میرے مربّی، دوست اور استاد ڈاکٹر محمد سلیم، جو خود کو ڈاکٹر کہلانے سے کتراتے ہیں حالانکہ نہ صرف خود ڈاکٹر ہیں بلکہ کئیوں کو ڈاکٹر بنا چکے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ نہ خود، نہ ان کے بنائے ہوئے ڈاکٹر کسی کو سوئی لگا سکتے ہیں نہ نزلہ بخار، زکام اور پیچش وغیرہ کی دوائی دے سکتے ہیں کہ یہ وہ لکھنے پڑھنے والے ڈاکٹر ہیں نہ کہ سوئی گھونپنے، دوائی لکھنے اور ڈھیروں پیسے کمانے والے ڈاکٹر ہیں۔ شاید اسی ڈر سے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھتے کہ کوئی رات کے ڈھائی بجے ان کا دروازہ کھٹکھٹائے اور کہے کہ ڈاکٹر صاحب اسی وقت گھر چلئیے، ابا کا قبض ہفتے بھر سے نہیں ٹوٹ رہا، بہت تکلیف میں ہیں۔
اب چونکہ یہ خود کو ڈاکٹر نہیں کہتے تو ہم بھی انہیں ڈاکٹر یا پروفیسر صاحب کے بجائے سلیم بھائی ہی پکاریں گے حالانکہ عمر میں مجھ سے اتنے چھوٹے ہیں کہ میں انہیں سلیم میاں پکار سکتا ہوں لیکن ان کی علمیت اور قابلیت آڑے آتی ہے۔ ویسے بھی میں انہیں اپنا استاد مانتا ہوں۔ ہمارے حلقۂ احباب میں دوچار دوست ہی علم و فضل میں ان کے ہمسر ہیں۔
اس قدر علم و آگہی کے ساتھ ساتھ سلیم بھائی شدید اہل زبان بھی ہیں ۔ شدید اس لئے کہ ان کا وطن مالوف غالباً یوپی کے مضافات یعنی مرزا پور میں کہیں ہے اور مجھ جیسے “نا اہل زبان” دانتوں میں انگلیاں دابے ان کی اردو سنتے ہیں کہ اب ایسی زبان بولنے والے پاکستان میں تو کہیں نہیں رہے، ہندوستان میں بھی خال خال ہی ہیں۔
تو ہوا یہ کہ ہمارے سلیم بھائی نے ایک ہندوستانی اردو اخبار میں ایک مضمون لکھا۔ اس قدر علم و فضل اور زبان و بیان پر اس درجہ عبور کے باوجود سلیم بھائی کبھی کبھار ہی لکھنے کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ لیکن جب وہ لکھتے ہیں تو گویا دبستاں کھلتا چلا جاتا ہے۔ ایسے اچھوتے اور نادر موضوعات پر اس قدر لطیف پیرائے میں لیکن اس قدر جامعیت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ہر تحریر علم و ادب اور تحقیق کا شاہکار ہوتی ہے۔
سلیم بھائی نے اس قدر نادر، انمول اور کارآمد موضوع پر لکھا جس پر اس سے پہلے شاید ہی کسی کی نظر گئی ہو۔ مضمون کا عنوان ہے لوٹوں کی لٹیا۔ اس میں سلیم بھائی نے مختلف قسم کے ( پیندے، بے پیندے وغیرہ وغیرہ) لوٹوں کے بارے میں اس قدر علمیت کے ساتھ لکھا ہے کہ لوٹے بھی اپنی قسمت پر عش عش کر اٹھے ہوں گے۔ لوٹوں کی اس قدر توقیر تو لوٹا بنانے والی کمپنیوں نے بھی نہیں کی ہوگی۔ لوٹے اپنی اس عزت افزائی پر ناز کر رہے ہوں گے۔
یہ مضمون پڑھتا جاتا تھا کہ اپنے اور لوٹوں کی رفاقت کا خیال دل میں جاگتا جاتا تھا کہ جب سے ہوش سنبھالا ہے ان کا ساتھ ہے، اور درمیان میں کچھ عرصہ کے لئے یہ ساتھ ٹوٹ گیا تھا لیکن حالیہ دورہ انگلستان میں یہ دوستی پھر اپنے پرانے رنگ پر آگئی۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
کچھ یوں یاد پڑتا ہے کہ بچپن میں یکے بعد دیگرے کئی گھر بدلے یا لوگوں کو گھر بدلتے دیکھا اور ہر گھر کے سامان کے ساتھ جہاں بستر، چولہا، برتن ہوتے تھے وہیں لوٹا بھی ایک تمکنت کے ساتھ موجود ہوتا اور گھر میں داخل ہوتے ہی مصروف عمل ہوجاتا یعنی اس کا استعمال شروع ہوجاتا۔ گھر کے بزرگ اسے لے کر صحن کے ایک کونے میں وضو کر رہے ہوتے۔ کچھ دیر بعد خاتون خانہ اسی کونے میں کسی نونہال کی “چھی” دھلا رہی ہوتیں۔ کچھ دیر بعد یہ لوٹا بیت الخلا کی پنہائیوں میں گم ہوجاتا اور وہیں سے نمودار ہوتا۔ “ادھر ڈوبے ادھر نکلے”۔
