جان عزیز و فرحت دل و جاں ثنا!
سدا خوش رہو۔ آج سے کوئی ایک ہفتہ قبل تمہارا محبت نامہ موصول ہوا، حالات سے آگاہی ہوئی۔ تم یقیناً سوچتی ہوگی کہ میں نے اس بار جواب دینے میں اتنی تاخیر کیوں کی۔ میں بخیریت ہوں لیکن اس بار تمہارے خط کے جواب میں مجھے ایک ایسی بات لکھنی ہے، ایک ایسی التجاء کرنی ہے جس کی میں اپنے میں جرات نہیں پاتا۔ جانتا ہوں کہ میری ضرورت، میری خواہش، میری التجاء تمہارے لئے پریشانی کا باعث ہوگی لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ہم دونوں کے مزاج میں کتنی ہم آہنگی ہے، ہماری طبیعتوں میں کتنی مطابقت و مفاہمت ہے!
تم مجھے اور میں تمہیں اس قلیل مدت میں اتنی اچھی طرح سمجھ گئے ہیں گویا ہم ایک دوسرے کو صدیوں سے جانتے ہیں، چاہتے ہیں، پوجتے ہیں۔ گویا ہم صرف اور صرف ایک دوسرے کے لئے تخلیق کیے گئے ہیں۔ چھ ماہ کی مدت ہوتی ہی کیا ہے! ہم شادی کے چھ ماہ بعد ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اور اب چھ ماہ سے ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں, گو کہ یہ علیحدگی انتہائی اذیت ناک ہے لیکن بیتے ہوئے دنوں کی یاد، قربت و محبت کے وہ شب و روز میری زندگی کا سرمایۂ عظیم ہیں۔ تمہارا قرب، تمہاری محبت، وہ عظیم و بے پناہ محبت جسے میں ایک چھوٹے سے لفظ “محبت” میں مقید نہیں کر سکتا۔
ہمارا گھر ہماری جنت تھا۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آسمانی جنت اس سے زیادہ راحت و فرحت بخش ہوگی۔ مگر ان ساری محبت اور قربت و ہم آہنگی اور اتحاد مزاج کے باوجود ہم علیحدہ ہو گئے۔ میں امریکہ آ گیا، تمہارے اور اپنے بہتر مستقبل کے لئے اور بہتر حصول معاش کے لئے۔ مجھے جو تابناک خواب دکھائے گئے تھے ان کے سبب میں سمجھتا تھا کہ ہم بہت جلد امیر ہوجائیں گے، ہم بہت جلد ایک دوسرے سے ملیں گے اور ہمارے معاشی حالات بیک جنبش نگاہ بہتر سے بہتر ہوجائیں گے لیکن آج چھے ماہ کا عرصہ بیت گیا ہے۔
تمہارے بے پناہ محبت ناموں نے مجھے بہت تقویت بخشی ہے، ورنہ پچھلے چھے ماہ کا عرصہ میں نے انتہائی کرب میں گزارا ہے۔ اب تک نہ حصول معاش کی کوئی شکل نظر آئی ہے نہ یہاں مستقل قیام کی کوئی صورت۔ میں اس کٹی ہوئی پتنگ کی مانند ہوں جسے تیز ہواؤں کے تھپیڑے یہاں سے وہاں اور وہاں سے وہاں ڈھکیل رہے ہیں۔ منزل ایک سراب کی طرح بھی نظر نہیں آتی۔
مگر اب ایک راہ نظر آئی ہے۔ پچھلے دنوں میں اتنی بے یقینی کیفیات سے گزرا ہوں کہ نہ معلوم یہ راہ ہے یا نشانٍ راہ۔ مگر میں سوچتا ہوں کہ اس موقع پر مجھے تم سے، صرف تم سے، اپنی زندگی سے، اپنی روح سے، اپنی ثنا سے مشورہ کرنا چاہیے۔ مجھے اپنی بے پناہ محبت اور مزاج کی ہم آہنگی کے سبب یقین ہے کہ تم میری مشکل کو سمجھو گی۔ ایک لمحے کے لئے بھی بدگمان نہیں ہوگی اور میری بات کو سمجھتے ہوئے میری عارضی منشاء پوری کرنے کی اجازت دو گی۔
ثنا! مجھے ڈر سا لگتا ہے، کہنے کی ہمت نہیں ہوتی، کہیں خدا نخواستہ، خدا نخواستہ ہماری محبت کے آئینے میں بال نہ پڑ جائے۔ مگر مجھے تم پر فخر ہے، میں جانتا ہوں ہم ایک جان دو قالب ہیں۔ تم مجھے خوب اچھی طرح سمجھتی ہو اس لئے اپنا دل میلا نہیں کرو گی۔
ثنا! یہاں حصول روزگار کے لئے، مستقل قدم جمانے کے لئے، تم سے جلد از جلد ملنے کے لئے، ہمارے بہتر مستقبل کے لئے، مجھے کسی امریکی خاتون سے عارضی شادی کرنی ہوگی۔ یہ شادی، شادی نہیں ہوگی، محض ایک کاغذ کا عہد نامہ ہوگی جس کی حیثیت ایک کاغذ کے پرزے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوگی، کیونکہ تمہاری موجودگی بلکہ تم سے شادی کے بعد میں کسی دوسری عورت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے اس امریکی خاتون کو اس عہد نامے کے معاوضے کے بطور ایک خطیر رقم بھی ادا کرنی ہوگی۔ ہمارے درمیان محض ایک کاروباری رشتہ ہوگا۔ اس لئے کہ اس فرضی رسم کو پورا کرنے کے بعد مجھے یہاں کام کرنے کی اور قیام کی اجازت ہوگی۔
مجھے یقین ہے کہ تم میری اس مشکل کو سمجھتے ہوئے مجھے اس کی اجازت دے دو گی۔ تمہاری اجازت کے بغیر ایسا کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں ہے۔ گو کہ یہ محض ایک کاروباری معاہدہ ہو گا لیکن میں تم سے کچھ پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتا۔
ثنا! پیاری ثنا! انتہائی ٹھنڈے دل سے میری بات پر غور کرو اور مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کرو۔ مجھے امید ہے کہ تم میری محبت پر یقین کرتے ہوئے فیصلہ کرنے میں تاخیر نہیں کرو گی۔
جواب کا منتظر
تمہارا طالب
میرے سرتاج
السلام علیکم
آپ کا نوازش نامہ موصول ہوا۔ پڑھ کر دل از حد ملول ہوا کہ میرا خدائے مجازی، میرا خاوند اس قدر پریشانی کی زندگی گزارتا رہا اور مجھ پر اپنی پریشانی کا اظہار تک نہیں ہونے دیا۔ مجھے اس تکلیف کی اگر آپ پہلے سے خبر کرتے تو میں کہتی کہ آپ لوٹ آئیے۔ ہم یہیں کسی طرح گزارہ کر لیں گے۔ میں خود بھی کچھ کرلوں گی۔ آخر سلائی، کڑھائی، بنائی میں نے کس دن کے لئے سیکھی ہے۔ ہم دونوں اپنی نیا کے کھویا بن جائیں گے۔ ہم بے پناہ عیش و عشرت سے نہ سہی، دکھ سکھ سے ایک دوسرے کے مونس و غم خوار بن کر زندگی گزار لیں گے۔ ہم ایک دوسرے کے لئے جئیں گے اور ایک دوسرے کا غم بانٹ لیں گے۔
ہمارے ماحول میں اگر سیکڑوں لوگ ہم سے بہتر حالات میں ہیں تو ہزاروں ہم سے بد تر حالات میں بھی تو زندگی گزار رہے ہیں۔ آخر ہم کیوں قناعت پسندی کا مظاہرہ نہیں کر سکتے! آخر ہم میں اپنے سے برتر و بہتر سے مقابلے کی تمنا کیوں ہے؟ اپنے سے کمتر کو دیکھ کر شکر خداوندی کا جذبہ کیوں نہیں ہے؟
اس بار خط میں آپ نے اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے اپنی ایک ضرورت یا خواہش کی تکمیل کی اجازت چاہی ہے۔ آپ نے میری بہت عزت افزائی کی۔ میں آپ کی باندی ہوں اور آپ میرے آقا۔ آپ نے آقا ہوتے ہوئے باندی سے کچھ طلب کیا ہے۔ میں آپ کی کسی خوشی میں کس طرح حائل ہو سکتی ہوں۔ آپ کی خواہش میرے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ کو مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا چاہیے تھا، نہ کہ اجازت۔
مگر اب جب آپ نے مجھ سے اجازت چاہی ہے، مجھے ایک ایسے مشکل فیصلے کے لئے کہا ہے تو میں انتہائی تذبذب میں پڑ گئی ہوں اور اس کٹھن گھڑی میں مجھے ہر مشکل گھڑی کی طرح آپ کی مدد اور آپ کے سہارے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ آپ ہی میری منزل بھی ہیں اور رہنمائے منزل بھی۔ اس مشکل میں بھی ایک اچھے دوست، اچھے ساتھی کی طرح میری رہنمائی کیجئے۔ اس مشکل فیصلے میں میری مدد کیجئے۔
اپنے آپ کو میری جگہ رکھئے اور سوچئے کہ اگر آپ میری جگہ ہوتے تو اس مسئلے کا کیا حل تلاش کرتے۔ تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ میں امریکا میں ہوں اور آپ پاکستان میں۔ یہ خط آپ نے مجھے نہیں بلکہ میں نے آپ کو لکھا ہے، اور خط کا جواب مجھے نہیں بلکہ آپ کو میری طرف سے دینا ہے۔ فیصلہ دیجئے اور اس فیصلے کو میرا فیصلہ سمجھئے، مجھے آپ کا ہر فیصلہ ہر لمحے قبول ہو گا۔ بادل ناخواستہ نہیں، بسر و چشم۔ کیونکہ آپ کے فیصلے کی تائید کرنا میرا اخلاقی، میرا مذہبی اور یقین کیجئے میرا دلی فرض ہے۔ مجھے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جو فرحت و انبساط حاصل ہو گا اس کا آپ کو بخوبی اندازہ ہے۔
خدارا میری جانب سے کسی قسم کی کدورت دل میں نہ لائیے گا ورنہ میرا دین اور میری دنیا تباہ ہو جائے گی۔ مجھے آپ کی خوشیوں سے ایک قلبی سرور حاصل ہو گا۔ خدارا اپنے فیصلے میں تاخیر نہ کیجئے اور مجھے اپنے فیصلے سے مطلع کیجئے۔
آپ کی باندی
ثنا۔