں بلکہ اسلامی ثقافت کو اپنے فکر و مطالعہ کا موضوع بنایا اور ان سے متعلق علوم کی ہر شاخ کا نہ صرف گہرا مطالعہ کیا بلکہ جو کچھ انھوں نے لکھا اس سے ان کے مصادر کی اہمیت بھی روشن ہوتی گئی۔
انھوں نے اردو، فارسی، عربی زبان و ادب کی علاوہ تاریخ عالم، تاریخ اسلام و مسلمین، عربی تہذیب و تمدن اور اسلامی فلکیات و بحریات کا بھی کوئی گوشہ ادھورا اور تشنہ نہیں چھوڑا۔ انھوں نے نصف صدی تک ہندوستان اور عالم اسلام کو اپنے قلم کی روانی سے سیراب، اپنی شعلہ نفسیوں سے گرم اور اپنی نواسنجیوں سے پرشور رکھا اور اپنی انتھک تحقیقی کاوش اور سحر انگیز قلم کی جادو گری سے خشک سوتوں کو اس طرح جگایا کہ محققین حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ اگر آپ کو ابنِ رشد کی تلاش ہو تو سیرۃ النّبی جلد سوم کو دیکھیے۔ اگر ابن خلدون اور ابن تیمیہ کی تصویر دیکھنا چاہتے ہوں تو سیرۃ النبیؐ جلد چہارم دیکھیے۔ ابن قیم کی تعلیمی موشگافیوں کا مطالعہ کرنا ہو تو سیرۃ النبیؐ جلد پنجم پڑھیے، غزالی اور رومی کے فلسفۂ اخلاق کی تلاش ہو تو سیرۃ النبی کی جلد ششم پڑھیے، سحر انگیز خطیب اور جامع صفات پیغمبر کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں تو خطبات مدراس پڑھیے۔ البیرونی، ابن بطوطہ کی سیر و سیاحت اورقدیم ہند کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں تو عرب و ہند کے تعلقات پر ایک نظر ڈالیے۔ ایک بڑے عالم، حکیم و صوفی کو دیکھنا چاہتے ہوں تو خیام کا مطالعہ کیجئے۔
بدنام خیام رند و شاہد باز کے بجائے ایک بڑا عالم، حکیم و صوفی نظر آئے گا۔ ابن ماجد، واسکو ڈی گاما کی سیاحت اور عربوں کی بحری ایجادات و منکشافات جاننا چاہتے ہوں تو عربوں کی جہاز رانی کا مطالعہ کیجئے۔ غرض علامہ سید سلیمان ندوی نے نصف صدی تک بے تکان لکھا اور کتنے ہی موضوعات ایسے ہیں جن پر انھوں نے اردو کو قابل فخر و لائق اعتبار سرمایہ دیا ہے۔ انھوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن کے بارے میں اردو زبان تہی دامن تھی۔ لیکن ان موضوعات کا دامن ہمارے شب و روز سے جڑا ہوا تھا اور جن کو سمجھے بغیر ہم اپنے ماضی کی شاندار روایت سے اپنا رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتے تھے۔ غرض سید صاحب نے اپنی پوری زندگی علمی و ادبی خدمات کی خاطر وقف کردی۔ مرحوم کی زندگی کا ہر لمحہ ملت کی زندگی کے لیے ایک نیا پیام لاتا تھا۔
انھوں نے میدان علم و ادب میں جو بیش بہا گوہر لٹائے ہیں اسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ ان کے علمی و ادبی کارنامے تاریخ ساز اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے یہاں ضروری سمجھتا ہوں کہ سید صاحب کی اہم تصنیفات و تحقیقات کا مختصر تعارف کر چلوں کیوں کہ بغیر اس کے ان کی علمی، ادبی تحقیقات کا جائزہ مشکل ہوگا۔ اس لیے ہم سر دست سید صاحب کی تصانیف کا ایک اجمالی خاکہ اور ان کی تحریروں کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں۔ یہ گویا ان کی علمی فتوحات کے صرف ایک پہلو پر طائرانہ نظر ہوگی۔
سیرت النّبیؐ