بعد میں جہاں مکان لیا وہاں مسجد میں سردیوں میں ایک بڑے سے ڈرم میں پانی گرم کیا جاتا اور مٹی کے بدھنوں (لوٹوں) میں لے کر وضو کیا جاتا۔ یہ بدھنے “ہیٹ پروف” ہوتے تھے یعنی گرم پانی کی وجہ سے اس طرح گرم نہیں ہوتے جیسے المونئیم یا پیتل کے لوٹے ہوتے ہیں۔ ایک بار شبرات میں ایسا ہی ایک لوٹا لے کر میں غسل خانے چلا گیا تھا۔ آگے جو کچھ ہوا بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس تن لاگے سو تن جانے۔
لوٹوں سے رفاقت، ان سے شیفتگی اور وارفتگی کی ایک طویل داستان ہے۔ یہ لوٹے نہ صرف اطمینان اور فرحت کے لمحات کا باعث بنتے بلکہ تنہائی میں میرے، آپ کے مونس و غم خوار بھی ہوتے۔ انہی کے لئے مومن خان مومن نے صدق دل سے کہا تھا۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
یہ لوٹے میرے کئی رازوں کے امین ہیں۔ وہ ناگفتنی جس سے میرے قریب ترین بھی واقف نہیں ہوتے، لوٹا ان سب کا چشم دید گواہ ہے۔ اس نے میرا، آپ کا سب کچھ دیکھا ہوا ہے۔ یہ دعوا کوئی اور اس قدر شدت اور سچائی سے نہیں کرسکتا۔ اس کی یہی وفاداری ہے جس کے باعث کسی نے کہا تھا
وہ کہیں بھی گیا “لوٹا” تو مرے پاس آیا۔
لیکن بعض اوقات یہ لوٹا چغلی کھا جاتا تھا۔ ہوا یہ کہ بچپن میں ہم کچھ عرصے کے لئے انڈیا چلے گئے۔ انڈیا کے بیت الخلائی معاملات تب بھی دگرگوں تھے اور آج بھی کوئی بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بمبئی جیسے شہر میں آج بھی لوگوں کی بڑی تعداد لوٹا ہاتھ میں لئے ایسی جگہ تلاش کرتی ہے جہاں
اپنا پرایا، مہرباں نا مہرباں کوئی نہ ہو
لیکن ایسی جگہ بہت کم ہی میسر آتی ہے اور مرد و زن، بچے بوڑھے با جماعت تقاضا ہائے فطری سے نبردآزما ہوتے ہیں۔ ہم بمبئی سے کچھ دور ایک قصبے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ یہاں اکثر و بیشتر بمبئی سے ملتی جلتی صورت حال تھی لیکن ہماری ایک خالہ کا گھر ایک بڑی سی حویلی میں تھا اور اس حویلی کا اپنا ذاتی بیت الخلا تھا جو کہ اس تین منزلہ حویلی کی چھت پر تھا۔ اس حویلی میں خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کم از کم پچاس نفوس رہائش پذیر تھے جو اس بیت الخلا میں برابر کے حصہ دار تھے۔
اس حویلی کے کمرے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ ہر نئے نکاح کے بعد حویلی کے کسی کمرے میں ہی نیا کمرہ اٹھا دیا جاتا تھا۔ کوئی بھی یہ حویلی چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا کہ مبادا اس کے جاتے ہی گھر کا بٹوارا ہو جائے اور وہ اپنے حصے سے محروم رہے۔ اکثر بڑے کمروں میں ایک یا دو ذیلی کمرے بن جاتے۔ جوں جوں کمروں کی تعداد بڑھتی، حویلی کے مکینوں کی آبادی بھی بڑھتی جاتی۔
