﷽
ایک عالم دین نے سوال کیا ہے کہ عربی اور اردو میں اتنی بڑی تعداد میں کتب تفسیر کے ہوتے ہوئے آپ مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کا حوالہ کیوں دیتے ہیں؟
جواب
یہ ایک مخلص انسان کا سوال ہے، اور ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔ بعید نہیں کہ یہ سوال کچھ اور لوگوں کے ذہنوں میں بھی اٹھتا ہو، اس لئے مناسب سمجھا جا رہا ہے کہ اس کا معقول اور سنجیدہ جواب دینے کی کوشش کی جائے۔ جواب تین نقاط پر مشتمل ہے: تمہید، قران کریم کے تئیں علماء کی دو ذمہ داریاں، اور تفہیم القرآن کا امتیاز۔
تمہید
تمہید کے طور پر دو باتوں کی طرف توجہ مطلوب ہے:
پہلی بات یہ ہے کہ مجھے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے کوئی دشمنی نہیں، نہ ان سےکوئی حسد ہے اور نہ نفرت، بلکہ اس کے برعکس میں ان کا احترام کرتا ہوں اور ان کا شکر گزار ہوں۔ ہر وہ عالم جس سے مسلمانوں کے کسی طبقہ کو رہنمائی ملے، جو مسلمانوں کو ان کے پروردگار سے قریب کرے، دین کے متعلق ان کے شکوک و شبہات دور کرے مجھے اس سے محبت ہے اور میں اس کو واجب التعظیم سمجھتا ہوں، اور اس احسان شناسی کو باعث اجر و ثواب سمجھتا ہوں۔ مولانا مودودی سے برصغیر ہند و پاک، بنگلہ دیش، عالم عرب، اور یورپ و امریکا میں لاکھوں مسلمانوں نے فائدہ اٹھایا ہے، اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور سے تعلیم یافتہ طبقہ کی دینداری میں ان کی تحریروں کا بڑا کردار ہے۔ عصر حاضر میں عرب و عجم کے کسی عالم کا اثر اتنا وسیع اور گہرا نہیں رہا۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو اتنی کھلی حقیقت دکھائی نہ دیتی ہو۔ الحمدللہ مجھے دکھائی دیتی ہے اور میں اپنی آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں مسلمانوں کے قدیم و جدید تمام علماء کا حوالہ دیتا ہوں۔ جس سے کوئی بات اخذ کرتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ اس کا اعتراف کروں، اور جس سے مسلمانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ نہ ہر مضمون میں مولانا مودودی کا ذکر کرتا ہوں اور نہ کسی اور عالم کا، بلکہ جب کوئی مناسبت ہوتی ہے تو علماء و مفکرین کا حوالہ آجاتا ہے۔ اسی طرح مولانا مودودی کی تصنیفات میں سے جو میرے نزدیک مفید ہیں ان کا ذکر کرتا ہوں، مثلاً تفہیم القرآن، تنقیحات، خطبات، رسالۂ دینیات، سود وغیرہ۔ جن کتابوں کے کسی حصہ سے مجھے اختلاف ہے، موقع و مناسبت سے اس اختلاف کا ذکر بھی کر دیتا ہوں۔ میرے نزدیک مولانا مودودی دوسرے تمام علماء کی طرح ہیں۔ حجۃ السلام مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی، سر سید احمد خان، خواجہ الظاف حسین حالی، علامہ شبلی نعمانی، نواب حبیب الرحمن خان شروانی، علامہ عبدالحی حسنی، مولانا حمیدالدین فراہی، حکیم الامت اشرف علی تھانوی، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالحسن علی ندوی وغیرہ، ان تمام اہل فکر و دانش سے اتفاق بھی کیا جاسکتا ہےاور اختلاف بھی۔ ہم ان کی جن باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں انہیں سراہتے ہیں اور جن باتوں کو غلط سمجھتے ہیں ان کے متعلق ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ اسی طرح میرا معاملہ بھی ہے۔ ہر عالم کو حق حاصل ہے کہ مجھ سے اختلاف کرے اور میری غلطیوں کی نشاندہی کرے۔ البتہ مسلمانوں سے نفرت کرنا اور ان کو اذیت پہنچانا جائز نہیں ہے۔
دو ذمہ داریاں
قرآن کریم کے تئیں علماء کی دو ذمہ داریاں ہیں:
ایک تو اسے اس طرح سمجھنے کی کوشش کریں جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا۔ اس کے لئے قرآن کی زبان کا علم ضروری ہے۔ جاہلی اشعار سے واقفیت، اساب نزول کا علم، تفسیر کے متعلق وارد صحیح احادیث و آثار کا علم ، یہ ساری باتیں فہم کتاب اللہ کے لوازم و مقدمات ہیں۔ ان چیزوں کے جاننے کے لئے صحیح بخاری وغیرہ کی کتب التفسیر، تفسیر طبری، تفسیر کشاف، تفسیر کبیر، تفسیر ابن کثیر وغیرہ مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اردو کی اکثر تفسیروں میں اسی مواد کو کم و بیش دہرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری ذمہ داری ہے کہ اس صحیح مفہوم کو اپنے مخاطبین کی زبان میں پیش کریں۔ ان کے زمان و مکان کی رعایت کریں اور ان کے علمی، فکری اور ثقافتی پس منظر کو ذہن میں رکھیں۔ جو لوگ قدیم عربی تفاسیر کے اقوال کو اردو میں نقل کرتے ہیں وہ صرف پہلی ذمہ داری پوری کرتے ہیں، ان کی تفسیر ان کے مخاطب کے لئے غیر مفید ہوتی ہے۔
تفہیم القرآن کا امتیاز
قرآن کریم کے مطالب کو اپنے عہد کے مخاطبین کے سامنے کس طرح پیش کیا جائے، بر صغیر میں اس کوشش کی ابتدا شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کی، پھر ان کے صاحبزادوں نے اسے کسی قدر جاری رکھا۔
عصر جدید میں مولانا حمیدالدین فراہی نے مختلف پہلوؤں سے قرآن کریم کی خدمت کی۔ ان کے اثرات بڑے وسیع اور گہرے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالاعلی مودودی وغیرہ سب نے کسی نہ کسی حد تک مولانا فراہی کی خوشہ چینی کی ہے۔ مولانا فراہی کی علمی امانت کو اردو میں منتقل کرنے کا کام ان کے شاگرد رشید مولانا امین احسن اصلاحی نے کیا۔
مولانا امین احسن اصلاحی اور مولانا مودودی کی تفسیریں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تاہم ان میں ایک چیز مشترک ہے اور ایک چیز مختلف ہے۔ مشترک بات یہ ہےکہ ان دونوں نے قرآن کریم کے پیغام کو جوں کا توں پیش کرنے کی کوشش کی۔ اسے نہ نحوی کتاب بنایا، نہ اسے فقہی فروعات و جزئیات سے گرانبار کیا۔ نہ ہی اسے علم کلام یا تصوف کی کتاب بنانے کا تکلف کیا۔ دونوں نے پوری توجہ اس بات کی تشریح پر مرکوز کی کہ قرآن اللہ تعالی کا ہدایت نامہ ہے، وہ انسانوں تک خدا کا پیغام ہے، اور اس کی یہ بنیادی حیثیت کسی قسم کی آمیزش کے نتیجہ میں متاثر نہیں ہونی چاہئے۔
دونوں میں فرق یہ ہے کہ تدبر قرآن (جلد ١، جلد ٢، جلد ٣، جلد ٤، جلد ٥، جلد ٦, جلد ٧، جلد ٨، جلد ٩) پر عالمانہ رنگ کا غلبہ ہے،جب کہ تفہیم القرآن (جلد ١، جلد ٢، جلد ٣، جلد ٤، جلد ٥، جلد ٦) پر داعیانہ رنگ کا۔ اسی فرق کا نتیجہ ہے کہ تفہیم القرآن جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے لئے زیادہ مفید ہے، اور تدبر قرآن علماء کے لئے۔
مولانا مودودی نے جس طرح اپنے عہد کو سمجھا اور جس طرح اپنے مخاطبین کی رعایت کی وہ حیرت انگیز ہے۔ عربی اور اردو میں کوئی تفسیر نہیں جو تفہیم القرآن کی ہمسری کا دعوی کرسکے۔ عربی ميں في ظلال القرآن (جلد ١، جلد ٢، جلد ٣، جلد ٤، جلد ٥، جلد ٦)بھی عصر حاضر کی زبان میں لکھی گئی ہے مگر سید قطب شہید چونکہ ایک مایۂ ناز ادیب ہیں اس لئے ان کی تفسیر پر یہ پہلو غالب ہے، اور اس میں شک نہیں کہ قرآن کے معجزانہ اسلوب کی توضیح میں زمخشری کی کشاف کے بعد سید قطب کی تفسیر کے برابر کوئی تفسیر نہیں۔
حاصل یہ ہے کہ مولانا مودودی کی تفسیر عصر حاضر کے پڑھے لکھے انسانوں کے لئے سب سے زیادہ کامیاب تفسیر ہے۔ مولانا مودودی کے بعد علم و فکر کی دنیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں اور ایک نئی تفسیر جو ہمارے عہد میں تفہیم القرآن کی جگہ لے سکے امت پر قرض ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو بہترین بدلہ دے اور جن علماء و مفکرین نے اس دین کی خدمت کی ہے یا کر رہے ہیں سب کی مغفرت فرمائے، سب کے درجات بلند کرے، اور ہمیں سب سے استفادہ کی توفیق دے، آمین۔