مقبول ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...

تازہ ترین

مولانا ابوالحسن على ندوى: وصف ناتمام

﷽ ز عشقِ ناتمامِ ما جمالِ یار مُستَغنی‌ است بہ آب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئے زیبا را عقلیت، فضائل انسانى و مکارم...

معتقد میؔر

شاعری میں یا کسی بھی فن میں کوئی نمبر بازی نہیں ہوتی کہ فلاں پہلے درجے پر تو دوسرا اس کے بعد ہے۔ بس...

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو

اسلام آباد کا جناح ایونیو جس کا معروف نام بلیو ایریا ہے، "ہائیڈ پارک" وغیرہ کی طرح سے ایک تاریخی حیثیت اختیار کرتا جا...

كپڑے كے موزوں پر مسح كرنا

﷽ سوال مولانا جمال احمد ندوى، ركن شورى دار العلوم ندوة العلماء، نے درج ذیل سوال بھیجا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ امید کہ حضرت والا...

ڈاکٹر منموہن سنگھ: مت سہل ہمیں جانو

ہندوستان کی آزادی کے بعد جن قومی رہنماؤں نے ملک کی چو طرفہ تعمیر نو کی سمت متعین کرنے، اس کی منصوبہ بند معاشی...
- Advertisment -
Google search engine
الرئيسيةزبان و بیانحرّافہ کے حروف