اب ایسے میں اگر کبھی بے وقت (ویسے کیا اس کا کوئی وقت بھی ہوتا ہے؟) کسی کو حاجات ضروریہ کے لئے چھت پر جانا پڑجاتا تو اسے کئی کمروں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا۔ کوئی خاموشی سے چھت پر ہوا خوری یا تمباکو نوشی کا بہانہ نہیں کر سکتا تھا کہ ہاتھ کا لوٹا سارا احوال بیان کر دیتا۔ اسی پر بس نہیں تھا۔ اگر نا وقت ایسا معاملہ پیش آئے تو کسی کمرے میں مکین کوئی بزرگ دریافت حال کرتے کہ یوں اچانک کیوں چھت پر جانا پڑ گیا اور تقریباً نصف درجن لوگوں کو تفصیلات گوش گذار کرنا پڑتیں۔ حویلی کے مکینوں کے لئے یہ معمول کی بات تھی لیکن ہمیں اپنے داخلی معاملات کی اطلاع دینا بڑا عجیب سا لگتا۔ چھت پر پہنچتے تو وہاں پہلے ہی تین چار مرد و زن لوٹا لئے ٹہلتے نظر آتے۔
ادھر اپنے پاکستان میں بیت الخلائی معاملات بہتری کی جانب چل نکلے تھے۔ گھروں میں پہلے تو “اٹیچڈ باتھ” کا رواج ہونے لگا اور لوٹا ہاتھ میں لئے “ذرا سی دیر میں خبر ہوگئی زمانے کو” والا معاملہ تقریباً ختم ہوگیا کہ غسل خانے میں پانی کی لائنیں ہوتی ہیں اور لوٹا ہاتھ میں لئے عازم بیت الخلا ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پھر مسلم شاور نے رواج پایا اور اس کے ساتھ ہی ہمارے دیرینہ رفیق لوٹے کو بھی دیس نکالا مل گیا۔
بچپن کی بات ہے کہ گھر سے کوئی بذریعہ بحری جہاز بیرون ملک سفر پر جارہا تھا۔ ان دنوں بیرون ملک سفر ایک غیر معمولی بات تھی۔ چنانچہ خاندان بھر کے بزرگ اور رشتہ دار ہمارے ہاں جمع تھے اور مشوروں اور نصیحتوں سے جانے والے کو مستفید کررہے تھے۔ مجھے ایک بزرگ کی نصیحت اب تک یاد ہے۔ انہوں نے سامان سفر کا جائزہ لیا اور کہا کہ اس میں لوٹا نہیں ہے۔ لوٹا سفر کے لئے بے حد ضروری ہے۔ چنانچہ لوٹا منگوایا گیا اور سامان میں شامل کیا گیا۔
اس کے کئی سال بعد جب میں جوان ہوا اور سعودی عرب میں بغرض ملازمت گیا اور پہلی بار بذریعہ کار حج کے لئے گیا تو میرے پاس ایک چھوٹے سے شولڈر بیگ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ مجھے تین عشرے پہلے کی بزرگ کی وہ نصیحت یاد آئی اور میں پلاسٹک کا ایک لوٹا خرید لایا۔ اور آپ یقین کیجئے کہ بتا نہیں سکتا کہ یہ لوٹا کس قدر کام آیا۔ وضو کرنے کے علاوہ میں اس میں پانی بھر لیا کرتا جو پینے کے کام آتا۔ میرے کئی ساتھی حجاج نے اس لوٹے سے پیاس بجھائی۔ مجھے یاد ہے میں حرم کعبہ میں اس لوٹے میں زم زم بھر کر لے جارہا تھا کہ ایک نوجوان عراقی خاتون نے مجھے روک کر پانی مانگا اور میں نے لوٹا آگے بڑھا دیا اور اس نے ٹونٹی سے منہ لگا کر پانی پیا اور میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے لوٹا مجھے واپس کیا۔ یہ لوٹا اسلامی اخوت کا مظہر تھا۔
اب یہ بڑی عجیب سی اور ناقابل یقین سی بات ہے لیکن یہ ایک معجزہ ہی تھا کہ دوران حج مجھے لوٹے کے اس استعمال کی ضرورت ہی نہیں پڑی جو اس کا اصل مقصود و مطلوب تھا۔ اور جب واپسی میں طائف کی پہاڑیوں میں “اس” مقصد کے لئے ضرورت پڑی تو یہی لوٹا اس اندھیری رات میں اس سنسان اور ویران مقام پر کام آیا۔ گویا اس ویرانے میں بھی کوئی مونس و ہمدم تھا تو یہی لوٹا تھا۔
لوٹے کی ضرورت پھر کبھی کبھار ہی پڑی کہ سعودی عرب، دوبئی اور کراچی میں جہاں کہیں رہا لوٹے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ لوٹے کی ضرورت پڑی تو سواد سلطنت انگلیشیہ میں پڑی جس کی وجہ سے لوٹا پھر میری زندگی میں داخل ہوا۔ اب چلتے چلتے اس کا احوال بھی سن لیں۔