سیرت النّبیؐ (جلد ١، جلد ٢، جلد ٣، جلد ٤) مولانا شبلی اور سید سلیمان ندوی کی مشترک تالیف ہے۔ یہ کتاب چھ ضخیم مجلدات پر مشتمل ہے، جس کے شروع کے دو حصے مولانا شبلی نے مکمل کیے تھے اور اس کے بعد کے چار حصوں کو سید صاحب نے مکمل کیا۔
اس سیرت کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ یہ تنہا سوانح نبوی نہیں بلکہ اس میں اسلام کے عقائد، عبادات، معاملات اور اخلاق کا خلاصہ آگیا ہے اور اس حیثیت سے یہ اسلامی تعلیم کی دائرۃ المعارف کہی جاسکتی ہے۔ دوسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ روایت کے ردّ و قبول میں بڑی احتیاط برتی گئی ہے اور ان کی تحقیق میں نقد و جرح اور روایت و درایت کی تمام محدثانہ اور تحقیقی اصولوں کو کام میں لایا گیا ہے۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ان اعتراضات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے جو اسلام اور آنحضرت ﷺ کے سلسلے میں مخالفین کرتے آئے ہیں۔ ان اعتراضات کے جواب کے لیے مناظرانہ بحث و مباحثہ کی راہ اختیار نہیں کی گئی ہے بلکہ نفس واقعہ کو ایسے محققانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ اعتراضات خود بہ خود اٹھ جاتے ہیں۔ اس طرح سید صاحب نے مولانا شبلی کے ادھورے کام کو اس احتیاط و اہتمام کے ساتھ قلم بند کیا کہ سیرت نبویؐ کے اہم پہلو تو عیاں ہو ہی گئے ہیں، ساتھ ہی اسلامی نظامِ فکر و عمل کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔
خطبات مدراس
خطبات مدراس سید صاحب کی دوسری اہم کتاب ہے۔ مدراس کے کچھ بزرگ اور دیندار مسلمانوں کی گزارش و فرمائش پر اکتوبر ۱۹۲۵ء میں سید صاحب نے سیرت النبی کے مختلف پہلوؤں پر جو تقریریں کی تھیں، خطبات مدراس انہی خطبوں کا مجموعہ ہے۔ اگرچہ اس کے صفحات کی تعداد صرف ڈیڑھ سو ہے مگر اس مختصر سی کتاب میں معلومات کا ایک دفتر موجود ہے۔ اس میں کل آٹھ خطبے ہیں اور ہر خطبہ جامع اور مکمل ہے۔ پہلے خطبے میں اس کی نشاندہی کی گئی کہ انسانیت کی تکمیل انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ دوسرے خطبے میں اس تاریخی صداقت کو پیش کیا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حیات پاک ہی ایک ہمہ گیر نمونۂ عمل ہے۔ تیسرے خطبے میں سیرت نبویؐ کی زندگی کے تمام واقعات و حالات کو انتہائی حقیقت پسندی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں متعلقہ عہد کے عربی معاشرے کے حالات اور اسلام کے زیر اثر رونما ہونے والے تغیرات پر بھی تشفی بخش طور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چھٹے خطبے میں سیرت نبویؐ کے عملی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ساتویں خطبے میں دوسرے تمام اہم مذاہب کے بمقابلہ اسلام کی حقانیت اور صداقت و برتری کو پیش کیا گیا ہے۔ آٹھویں خطبے میں اسلام کے بنیادی نکات و تعلیمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ خطبات مدراس ایک ایسی کتاب ہے جس کے مطالعہ سے رسول اکرم ﷺ کی زندگی کے تمام اہم گوشے سامنے آجاتے ہیں۔
سیرت عائشہ
سیرت عائشہ سید صاحب کی ایک اہم کتاب ہے۔ حالانکہ یہ کتاب جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوانح حیات ہے لیکن بنظر غور مطالعہ سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ سوانح عمری بھی سیرت رسولؐ کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حالات زندگی، ان کی عادات و خصائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نیز ان کے علم و فضل اور فہم و فراست پر بحث و تبصرہ کیا گیا ہے۔
حیات مالک
حیات امام مالک میں حضرت امام مالکؒ کی سوانح عمری، ان کے اخلاق و عادات اور حالات زندگی اور ان کی تصنیفات پر تبصرہ ہے۔ تابعین مدینہ اور فقہائے حجاز کے حالات، علم حدیث کی ابتدائی تاریخ اور حدیث جمع کرنے کے لیے محدثین کرام کی کاوشوں کا ذکر ہے۔
ارض القرآن
ارض القرآن سید صاحب کی نہایت ہی اہم کتاب ہے۔ اگر چہ سیرت نبویؐ اس کا موضوع نہیں لیکن مصنف نے خود اس کو سیرۃ النبیؐ کے دیباچہ کی اہمیت دی ہے۔ سید صاحب کی یہ کتاب شروع سے آخر تک معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ عرب کے جغرافیائی مصادر و ماخذ کی طویل فہرست کے علاوہ اس کتاب میں سید صاحب نے ادبیات اسلامیہ کے ذیل میں جن مطبوعہ اور غیر مطبوعہ عربی زبان کی کتابوں کا ذکر کیا ہے، وہ ایک ایسی علمی فہرست ہے کہ ہمارے علماء جو انگریزی یا اس قسم کی جدید عصری زبان سے ناواقف ہیں وہ ادبیاتِ اسلامیہ کی ان کتابوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ عرب اور اس کے جغرافیہ و تاریخ کے ساتھ یورپ کے ارباب تحقیق نے جن غلط معلومات کو عام کرنے اور صحیح ثابت کرنے کی کوشش کی تھی سید صاحب نے اپنی کتاب میں ان تمام مغربی مصنفین اور محققین کی تاریخی و تحقیقی غلطیوں کا بڑے سلیقہ سے پردہ فاش کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ قرآن فہمی کے معیار میں زبردست انقلاب پیدا کرتا ہے۔
عرب و ہند کے تعلقات
تہذیبی و ثقافتی طور پر عرب و ہند کے تعلقات سید صاحب کی بے حد اہم تصنیف ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے موضوع تحریر کی مناسبت سے بر صغیر ہندوستان سے مسلمانوں کے گہرے، ہمہ گیر اور قدیم تعلقات کا مبسوط جائزہ پیش کیا ہے۔ پہلے باب میں ارض ہند سے عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات کی تفصیلات پیش کی گئی ہے۔ اس ضمن میں سید صاحب کی تحقیقی بصیرت کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ دوسرے حصے میں تجارتی راستوں اور ان کی درمیانی منزلوں اور بندگاہوں کی تفصیل بھی ہے اور اس وقت کے ہندوستان کی پیداوار وغیرہ کا بھی ذکر ہے۔ تیسرے باب میں عہد قدیم میں ہندوستان اور عرب ممالک کے علمی تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چوتھے باب میں عرب و ہند کے مذہبی تعلقات کی تفصیل موجود ہے۔ آخری اور پانچویں باب میں ہندوستان میں سیاسی طور پر مسلمانوں کی پیش قدمی، سربلندی اور اس کے ہمہ جہت اثرات کو قلمبند کیا گیا ہے۔ غرض اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اسلام کا تعلق ہندوستان سے بہت ہی قدیم ہے۔ مختلف ثبوتوں اور دلائل سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اسلامی فتوحات سے قبل ہندوستان میں کہاں کہاں مسلمان آباد تھے اور کہاں کہاں ان کی نو آبادیاں تھیں اور ان کے ہندوؤں سے کتنے گہرے تجارتی اور ثقافتی تعلقات تھے۔