حرّافہ کے حروف

شکاگو والے ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی صاحب نے ایک خاتون صحافی کی کسی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس حرّافہ کی یہ بات تو درست ہے، قد یصدق الکذوب۔ اس پر سڈنی سے محترم ڈاکٹر انس ندوی زید مجدہ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر یاسر صاحب کے استعمال کردہ لفظ حرّافہ کو دیکھ کر سوال پیدا ہو رہا ہے۔ اس لفظ کے معنی اور وجہ تسمیہ پر روشنی ڈالنے کی زحمت گوارا کر کے شکریہ کا موقع دیں۔
عرض کیا کہ اساسی معنی میں بدکرداری و بدچلنی نہیں شامل۔ عربی ثلاثی ح ر ف میں گھما دینے، رخ موڑنے، پھیرنے، کنارہ، دھار وغیرہ کے معنی ہیں۔ لکھنے کے لئے ہم مصوتوں، مصموتوں کی علامتیں بناتے ہیں۔ کوئی علامت خط مستقیم تو ہوتی نہیں، بلکہ کئی جگہ سے خاص کر کناروں پر گھمانا ہوتا ہے۔ اسی لئے اس کو حرف کہتے ہیں۔ یعنی وہ خطوط جن کو گھما گھما کر صوتیات کی مناسبت سے علامات بناتے ہیں، جن کو ملا کر کلمات ترکیب دئے جا سکیں، ہم انہیں حروف کہتے ہیں۔ پہاڑ کی ساری جہتیں ڈھل کر ایک نقطہ پر مرتفع ہوتی ہیں، اس لئے اس کی چوٹی کے لئے بھی حرف کا اطلاق ہوتا ہے۔ ندی، تلوار، کشتی کے کناروں میں بھی یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔
منفی معنوں میں یہی گھمانا تحریف کہلاتا ہے۔ تحریف حرفی و لفظی بھی ہو سکتی ہے اور معنوی بھی، یعنی کسی لفظ کو بدل دیا جائے یا کسی بات کو گھما کر اس طرح بیان کیا جائے کہ اس کے معنی اپنے اصل سے مختلف ہو جائیں۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اناجیل مقدس کے جو موجودہ نسخے ہیں ان میں تحریف ہوئی ہے، وہ تحریف شدہ ہیں۔ تحریف ثابت کرنے کے لئے کئی دلائل دئے جاتے ہیں جن کی تردید نہیں کی جا سکتی کیوں کہ ہمیں تاریخی طور پر یہ نہیں معلوم کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر کلام کس شکل میں، کس زبان میں نازل ہوا۔ حتی کہ یہ بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ خود کون سی زبان بولتے تھے اور اپنے خدا کو کس نام سے پکارتے تھے۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ان کا مصحف قرآن مجید کسی تحریف سے پاک ہے اور اس کی صوتی شکل من و عن ویسی ہی ہے جیسی رسول اکرم علیہ الصلوات و التسلیم نے سکھائی تھی۔
اک حرف بھی تحریف زدہ ہو تو دکھائے
لے آئے اٹھا کر کوئی قرآن کہیں کا
بعض لوگوں کا ذوق ہوتا ہے کہ کسی کے کلام میں بغرض تفنن کچھ یوں تبدیلی کرتے ہیں کہ ہنسی مذاق کا پہلو نکل آئے، اس کو تحریف مضحک کہتے ہیں۔ محترم حاطب صدیقی المعروف بہ ابو نثر صاحب نے اس کے لئے تقلید معکوس کی تعبیر اختیار کی ہے۔ آپ پیروڈی ہی کہیں کیوں کہ ایک لفظ کا یک لفظی متبادل ہو تبھی رائج ہو پاتا ہے۔
باب تفعیل میں فاعل بنتا ہے محرِّف اور مفعول محرَّف۔ تو تحریف شدہ نسخوں کو محرَّف نسخے کہا جاتا ہے۔ کتابت میں ایسی تحریر جو عام طرز کے خلاف ترچھی کر کے لکھی جائے اس کو بھی محرَّف تحریر کہتے تھے اور اس طرح لکھنے والے محررین محرَّف نویس کہلاتے تھے۔ اب اس کے لئے صرف ایک کھٹکا دبانے کی ضرورت پڑتی ہے اور کمپیوٹر پر کام کرنے والا ہر شخص اٹالکس جانتا ہے۔ پہلے اس طرح لکھنے کے لئے قلم کو زاویہ بدل کر قط لگاتے تھے۔ عربی میں اس کو تحریف القلم کہتے ہیں۔
باب انفعال میں اس مصدر سے راہ راست سے ہٹ جانے، پھر جانے کے معنی لئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی اپنی جماعت کے عقیدے، مقصد، موقف سے برگشتہ ہو جائے، بغاوت کر جائے تو کہتے ہیں یہ انحراف ہے یا وہ منحرف ہو گیا ہے۔
ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسم ثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط قلم سر نوشت کو