ہوا یہ کہ مجھے کچھ عرصے کے لئے انگلستان میں رہنا تھا لیکن یہاں پہنچا تو میری طبیعت سخت خراب تھی۔ میرا نظام ہاضمہ شدید متاثر ہوا تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ انگلستان کے غسل خانوں میں شاور یا مسلم شاور کا رواج ہی نہیں۔ انگریز اسے بدعت (Bidet ) سمجھتا ہے۔ گورا تو ٹشو پیپر استعمال کرکے فارغ ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں گھرانوں میں جگ یا مگ نظر آئے جس کے محدود پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ میری بیماری کی وجہ سے یہ بند و بست میرے لئے ناکافی تھا۔ میں نے پہلے تو ایک بالٹی خریدی کہ پانی کی وافر مقدار قریب رہے۔ مزید آسانی کے لئے میں نے لوٹا خریدنے کا فیصلہ کیا۔
میں نے اہل خانہ کو آگاہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور خود لوٹے کی تلاش میں لگ گیا۔ جس کسی سپر مارکیٹ یا شاپنگ مال میں جاتا وہاں برتنوں کے حصے میں میری نظریں اپنے ہمدم دیرینہ کو تلاش کرتیں۔ لیکن بھلا جب اسے کوئی استعمال ہی نہیں کرتا تو وہ وہاں ملتا بھی کیسے۔
ایک اسٹور میں ایک نوجوان سیلز گرل نے مجھے برتنوں والے حصے میں ٹہلتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا میں آپ کی مدد کرسکتی ہوں؟ میرا خیال تھا کہ میں تھوڑی بہت انگریزی میں شد بد رکھتا ہوں اور گوروں سےاپنا مافی الضمیر بیان کرسکتا ہوں۔ لیکن گفتگو شروع کرتے ہی گڑبڑا گیا کہ لوٹے کی انگریزی کیا ہوگی۔ انگریز لوٹا استعمال ہی نہیں کرتا تو اس کی انگریزی بھی کیوں بناتا۔ پہلے تو ہاتھ کے ذریعے اس کی ساخت بتانے کی کوشش کی کہ ایسی صراحی دار گردن ہوتی ہے اور ایسی خم دار کمر کی مانند نچلا حصہ ہوتا ہے جس کے نیچے پیندا ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ہاتھ لہرا کر ٹونٹی کی شکل بنائی۔
وہ کچھ نہ سمجھی۔ جز بز ہو کر بولی کہ آپ کو کس چیز کے لئے چاہئیے۔ میرا ہاتھ بے اختیار اس استعمال کی تفصیل بتانے کے لئے اٹھا لیکن عین وقت پر عقل نے جوش کو لگام دی اور میں ہوش میں آگیا۔ اپنے ہاتھ کو قابو کرتے ہوئے میں نے اسے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں فلسفہ طہارت سمجھانے کی کوشش کی۔ اس پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ گردن ہلا کر مایوسی کا اظہار کیا کہ کم از کم اس سپر مارکیٹ میں تو یہ نادر روزگار چیز نہیں ہے، ساتھ ہی اس نے خیال ظاہر کیا کہ آپ کی مطلوبہ شے کہیں اور بھی نہیں مل سکتی۔ ساتھ ہی مشورہ دیا کہ ٹشو پیپر استعمال کرنے میں کیا قباحت ہے۔۔ یعنی وہ بات سمجھ گئی تھی۔ شکر ہے کہ خدا نے مجھے نازیبا اشارے کرنے سے محفوظ رکھا۔
آخر کار میری بیٹی نے کہیں سے آن لائن لوٹا دریافت کر ہی لیا اور دو دن بعد غسل خانے میں اس ہمدم طرح دار و خم دار کو دیکھ کر بانچھیں ایسی کھل گئیں گویا برسوں کا بچھڑا پرانا ساتھی مل گیا ہو۔
لوٹے کے بات نکلی ہے تو شاید کچھ دوستوں کو امید ہوگی کہ میں ان بے پیندے کے لوٹوں کا ذکر بھی کروں گا جو ہمارے ہاں، یہاں سے وہاں لڑھکتے رہتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ میں غلیظ چیزوں کی بات کرکے اپنی اور آپ کی طبیعت منغض نہیں کرنا چاہتا۔
جس لوٹے کو میں جانتا ہوں وہ تو صرف پاک صاف مقاصد کے لئے کام آتا ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت مطمئن اور مطہر ہوتی ہے۔ جو میری اندر کی باتوں کا امین ہے۔ میری تنہائیوں کا ساتھی ہے۔
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں