مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةانشائیہسونے کی چڑیا

سونے کی چڑیا

تایا جی نے، جو ببلو کو پکڑے ہوئے تھے، چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ببلو کی نظریں بے ساختہ چھت کی جانب اُٹھ گئیں۔ خلیفہ نے اس بیچ اپنا کام دکھا دیا۔
ببلو کی چیخ بلند ہوئی اور ساتھ ہی اس نے رونا شروع کردیا ” ہائے اللہ امی، امی جی، ہائے اللہ ابا، ہائے اللہ تایا ابو، اللہ جی، امی جی!!
خلیفہ مشّاقی سے مقامات متاثرہ پر پھٹکری پھیر رہا تھا۔ ساتھ ہی ‘مبارک ہو، مبارک ہو’ کی صدائیں بھی بلند ہو رہی تھیں۔ ببلو کا رونا اب سسکیوں میں بدلتا جارہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے ساتھ کیا کاروائی ہوئی ہے۔
کچھ ہی دیر بعد خلیفہ اپنا کام مکمل کرچکا تھا۔ ببلو کو اس کے بستر پر لٹا دیا گیا۔ چچی جان مہمانوں کو بیسن کے لڈّو پیش کررہی تھیں۔ ببلو سسکیوں کے درمیان ٹکر ٹکر سب کو دیکھ رہا تھا۔
“کھانا کھل گیا ہے” ایک خوش کن بلند آواز آئی اور مہمان صحن میں بچھی دریوں کی طرف لپکے جہاں چاندنیوں پر دسترخوان بچھے تھے۔ مراد آبادی برتن، کٹوریاں، گلاس یہاں وہاں دھرے تھے۔
سینیوں میں بریانی، ڈونگوں میں قورمہ اور پراتوں میں سجے نان دسترخوان پر رکھے جارہے تھے۔ “واہ بھئی! قورمہ تو بڑا مزیدار ہے” ایک دو ستائشی آوازیں ابھریں۔ “بھئی یہ بھی اپنے خلیفے کا کمال ہے” تایا جی نے بتایا۔ یاد آیا کہ صبح ہی سے گھر کے سامنے چارپائی بچھائے خلیفہ پیاز کتر رہا تھا۔ سامنے دیگیں چولہوں پر رکھی ہوئی تھیں۔
۔۔۔
“ابو! آر یو شیور۔۔اِٹ واز نائی ہو ڈِڈ اِٹ؟”
“جی بیٹا۔۔نائی ہی یہ کام کیا کرتے تھے” میں نے بچوں کو بتایا توان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
“ابو یہ کام تو سرجن کا ہوتا ہے۔ باربر کیسے یہ کام کرسکتا ہے؟” بچوں کی حیرت کم نہ ہوتی تھی۔
“بیٹا یہی تو کمال تھا نائی کا۔۔ وہ یہی نہیں اور بھی بہت سے کام کرسکتا تھا۔” بچے میری جانب غیر یقینی سے دیکھ رہے تھے۔
۔۔۔
دیہاتوں میں شاید نائی اب بھی یہ فرائض انجام دیتا ہو، شہروں میں البتہ اب پیشے بدلتے جارہے ہیں۔ وقت اپنا رنگ بدل رہا ہے اور ہماری زندگیوں سے بہت سی چیزیں غائب ہوتی جارہی ہیں اور بہت سی نئی چیزیں اب ہمارا اٹوٹ انگ بنتی جارہی ہیں۔
نائی، ایک ایسا ہمہ جہت، ہمہ صفت اور ہر فن مولا پیشہ ہے کہ اس کی نظیر شاید ہی کسی اور ہنر اور پیشے میں ملے۔ ایک ایسا کردار جو تمام زندگی ہمارے ساتھ رہتا ہے لیکن ہم نے شاید ہی اسے کبھی آنکھ بھر کے دیکھا ہو۔
کہنے کو تو نائی کا کام بال تراشنا ہے یعنی حجامت بنانا، ساتھ ہی وہ ناخن بھی تراش دیتا ہے۔ اکثر لوگ حجامت کے بعد قمیص اتار کر اس کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں، لیکن یہ ایسی کوئی بتانے والی بات نہیں۔ ہاں بہت سے اب بھی تولیہ اور صابن لے کر کر دکان کے پچھلے حصے میں چلے جاتے ہیں جہاں گرم حمام ان کا منتظر ہوتا ہے۔ ریلوے اسٹیشنوں اور لاری اڈوں کے قریب ایسے حجام اور حمام، عام ہیں۔
بہت سوں نے شاید الف لیلٰی کے بو بک حجام کا قصہ پڑھا ہوگا۔ بو بک کی نسل اب تک چلی آرہی ہے یا یوں کہئیے کہ ہر حجام میں ایک بو بک حجام چھپا ہوتا ہے۔ دنیا بھر کی خبر ایجنسیوں، اخبارات اور صحافیوں کے پاس وہ خبریں نہیں ہوتیں جو ہمارے اس بھائی کے پاس ہوتی ہیں جو اپنا سلسلہ نسب حضرت سلمان فارسی سے جوڑتے ہیں۔ میں نے بہت پہلے کبھی اپنے محلے کے حجام، حکیم، کا ذکر کیا تھا اور آج بھی باآواز بلند اعلان اور اقرار کرتا ہوں کہ اکثر، تاریخی، سیاسی اور سماجی واقعات کے بارے میں جو کچھ میں نے حکیم سے سنا، گوگل، ویکیپیڈیا اور انٹرنیٹ کے دوسرے ذرائع اس کا عشر عشیر بھی نہیں جانتے۔ مثلاً آپ کو گوگل پر کہیں یہ تفصیل نہیں ملے گی کہ اوپیک ( تیل پیدا کرنے والے ممالک کی انجمن) کے اجلاس میں کویت کے نمائندے نے عراق کے صدر صدام حسین کے منہ پر چائے کا کپ الٹ دیا تھا جس کے جواب میں صدام نے کہا کہ ٹھہر تو سہی، ابھی تجھے بتاتا ہوں، تو نے کس کو للکارا ہے۔ اور دوسرے ہی دن عراق نے کویت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اوپیک کے اس اجلاس کی یہ کہانی آپ انٹرنیٹ پر تلاش کرکے دکھادیں تو مان جاؤں گا۔
گیسو تراشی کے علاوہ ہمارا نائی مالش کا بھی ماہر ہوتا ہے۔ میں جس پٹھان نائی سے بال کٹواتا ہوں وہ بال کاٹنے، داڑھی اور خط بنانے کے بعد ایک عجیب کھردرا سا مادّہ میرے منہ پر لیپ دیتا ہے اور پھر جس طرح برتن مانجا جاتا ہے اسی طرح کے اسفنج سے میرا چہرہ رگڑ کر جب منہ پر پانی مارتا ہے تو شکل یوں ہوجاتی ہے جیسے قلعی کے بعد چمچماتا پیتل کا برتن۔
خان صاحب کی مہربانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب وہ پہلے تو سر کی چمپی کرتا ہے یوں کہ آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں، پھر آنکھوں اور پپوٹوں کی مالش کرتا ہے۔ اس کے بعد گردن اور کندھوں کی باری آتی ہے۔ یہاں تک تو میں ایک کیف و انبساط کے عالم میں ہوتا ہوں۔ اب وہ میرےسر کو دائیں بائیں دونوں جانب سے پکڑ کر اچانک گردن کو جھٹکا دیتا ہےاور ایک “کڑ” کی سی آواز آتی ہے جس سے کچھ دیر کے لئے تو میرے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کسی دن اسی حجام کے ہاتھوں میں میری گردن جھول رہی ہوگی جس کا “منکا” ٹوٹ چکا ہوگا۔
اس تمام عمل کے بعد وہ میرے چہرے پر پھر پانی مارتا ہےاور ٹشو پیپر سے چہرہ صاف کرنے کے بعد مختلف طرح کے آفٹر شیو لوشن کچھ اس طرح انڈیلتا ہے کہ لمحہ بھر کے لئے لگتا ہے کسی نے تیزاب انڈیل دیا ہو۔ اس کے بعد منہ پر کریم ملتا ہے، اور ہاں ایک مزے کی بات یہ کہ دبئی، شارجہ میں حجام چاہے پاکستانی ہو یا ہندوستانی ، اس کے پاس ” تبّت سنو” کی وہ شیشی ضرور ہوتی ہے جو نصف صدی پہلے میں نے اپنے بِہار کالونی والے حجام کے پاس دیکھی تھی۔ اس کی خوشبو مجھے کچھ دیر کے لئے اپنے وطن اور اپنے بچپن میں لے جاتی ہے۔ میری گردن پر پاؤڈر کا پچارا پھیر کر وہ مجھےمیری گردن میں لپٹے کپڑے سے آزاد کردیتا ہے۔ اس کے محنتانے اور ٹِپ کی ادائیگی کے بعد جب میں دکان سے باہر آتا ہوں تو چند لمحوں کے لئے اپنے آپ کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہوں۔
یہ تو وہ فرائض ہیں جو وہ دوران حجامت انجام دیتا ہے یعنی، گیسو تراشی، خط بنانا، چہرے کا چمکانا ( سنا ہے اس عمل کو ‘ فیشیل’ کہا جاتا ہے) اور میری چمپی مالش کرنا۔ ان کے علاوہ وہ جراحی کے فرائض بھی انجام دیتا ہے جس کا ذکر اس کہانی کی ابتدا میں ہوا۔ یعنی ختنہ کے فرائض سرانجام دینا۔ یہی حجام باورچی کا بھی کام کرتا ہے اور آپ کو دل کی بات بتاؤں نائی کے ہاتھ کے پکے کھانے، نائی کی باتوں کی طرح چٹپٹے اور سوادِشٹ ہوتے ہیں۔ میں نے کئی نائیوں کے پاس باقاعدہ دیگیں بھی دیکھیں جو وہ کرائے پر بھی چلاتے ہیں۔
یاد آیا کہ جب ہم دبئی سے بذریعہ بس حج بیت اللہ کے لئے گئے تو ہمارے قافلے میں بھی ایک خلیفہ جی تھے جن کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ بڑھئی کا کام کرتے ہیں اور اب اپنی جمع پونجی لے کر اللہ کے گھر جارہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں جہاں ہم ٹھہرے وہاں انہوں نے باورچی کے فرائض سنبھال لئے اور اکثر وہ باورچی خانے کے باہر بیٹھے آلو چھیلتے نظر آتے۔فریضۂ حج کی ادائیگی کے بعد یعنی شیطان کو کنکریاں مارنے اور قربانی کے بعد جب ہم اپنے خیموں میں واپس آئے تو دیکھا کہ وہ باہر بیٹھے ہوئے، لوگوں کی ٹِنڈ بنا رہے ہیں۔ اپنی سمجھ میں تو یہی آیا کہ لکڑی کو رندے سے چھیلتے چھیلتے آلو چھیلنا سیکھ گئے اور آلو چھیلتے چھیلتے سر مونڈنا سیکھ گئے۔ لیکن میرے ایک ساتھی حاجی کی رائے اس کے برعکس تھی ۔ وہ کہتے تھے کہ سر چھیلتے چھیلتے، میرا مطلب ہے ٹنڈ کرتے کرتے وہ آلو چھیلنا سیکھے اور اس سے انہوں نے بڑھئی کا کام سیکھا۔ ان کی بات میں وزن ہے کہ ایسی ہمہ صفت اور ہر فن مولا شخصیت تو عموماً نائی کی ہی ہوتی ہے۔
بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔ ہاں تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ نائی کے دیگر ہنر اور کمالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ مجھے یاد ہے ہندوستان میں ہمارے گاؤں میں نائی شادی بیاہ اور سوگ کے سندیسے بھی لے جایا کرتے تھے۔ نائی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ کس کو اور کہاں پیغام پہنچانا ہے۔ وہ آپ کے سارے رشتہ داروں کے نام پتے جانتا ہے کہ ایسا کون سا گھر ہے کہ جس گھر کے نومولود کے بال اس نے نہ اتارے ہوں اور اس کے عوض ماشہ بھر چاندی نہ پائی ہو، اور وہ کون سا لونڈا ہے جس کی سنت نہ کی ہو، اور یہ کہ شادی بیاہ اور سوگ پر دیگیں نہ پکائی ہوں۔ (میرے ایک دوست جو اب ماشاء اللہ نانا بن چکے ہیں فیصل آباد کے قریب اپنے گاؤں جانے سے گھبراتے ہیں کہ ان کا وہ نائی اب تک حیات ہے اور وہ جب بھی انہیں دیکھتا ہے تو حاضرین کو یہ بتانا اپنا فرض جانتا ہے کہ ‘ اناں دی سنتاں میں بٹھائی سن’اور ہمارے دوست منہ نیچا کرکے وہاں سے نکل جاتے ہیں۔)
سندیسے پہچانے کے علاوہ نائی رشتے بھی کرواتا ہے لیکن یہ کام زیادہ تر نائن کرتی ہے۔ نائی کو تقریباً سارے گاؤں کے لوگوں کا شجرہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پیدائش کی اطلاع، مونڈن، ختنہ، شادی کی دعوتیں پہنچانا، موت کی خبر دینا اور ہر دو مواقع پر دیگیں پکانا یہ سارے کام اسی نے تو انجام دئیے ہوتے ہیں۔ آج کل “نادرا” جیسے ادارے بھی اتنی معلومات نہ رکھتے ہوں جتنی ہمارے خلیفہ کے پاس ہوتی ہیں۔
نائی کی دیکھا دیکھی اب کچھ اور لوگوں میں بھی شوق پیدا ہوگیا ہے کہ ایک سے زیادہ فن اور ہنر سیکھیں۔ اب انجینئرنگ کرنے والا ساتھ ہی بزنس مینیجمنٹ بھی پڑھ لیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے فرائض کے علاوہ دیگر فرائض بھی رضاکارانہ طور پر اپنا لیتے ہیں۔ چوکیدار، چوکیداری سے بڑھ کر گھر کے معاملات میں دخیل ہوجاتا ہے تو دوسری طرف محلے کا پنچ لوگوں کے بیچ فیصلے کروانے کے علاوہ تالاب کھودنے، صفائی کروانے اور گھر بنوانے اور دوسرے کام بھی کرلیتا ہے۔ یہ یقیناً بہت اچھی بات ہے اور اس ہمہ جہتی سوچ کا سہرا میرے خلیفہ کے سر بندھتا ہے۔
عبدالشکور پٹھان
عبدالشکور پٹھان
عبد الشکور پٹھان اصلاً کراچی سے ہیں اور کنیڈا میں مقیم ہیں۔ آپ کی تین کتابیں پذیرائی حاصل کر چکی ہیں، جن میں ایک سفر نامہ ہے اور دو دلچسپ شخصیات کے خاکوں کے مجموعے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں