مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةانشائیہیادیں باقی رہ جاتی ہیں

یادیں باقی رہ جاتی ہیں

دیکھیے! طائرِ خیال بھی کیا چیز ہے۔ آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ آپ کو اُڑا کر سات سمندر پار لے جائے گا۔ طائرِ خیال کے وہاں پہنچتے ہی آپ یہاں کے سامعین کو بور کرنا شروع کر دیں گے۔۔۔ “یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب میں فلاڈیلفیا کے ایک ریسٹورنٹ میں برتن دھویا کرتا تھا”۔۔۔ یا آپ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کا طائرِ خیال آپ کو اچانک اُڑا کر سات دہائی پار لے جاتا ہے ۔۔۔ “یہ اُن دنوں کی بات ہے جب لیاقت آباد ابھی لیاقت آباد نہیں بنا تھا، ابھی یہ لالوکھیت ہی تھا۔۔۔”
قارئین کرام! آپ سے بہت بہت معذرت، مگر سچی بات یہ ہے کہ آج آپ کے ساتھ یہی ثانی الذکر سانحہ پیش آنے والا ہے۔ دیکھیے نا! دن تو غائب ہو جاتے ہیں، یادیں باقی رہ جاتی ہیں! آج بیٹھے بیٹھے جو یاد آئی تو سب سے پہلے پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان کی یاد آئی۔ لیاقت علی خان کو ان کے دورِ حکومت میں بھی یہ قوم “قائدِ ملّت” ہی کہتی تھی۔ (ایسے وزیر اعظم اب کہاں!)۔ جب راولپنڈی کے “کمپنی باغ” میں “برادرانِ ملّت” کو مخاطب کرتے ہی اُن کو گولی مار دی گئی اور وہ ۔۔۔ “خدا پاکستان کی حفاظت کرے”۔۔۔ کی دعا مانگتے شہید ہو گئے، تب اِس قوم نے اُن کو “شہیدِ ملّت” کا خطاب دیا اور اُس دور میں جیسے بھی ممکن تھا، ان کو خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کرنے کا آغاز کر دیا۔ پہلا کام تو یہ کیا کہ “کمپنی باغ” کا نام “لیاقت باغ” رکھ دیا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ (دارالحکومت) کراچی کی فریئر روڈ کو “شاہراہِ لیاقت” قرار دے ڈالا، تیسرا کام یہ ہوا کہ “نیشنل لائبریری” کو “لیاقت نیشنل لائبریری” بنا دیا گیا۔ اور چوتھا یہ کہ کراچی کے ایک قدیم علاقے “لالو کھیت” میں “لیاقت آباد” نام کی ایک نئی بستی بسا دی گئی۔ یاد سے یاد نکلتی ہے اور دیے سے دیا روشن ہو جاتا ہے۔ یادیں کتاب یا کالم کی طرح کسی ایک موضوع پر تسلسل سے چلے آنے کی پابند نہیں۔ سو یاد آیا کہ “لالو کھیت ” کا نام لوگوں کی زبانوں پر بڑے عرصے تک چڑھا رہا۔ بلکہ صدر کی ایمپرس مارکیٹ کے پاس کھڑے ہو کر اپنی بسوں کو پیٹتے ہوئے کنڈکٹر شاید آج بھی آپ کو “لالیکے لالیکے” کی گردان پڑھتے ہوئے مل جائیں۔ مگر اب وہ بڑے رہے نہ بوڑھیاں جن کی زبانوں پر “لالو کھیت” کا نام چڑھا ہوا تھا۔ “لالو کھیت ” کو “لیاقت آباد” سچ پوچھیے تو نئی نسل نے بنایا ہے، جو جدید ذرائع ابلاغ کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہے۔ ذرائع ابلاغ کو یہ “کریڈٹ” جاتا ہے کہ جب علاقے کا نام بدل دیا گیا تو ہمارے مطبوعہ یا برقی ذرائع ابلاغ نے “لیاقت آباد” کو “لالو کھیت” کہنا چھوڑ دیا۔ حتیٰ کہ اب تو شاید نئے لیاقت آبادی بچوں کو معلوم بھی نہ ہوگا کہ “لالو کھیت” کس لالو کا کھیت تھا۔
ذکرِ لالو کھیت چلے
ہمارے بچپن ۔۔۔ یعنی سنہ ساٹھ کی دَہائی ۔۔۔ کا “لالو کھیت” ایک ملگجی سہانی صبح کے منظر کی طرح آنکھوں میں بسا ہوا ہے۔ کیا آپ مانیں گے کہ اُس وقت سب گھر “یک منزلہ” تھے۔ اِکّا دُکّا “امیروں کی کوٹھیاں” دو منزلہ ہوا کرتی تھیں۔ (جی ہاں ١٠٠ گز یا تقریباً تین مرلے کے یہ دو منزلہ مکان لالو کھیت میں “کوٹھیاں” کہلاتے تھے)۔ اونچی اونچی عمارتیں نہ ہونے کی وجہ سے بھی شہر کی فضا کثافت سے پاک ہو جاتی تھی۔ آج کل کراچی کے جو لوگ پچاس کے پیٹے (یا پیٹی) میں ہیں، اُن کو یاد ہوگا کہ اُن کے بچپن میں “بندر روڈ سے کیماڑی” احمد رُشدی نے، ایک گھوڑا گاڑی چلائی تھی۔ (یہ احمد رُشدی کا سب سے پہلا مقبولِ عام گیت تھا)۔ گھوڑا گاڑی چلتے چلتے ایک پانچ چھ منزلہ عمارت کے پاس پہنچتی ہے تو کوچوان (گھوڑے کی ٹاپوں کے پس منظر موسیقی میں) بتاتا ہے: “یہ آئی لکشمی بلڈنگ ۔۔۔کبھی تھی سب سے بڑی بلڈنگ۔۔۔جو لالو کھیت سے بھی دیکھو۔۔۔نظر آتی تھی یہی بلڈنگ۔۔۔تھا اس میں جن کا اِک دفتر۔۔۔وہ اب رکھتے ہیں کئی بلڈنگ”۔ آخری دو مصرعوں سے پتا چلتا ہے کہ “لکشمی بلڈنگ” اسم با “مسماۃ” تھی۔ (ایم اے جناح روڈ۔۔۔سابقہ بندر روڈ۔۔۔ پر واقع اس عمارت کا نام اب احمد بلڈنگ ہے)۔ اُس زمانے میں اِس پانچ چھ منزلہ اونچی عمارت کی حیثیت گویا “کراچی کے ‘ورلڈ’ ٹریڈ سینٹر” کی سی تھی۔ خراچی کی سب سے پہلی “بلند ترین عمارت” بائیس منزلہ “حبیب بینک پلازا” تھا۔ جسے اُس زمانے میں کراچی کے “قابلِ دید مقامات” کی فہرست میں شامل کر کے کراچی سے باہر کے آئے ہوئے مہمانوں کا نرخرہ غور سے دیکھنے کے لئے اُنہیں وہاں لے جاتا تھا۔
دِل والو، یہ نقشہ ہے
لالو کھیت سے چلتے چلتے ہم لکشمی بلڈنگ پہنچ گئے تھے۔ وہاں سے پلٹے تو (میری ویدر ٹاورسے) گھوم کر پلازا جا پہنچے۔ لو جی! اب ایک اُلٹی زقند بھر کر ہم پھر واپس لالو کھیت آجاتے ہیں۔ لالو کھیت جانے اور وہاں سے واپس آنے کے لیے اُس زمانے میں جو (بریڈفورڈ) بسیں چلتی تھیں، اُن کے آگے موٹر کاروں کی طرح دور تک پھیلا ہوا بونَٹ نصب ہوتا تھا۔ آخری بس سٹاپ پر بھی یہ بسیں سٹارٹ ہی رکھی جاتیں اور دَمے کے لبِ دَم مریضوں کی طرح وہاں کھڑی مسلسل “گھرڑ، گھرڑ” کرتی رہتی تھیں۔ سٹارٹ یوں چھوڑ دی جاتی تھیں کہ اُن کو سٹارٹ کرنا بھی ایک عذاب سے کم نہ تھا۔ لوہے کا ایک عجیب سا آنکڑا (سیدھے چلتے چلتے بائیں مُڑ جائیں، پھر سیدھے چلنے لگیں، اس شکل کا آنکڑا) انجن کی ناک میں پھنسا کر دونوں ہاتھوں سے بڑی تیزی سے گھمایا جاتا۔ انجن گھبرا کر سٹارٹ ہو جاتا۔ انجن سٹارٹ ہونے کے بعد سوائے کنڈکٹر کی کان پھاڑتی آواز کے، کوئی کسی کی آواز سن نہیں سکتا تھا۔ ہم پلٹ کر جس زمانے کے لالو کھیت میں واپس آئے ہیں، اُس زمانے میں لالو کھیت دس نمبر (اب لیاقت آباد دس نمبر) کے بس سٹاپ پر واقع انجمن اسلامیہ ہائی سکول (نیز اب ریاض گرلز کالج) کے عقب میں واقع دو گلیوں میں شرفائے سلطنت شرقی کے کئی خاندان رہا کرتے تھے۔ یہ دو گلیاں علمی اور ادبی مباحث سے اکثر آباد رہا کرتی تھیں۔ مرحوم پروفیسر غفور احمد، شہید ڈاکٹر اطہر قریشی اور نہ جانے کتنے بڑے بڑے لوگ ان چھوٹے چھوٹے گھروں میں آباد تھے۔ اُس وقت ان گھروں کے آنگن اور دروازوں کے باہر سجنے والی محفلیں مزید آباد ہو جاتیں جب دوسرے شہروں یا شہر کے دوسرے علاقوں سے مہمان اور اہل خاندان تشریف لاتے۔ اُس زمانے میں۔۔۔ اب شاید موجودہ نسل کو کچھ عجیب سا محسوس ہو کہ ۔۔۔ قرابت داریوں اور رشتہ داریوں کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ لوگ ایک دوسرے کے ہاں محض “ملاقات برائے ملاقات” کے لئے آیا جایا کرتے تھے۔ ابھی شہر میں “بے حسی کی رَو” چلی تھی نہ لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہوا تھا۔ اب تو شاید ان گلیوں میں سے دو بھائیوں کا ایک بچا کھچا خاندان ہی باقی رہ گیا ہے۔ باقی سب تو۔۔۔ایسے بکھرے کہ قبیلوں کے قبیلے نہ رہے مگر وہاں کی مجلسیں اور محفلیں بہت یاد آتی ہیں۔ محافلِ مشاعرہ بھی۔ بہزادؔ لکھنوی، اُستاد قمرؔ جلالوی، ماہؔرالقادری، رحمٰؔن کیانی اور احسانؔ دانش جیسے بہت سے نام وَر شعرا کو سب سے پہلے انہی گلیوں میں ہونے والے مشاعروں میں دیکھا۔ غربت کے اُس زمانے میں لیاقت آباد کی سڑکیں، گلیاں اور بازار ہی نہیں، دل بھی بہت کشادہ تھے۔ کھلے مکان، کھلے صحن اور کھلی فضا۔ مگر اب تو۔۔۔ اب تو:
دِلّی میں بھی اب تو گھروں کا دِل والو یہ نقشہ ہے
آنگن چھوٹا، تنگ جھروکا، در نیچا، دیوار بلند
احمدحاطب صدیقی (ابو نثر)
احمدحاطب صدیقی (ابو نثر)
احمد حاطب صدیقی المعروف بہ ابو نثر معروف کالم نگار، مزاح نگار، شاعر ، مصنف اور بچوں کے ادیب ہیں۔ جسارت، کراچی میں ابو نثر کے نام سے ہفتہ وار مضامین لکھتے ہیں۔
مصنف کی دیگر تحریریں