خیام
یہ کتاب ۵۱۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں حیات خیام پر محققانہ اور ناقدانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ اس کے فضل و کمال اور مشاہیر و معاصرین اور سلاطین سے اس کے تعلقات پر تبصرہ کیاگیا ہے۔ اس کتاب کی قدر و قیمت کااندازہ لگانے کے لیے علامہ اقبال کا یہ جملہ کافی ہے:
“عمر خیام پر آپ نے جو کچھ لکھ دیا اس پر اب کوئی مشرقی یا مغربی مصنف یا عالم اضافہ نہ کرسکے گا۔”
سید صاحب نے یہ کتاب محض اس اظہار کے لیے لکھا تھا کہ اہل مغرب کو یہ معلوم ہو جائے کہ ان کو جس ریسرچ پر ناز ہے مشرقی علماء ان میں سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ عمر خیام کو اہل یورپ نے غلط ڈھنگ سے پیش کر کے اسے شرابی و عیاش ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ سید صاحب نے اپنی اس تصنیف میں مختلف دلیلوں اور شواہد کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ خیام اپنے عہد کا ممتاز فلسفی، ریاضیات اور ہیئت و نجوم کا ماہر اور اخلاقی قدروں کا دیندار مبلغ تھا۔
عربوں کی جہاز رانی
یہ کتاب سید صاحب کے خطبات کا مجموعہ ہے جسے Islamic Research Association Bombay کی طرف سے پہلی بار ۱۹۳۵ء میں معارف پریس اعظم گڑھ سے شائع کیا گیا۔ جغرافیہ اور تہذیبی تاریخ سے متعلق معلومات کا بہترین نمونہ ہے ۔۔۔ عربوں کی جہاز رانی
نقوش سلیمانی
یہ سید سلیمان ندویؒ کی ہندوستان اور اردو زبان و ادب سے متعلق تقریروں اور مقدموں کا مجموعہ ہے جسے معارف پریس اعظم گڑھ نے ۱۹۳۶ء میں شائع کیا ہے۔ نقوش سلیمانی میں پانچ خطبات، پندرہ مقالات اور گیارہ کتب پر مقدمات ہیں۔
رحمت عالم
رسول اکرمؐ کی سیرت پاک طلبہ اور معمولی پڑھے لکھے لوگوں کے لیے مرتب کی تھی۔ شروع میں رحمت عالم صوبہ بہار کے اسلامی مکتبوں کے لیے منتخب ہوئی پھر ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے اسکولوں، کالجوں کے نصاب میں داخل کرلی گئی اور آج بھی یہ کتاب پاکستان کے اسکولوں کے نصاب میں شامل ہے۔
خواتین اسلام
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے خواتین اسلام میں مسلمان خواتین کے کارنامے درج ہیں جو انھوں نے میدان جنگ یا دوسرے اہم موقعوں پر انجام دیئے ہیں اس میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے غزوۂ احد کے کارنامے سے لے کر نور جہاں بیگم، پونجی خاتون اور چاند بی بی تک کے شجاعانہ کارنامے درج ہیں۔ یہ خواتین اسلام پر اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔
حیات شبلی
علامہ سید سلیمان ندوی شبلی نعمانی کے شاگرد رشید تھے۔ مولانا شبلی نعمانی کے انتقال پر سید صاحب کو گہرا صدمہ پہنچا جس کا اظہار انھوں نے ایک پردرد مرثیہ میں کیا۔ لیکن اتنا ان کے لیے کافی نہیں ہوا اور انہوں نے حیات شبلی کے عنوان پر ساڑھے آٹھ سو صفحات کی ضخیم کتاب لکھی۔ اس میں علامہ شبلی کی سوانح عمری اور علمی و ادبی و سیاسی کارناموں کی تفصیل موجود ہے۔
لغات جدیدہ، دروس الادب، مقالات سلیمانی (حصہ ١، حصہ ٢۔ حصہ ٣) وغیرہ بھی کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ ’معارف‘ کا شذرات اہم شخصیات کے انتقال پر آنسو بہانے کے لیے وقف تھا اور آخر میں اس نے وفیات کا مستقل عنوان اختیار کر لیا اور پھر ان تمام مضامین کا مجموعہ یاد رفتگاں کے عنوان سے کراچی سے شائع ہوا۔ یہ کتاب حقیقت میں نصف صدی کی داستانِ غم ہے۔ یہ صرف ان مضامین کا مجموعہ نہیں جنہیں سید صاحب نے جانے والوں کے غم میں سپرد قلم کیا بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ ان کے دل کے ٹکڑے ہیں جو صفحات پر بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ چالیس سال کے آنسو ہیں جو قطرہ قطرہ گر کر سمندر کی شکل میں جمع ہو کر عبرت کا ایک مرقع بن گیا ہے۔ ۱۹۱۴ء سے لے کر اپنی وفات سے کچھ دنوں قبل تک یعنی ۱۹۵۲ء تک کی ایک درد بھری کہانی ہے۔ گو اس میں استاد کا ماتم ہے, رفیقۂ حیات کا نوحہ ہے, فضل و کمال کا مرثیہ ہے, اخلاق و شرافت کا رونا ہے, دینداروں کا غم ہے, بے دینوں کا سوگ ہے لیکن سب سے زیادہ اس مین خود ان کی زندگی کا پرتو ہے اور اس دور کی کہانی ہے جو نہ اب دیکھنے کو ملے گی اور نہ سننے کو۔
اس مجموعہ میں ہندو بھی ہیں مسلمان بھی، عیسائی بھی ہیں یہودی بھی، ہندوستانی بھی ہیں انگریز بھی، مصری بھی ہیں ترکی بھی، ان میں جج بھی ہیں بیرسٹر بھی، عالم بھی ہیں مسٹر بھی، پیر بھی ہیں فقیر بھی، شاعر بھی ہیں خطیب بھی، سیاست داں بھی ہیں گوشہ نشیں بھی۔ واقعی کیسا دل تھا جو سب کے لیے بے قرار، کیسی آنکھیں تھیں جو سب کے لیے اشکبار رہا کرتی تھیں۔ رسول عربیؐ کے شیدائی نے محبوب کی کتنی ادائیں اپنے اندر جمع کرلی تھیں۔ بہر کیف یاد رفتگاں کے یہ مضامین اردو ادب میں ایک روزن ہے اور اس کے اکثر مضامین زندہ جاوید ہیں۔ یہ مضامین نہ صرف اردو ادب بلکہ دنیائے ادب کے انمول جواہر پاروں میں شمار کیے جانے کے قابل ہیں، کیونکہ یہ تاریخ و سوانح کی قیمتی شہ پارے اور خود مصنف کے وسیع قلب اور وسیع دماغ کا نگارخانہ ہے۔
غرض سید سلیمان ندوی کے علمی و ادبی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے جسے اس مختصر وقت میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ مختصر یہ کہ وہ جب تک زندہ رہے دینی و علمی خدمات سے کبھی غافل نہیں رہے۔ ان کی پُر درد آواز ہندوستان اور دنیائے اسلام کے ہر قیامت آفریں سانحے میں صدائے سوز بن کر بلند ہوتی رہی۔ ان کا بے قرار دل قوم کے ہر مصیبت کے وقت بے تاب ہو جاتا تھا اور اوروں کو بھی بے تاب کردیتا تھا۔ ان کی آتشیں زبان ہر رزم میں تیغ و برآں بن کر چمکتی رہی۔ لیکن دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کا یہ منظر بھی کس قدر عبرت آموز ہے اس سے کسی کو نجات نہیں۔ چنانچہ ۲۲؍ نومبر ۱۹۵۳ء کو وہ وقت بھی آپہنچا اور علامہ سید سلیمان ندویؒ نے کراچی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
داغِ فراق صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
المادة السابقة
المقالة القادمة
ڈاکٹر سید ارشد اسلم
ڈاکٹر سید ارشد اسلم
ڈاکٹر سید ارشد اسلم صاحب اردو زبان و ادب کے استاذ ہیں اور رانچی یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے ۔صدر رہ چکے ہیں
مصنف کی دیگر تحریریں