فلکی اجرام اپنے مدار سے ہٹ جائیں یا قطب نما کی سوئی کسی خرابی کی وجہ سے شمال کی جانب نہ ہو کر اس سے ایک زاویہ بنا لے تو اس کو بھی انحراف کہتے ہیں۔ اسی طرح شعائیں کسی شفاف سطح سے منعطف ہوں تو بجائے سیدھے گزرنے کے اپنے راستے سے مڑ جاتی ہیں، یہ بھی انحراف ہے۔ اور اگر انعطاف کے بعد الگ الگ رنگوں میں تقسیم بھی ہو جائیں تو اس کو انحراف لَونی کہتے ہیں۔ رنگ کے معنی میں لَون بھی عربی الاصل ہے۔ ان سب انحرافات کے لئے اب ہمارے بچےصرف ڈیویئیشن جانتے ہیں۔
یہ مختصر بحث صرف اس لئے کرنی پڑی کہ حرف میں گھمانے، پھیرنے، بدلنے کے معنی ثابت ہو جائیں۔ ورنہ اس مادے سے مشتق بہت سے کلمات ہیں، سب کا جائزہ لینا مقصود نہیں۔ تو صاحبو، اسی قبیل سے ایک اسم مبالغہ بنتا ہے حرّاف اور اس کی تانیث حرّافہ۔ حرّافہ اس کو کہتے ہیں جو چالاکی سے گفتگو کا رخ موڑ دے، معنی بدل ڈالے، یعنی اس میں مکار، عیار، چالاک و چرب زبان، بیباک و بے شرم کے معنی سما گئے ہیں۔ غور طلب ہے کہ عربی میں یہ دونوں لفظ رائج نہیں ہیں۔ شاید عربوں کو اس کی ضرورت نہ تھی۔ غالباً عربی قواعد کے مطابق ہندوستانیوں کی اپنی اختراع ہے۔ اردو میں بھی کبھی کسی مرد کو اس معنی میں حرّاف نہیں کہا جاتا۔ ظاہر ہے معاشرے کے رویوں کے اثرات اس کی زبان پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ تو جب کہتے ہیں عورتوں کو ہی حرّافہ کہتے ہیں۔ لیکن اردو غزل کی روایت اس جانب داری سے پاک ہے کہ وہاں محبوبہ یا معشوقہ ہوتی ہی نہیں، بس عاشق و معشوق۔ مذکر ہی صیغۂ مشترک ہے، صنفی انصاف۔ اس سے معنی میں بڑی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔ اردو شاعری میں آپ کو کوئی حرّافہ نہیں ملے گی، صرف حرّاف ملے گا۔
کہوں کیا اوس کی میں باتیں غرض میرے تو جانب میں
زمانے میں نہ ہو گا کوئی اس حرّاف کا جوڑا
ایک اور شعر میں دیکھیں
دل فریبی کا نہیں کون سا انداز آتا
چھوڑتا جان کو عاشق کی وہ حرّاف نہیں
دہلی اور اودھ کی بڑی بوڑھیاں حرّافہ کا استعمال مکار و عیار، چال باز و چرب زبان عورتوں کے لئے کرتی ہیں۔ اِدھر اُدھر آزاد گھومنے پھرنے والیوں کو بھی حرّافہ کہتی ہیں۔ دراصل اس طرح کی چال بازی و چرب زبانی تبھی آتی ہے جب بازاروں کی سیر ہو اور بھانت بھانت کے لوگوں سے اختلاط ہو۔ بہت بازار گھومنے والا خود بازار ہو جاتا ہے۔
جادو بھری جگہ ہے بازار تم نہ جانا
اک بار ہم گئے تھے بازار ہو کے نکلے
اب اگر عورت اس قدر “بازارو” اور جھانسے باز ہو تو معاشرے میں اس کو شریف نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ایسی عورتیں ایک خاص نظر سے بھی دیکھی جاتی تھیں کیوں کہ شریف گھرانوں میں پہلے ایک دالان، دالان کے بعد مردانہ، پھر ایک دالان اور اس کے پیچھے زنانے میں رہنے والی خواتین ان خصوصیات سے پاک سمجھی جاتی تھیں۔ بازار جانے کی نوبت بھی شاید ہی کبھی آتی تھی۔ شادی بیاہ اور عیدین کے کپڑے بھی بزاز گھر لا کر دکھاتا۔
اودھ میں حرّافہ کا مترادف ایک اور لفظ رائج تھا، چِھنال جو پورب میں چھنار ہو جاتا ہے۔ ل کا ر سے تبدیل ہونا عام ہے۔ ساکنان دہلی یہ لفظ نہیں جانتے تھے۔ میر تقی میؔر کے ماموں سراج الدین خان آرزو نوادر الالفاظ میں لکھتے ہیں چھنیل معلوم نیست کہ لغت کجا است ما مردم کہ از اہل ہندیم و در اردوئے معلی می باشیم نشنیدہ ایم و ظاہرا چھنال است بہ معنی مطلق زن بدکارہ۔ انھوں نے نہیں بتایا تو ہم بتا دیتے ہیں۔ چھِنّارَجھ سے چھنار بنا ہے۔ سنسکرت میں چھِنّ سے کٹے، پھٹے، ٹوٹے، برباد ہوئے وغیرہ مطالب لئے جاتے ہیں۔ کردار کے حوالے سے اس پر غور کریں تو سمجھا جا سکتا ہے کہ جس کا کردار خراب ہو چکا ہو، بدکردار و بدکار ہو۔ نار ناری سے ہے اور جھ جھلی، چمڑی، جلد کی علامت۔ ہندی میں ہم عام طور پر چھِنّ بھِنّ ٹوٹنے بکھرنے یا منتشر ہونے کے معنی میں بولتے ہیں۔ چھِنّ کا مادہ چھِد ہے جس سے چھِدر اور چھید بمعنی سوراخ بنتا ہے۔ سنسکرت میں نجار کو چھیدی کہتے ہیں کہ لکڑی کو کاٹ چھانٹ کر، سوراخ بنا کر چوٗل سے چوٗل ملاتا ہے۔
ہماری لسانی فطرت ہے کہ تانیث کے صیغے مذکر سے اخذ کرتے ہیں۔ تمام زبانوں میں یہی ہوتا رہا ہے۔ انگریزی میں بھی سوائے دو لفظوں کے باقی سارے مونث صیغہ جات مذکر سے ماخوذ ہیں۔ اور وہ بھی دونوں کیا ہیں، ایک مظلوم برائڈ گرٗوم دوسرا بے چارہ وِڈووَر۔ اپنے یہاں بھی ویسے تو مذکر سے مونث بناتے ہیں جس سے مردانہ تسلط کی عکاسی ہوتی ہے لیکن زیر بحث لفظ ہماری لسانی زن ستیزی کی دوسری طرح کی مثال ہے۔ کردار کے حوالے سے گالی دینی تھی تو عورت کو دی گئی۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس حوالے سے مرد کے لئے کون سا لفظ گڑھا گیا۔ کوئی عورت اکیلے تو چھنار ہو نہیں سکتی۔ اس کے چھنار بننے کے لئے پہلے ایک بدکردار آدمی اور پھر ایک زوال پذیر معاشرے کی ضرورت ہوگی۔ تو لفظ کا وجود بہرحال ضروری تھا اس لئے چھنار سے صیغۂ مذکر چھنرا بنایا۔ لیکن اپنی لسانی عادت سے مجبور اس سے واپس پھر مونث بنایا چھنری۔
چِھنرا چِھنری سے مِلَے
ہنس ہنس ہوئے نِہال
جس طرح حرّافہ کے معنی میں شدت پیدا ہوئی ہے اسی طرح چھنال کے معنی میں نرمی آئی ہے، اور یہ صرف شوخ اور بے شرم کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
سر تا پا شرم وہ پری ہے
لیکن ہیں بڑی چِھنال آنکھیں
ایک بات یاد آ گئی ہے تو اس کا بھی ذکر کر دوں۔ بعض خواتین کے رخساروں پر ہنستے ہوئے گڈھے بن جاتے ہیں۔ بعض کی ٹھُڈّی پر۔ میں چاہ غبغب، چاہ زنخدان اور چاہ ذقن وغیرہ کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ ایک نیا باب کھل جائے گا جس میں بڑی گمرہی ہے۔ ان کلمات پر اپنے حاطب صدیقی صاحب ہی کچھ لکھیں تو بہتر ہے۔ فی الحال آپ ڈمپل ہی کہہ لیں۔ ناک کے نیچے ہو تو فِلٹرم۔ ویسے بھی مفرد متبادل جانتے ہوئے کون مرکب کلمات استعمال کرنا چاہے گا۔ یہ گڈھے علم الابدان والوں کے نزدیک تو معمول کے خلاف ایک نقص یا سقم ہیں لیکن جمالیات کے باب میں علامت حسن گردانے جاتے ہیں اور اردو کا کون شاعر جمال پرست ایسا ہے جو ان گڈھوں میں نہ گرا ہو۔ یورپ کی زبانوں میں بھی اس کو علامت حسن ہی سمجھا گیا ہے۔ لیکن ذرا ہندوستانی کوی مہودے کو دیکھئے کیا فرماتے ہیں:
ہنست گال گڑھا پڑَے
کَس نہ چِھنری ہوئے
یعنی ہنستے وقت اس کے گالوں پر گڈھے بن جاتے ہیں، تو بھلا وہ چھنار کیوں نہ ہوگی۔ بعض شاستروں میں بھی یہی روایت ہے۔ اس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کردار شناسی کے حوالے سے ہندوستان کی روایت قابل تعریف نہیں کہی جا سکتی۔ کسی کی خصوصیات کی شناخت کرتے وقت عقلی، نقلی، نسلی، لسانی، لَونی، صنفی نیز ہر طرح کے تعصبات سے مغلوب ہو کر فیصلے کرتے اور ٹھوکر کھاتے تھے۔ ورنہ سیدھی بھینس کو چھوڑ کر شرافت کی مثال مَرکہی نک چڑھی گائے سے کیوں دیتے۔ دوسرے یہ کہ حس جمالیات کا فقدان معلوم ہوتا ہے۔ سنسکرت و برج بھاشا میں نسائی خوبصورتی کے جو خاکے ملتے ہیں کسی میں بھی گالوں کے گڈھے نہیں نظر آتے۔ سب کے چہرے بالکل گول اور بھرے بھرے گالوں والے ہیں۔ یہی حال قدیم ہندوستانی مجسموں کا بھی ہے۔ یونانی مجسموں کے برعکس یہاں کے مجسموں میں بالکل گول چہرے، بھرے بھرے گال، بالکل گول اور غیر متناسب طور پر بڑے بڑے پستان و سرین نظر آتے ہیں۔
سُبھَر کپول دیکھ مکھ سوبھا
سُبھَر نِتنب دیکھِ من لوبھا
برنَو نِتنب لنک کَے سوبھا
اَو گج گَوَن دیکھِ سب لوبھا
المادة السابقة
المقالة القادمة
ڈاکٹر محمد سلیم
ڈاکٹر محمد سلیم
ڈاکٹر محمد سلیم جامعہ ملک عبدالعزیز ، سعودی عرب کے کلیۃالعلوم والآداب میں لسانیات کے استاذ ہیں
مصنف کی دیگر تحریریں